عمران خان اور روحانیات…کنور دلشاد
وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت مکمل ہو چکی ہے اورصدر مملکت کے عہدے پر ڈاکٹر عارف علوی کے منتخب ہونے کے بعد تمام اعلیٰ آئینی ‘ پارلیمانی عہدوں کے اہداف بخوبی حاصل کئے جا چکے ہیں ۔ وفاقی حکومت اب عملی میدان میں اتر چکی ہے ۔عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد احساس ہو رہا ہوگا کہ اپوزیشن کی جماعتیں ان کو کس نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ عمران خان نے 2013ء سے2018ء تک بھرپور اپوزیشن جارحانہ انداز سے کی ‘ وہ بلند حوصلہ بھی تھے اور پر عزم بھی ۔وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور بے پناہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کر لیا۔ اب انہیں پارلیمنٹ میں ایک مضبوط حز ب اختلاف کا سامنا ہے‘ جس کے سامنے ان کی چار ارکان کی معمولی اکثریت ہے اور ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی مزید چند نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کو مستقل پریشانی سے نجات مل جائے گی ۔ اگر ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے تو وہ ایک غیر مستحکم حکومت کے سر براہ ہوں گے‘ جس کا زیادہ وقت حکومت کے توازن کو بر قرار رکھنے پر صرف ہوگا‘ جبکہ سینیٹ میں انہیں قانون سازی کے عمل پر بھی سخت مشکلات پیش آئیں گی اور مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا ۔ اپوزیشن جس انداز میں حکمت عملی تیار کر رہی ہے‘ وزیر اعظم عمران خان کی کچن کیبنٹ کو مکمل آگاہی حاصل ہے ‘ پی پی اپوزیشن نے بظاہر نواز لیگ سے دوری رکھی ہوئی ہے‘ لیکن خاص منصوبہ بندی کے بعد ان کے شہباز شریف سے گہرے رابطے ہیں۔متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اندر بیٹھ کر کھیل کھیلنے کا مضبوط سیاسی فیصلہ کیا ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان کو اکثریت حاصل کر کے وزیر اعظم بننے اور پنجاب میں حکومت بنانے کی راہ ہموار کرنے میں نواز شریف کی حکمت عملی کا حصہ تھا ‘تاکہ ان کی حکومت کو گرا کر اخلاقی اور سیاسی برتری حاصل کریں۔
عمران خان مستحکم انداز میں پانچ سال پورے کرنے کے خواہش مند ہیں تو ایسے وزرا اور مشیر ہی ساتھ دیں گے‘ جو صاحب بصیرت ہیں۔ عمران خان سے مخلص‘تحمل مزاج‘ اور حکومتی امور کا تجربہ رکھتے ہیں ۔عمران خان کے بعض وزرا ان سے غیر ضروری محاذ کھلا کر حکومت کے لئے مشکلات پید اکر رہے ہیں اور ان کی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔عمران خان خود احتسابی کے عمل سے گزرتے رہے تو غلطیوں کا ازالہ بھی ممکن ہے ۔ عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی ان سے بے پناہ توقعات ہیں‘ جو پوری نہ ہوئیں تو رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوگا کیونکہ پاکستان کی عوام گزشتہ کافی عرصے سے شدید اضطراب کا شکار ہے ۔ ہمارے عوام جذباتی ہیں اور جلد باز بھی۔ وہ اب تبدیلی کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں ۔سوشل میڈیا اب معاشرے کا طاقتور ایٹمی ذرہ بن چکا ہے ۔ اپوزیشن کے میڈیا ہائوسز نے عمران خان کی کار کردگی پر ریڈار نصب کیا ہو اہے ‘ان کا موقف ہے کہ عمران خان کے پاس حکومت ہے ‘ تمام وسائل اور اختیارات ہیں ‘اس لئے وہ عوام کو وہی ریلیف دیں ‘جس کا انہوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں دعویٰ کیا تھا ۔ ویسے تو عمران خان کو بھی ان حقائق کا مکمل ادراک ہے اور ان کی پشت پر محترمہ بشری ٰ بی بی کھڑی ہیں جو عمران خان کو مذہبی ‘روحانی اور سیاسی امور پر بہترین مشورہ دیتی ہیں‘ جن کی بدولت سیال شریف‘ سلطان باہو شریف‘مانکی شریف اور پاکپتن شریف کے پیروں کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے ۔ انہیں بریلوی اور روحانی حلقوں میں کافی اثر و رسوخ حاصل ہے۔
عمران خان خوش قسمت ہیں کہ عسکری قوت سے ان کی ہم آہنگی ہے ‘وزیر اعظم کو جس طرح جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کی تفصیلی بریفنگ دی گئی اور پھر 6ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر تقریب میں مہمان خصوصی بنایا اور چند روز پیشتر ان کو آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بھی بریفنگ دی گئی‘ یہ سب ان کی آرمی میں مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ عدلیہ سے بھی ان کی کوئی محاذ آرائی نہیں ۔ عمران خان کے چند وزرا‘ مشیر گرامی اور بیورو کریٹس نیب میں مبینہ الزامات پر کیس بھگت رہے ہیں اور قومی احتساب بیورو سے جونہی ان کے وزرا اور چند بیورو کریٹس سزا یافتہ قرار دئیے گئے ان کی تحریک انصاف میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔
اس وقت اپوزیشن بظاہر دو حصوں میں منقسم ہے ‘شہباز شریف اپنی سیاسی چالوں سے عمران خان کے قریب آنے کی کوشش کریں گے ‘ لیکن ان کی راہ میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں‘شہباز شریف اپنے دوست مرحوم بریگیڈیئر نیاز احمد کی وساطت سے پرویز مشرف سے سیاسی اور سفری فوائد حاصل کرتے رہے اور مولانا فضل الرحمان پانچ سال تک صدر مشرف کے ہم سفر رہے اور بعد ازاں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے بھی جمہوری دوست بنے رہے ۔ شہباز شریف اس طرح کی چالیں چلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن عمران خان عمران خان جمہوری عمل میں ملاوٹ نہیں کرنے دیں گے ۔سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جب تک آصف علی زرداری کے ایف آئی اے میں کیس چلتے رہیں گے عمران خان کو پیپلز پارٹی اپوزیشن سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔شہباز شریف پہلی مرتبہ اپوزیشن میں آئے ہیں اور ابھی تک حکمرانی کے نشے سے باہر نہیں آئے اور انہیں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان اپنی عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اپوزیشن کی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے رابطے استوار کریں‘ ورنہ انہیں قانون سازی میں مشکلات پیش آئیں گی اور سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے خوشگوار تعلقات رکھنے کے لئے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو آگے بڑھائیں‘ ان کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے ذاتی تعلقات ہیں اور ان سیاسی راہنمائوں سے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔اب عمران خان کو فتح کے سحر سے نکل کر زمینی حقائق کے تقاضوں کے مطابق عجلت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے ۔ الزامات کی سیاست سے کچھ حاصل نہ ہوگا‘اور اپنے بعض وزراپر کنٹرول بھی بہت ضروری ہے ‘ کیونکہ ضمنی انتخابات تحریک انصاف کے لئے نیاا متحان ہوںگے۔
چوہدری پرویز الٰہی کی حکمت عملی کی وجہ سے پنجاب میں سخت اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ‘ ان کی ہمیشہ سے یہی حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ تعلقات متوازن رکھتے ہیں اور مشاہد حسین سید بظاہر مسلم لیگ ن میں چلے گئے ہیں‘ لیکن انہوں نے ان کے بارے میں ہمیشہ اچھے کلمات سے ہی اظہار کیا ۔مشاہد حسین سید محض سینیٹر بننے کے لئے عجلت میں نواز لیگ میں چلے گئے تھے‘ ان کی سیاسی بصیرت نے ان کا ساتھ نہیں دیا‘ اگر وہ سینیٹ کی نشست کی خاطر ایسا قدم نہ اٹھاتے تو وہ نگران وزیر اعظم بھی ہوتے اور تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد چوہدری سرور کی خالی ہونے والی نشست پر سینیٹر بھی منتخب ہو جاتے اور وزیر خارجہ کی اہم ذمہ داریاں بھی سنبھالتے‘ جن کی وجہ سے پاک چین تعلقات میں مزید گرمجوشی پیدا ہوتی ۔
عمران خان دو راہے پر کھڑے ہیں اور ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بعض غیر ملکی طاقتیں بھی ملوث ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے بھی متنازعہ ہوتے جا رہے ہیں ‘ لہٰذاعملیت پسندی سے اب اپنی کابینہ کے بارے میں از سر نو غو رو خوض کریں اور محمد میاں سومرو کے بارے میں جو غیر دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کا ازالہ کریں۔محمدمیاں سومرو دو بار چیئرمین سینٹ‘گورنر سندھ‘ نیشنل بینک آف پاکستان کے تین بار صدر اور عبوری وزیر اعظم رہے‘ تو ان کو وزیر مملکت کے لئے حلف اٹھانے کے لئے بلانا غیر مناسب تھا۔ عمران خان روحانیت کی طرف مائل ہو چکے ہیں تو انہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ محمد میاں سومرو کو مولانا بشیر احمد فاروقی کی روحانی سر پرستی حاصل ہے۔ حضرت مولانا بشیر احمد فاروقی کا سلسلہ نسب حضرت باوا ذہین شاہ تاجی سے ملتا ہے‘ جنہوں نے صدر ذو الفقار علی بھٹو کی خصوصی استدعا پر چودہ اگست 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد قومی اسمبلی میں خصوصی دعا کروائی تھی‘ جن کی دعا کی بر کت سے پاکستان کا آئین محفوظ رہا۔