عمران خان اور مبینہ گدھے….سلیم صافی
جن ممبران اسمبلی نے سینیٹ انتخاب کے دوران ووٹ فروخت کئے وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ۔ وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکا ہیں ۔ وہ اپنے اپنے صوبے اور علاقے کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔ انہوں نے اپنے ہزاروں ووٹرز کے جذبات کا خون کیا۔ انہوں نے اپنی قیادت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔’’جرگہ‘‘ میں اس معاملے پر انتخاب سے پہلے بھی شور مچایا اور بعد میں بھی چیخ و پکار کرتا رہا ۔ ٹی وی پروگرام کئے اور کالم لکھے ۔ بدقسمتی سے بے شرمی اور بے غیرتی کا یہ کھیل فاٹا ، پختونخوا اور بلوچستان میں زیادہ زوروں پر رہتا ہے جو غیرت اور وفاداری کے لئے مشہور بلوچوں اور پختونوں کی دھرتی ہے۔ سو ووٹ فروخت کرنے والے اتنے بے غیرت ہیں کہ وہ غیرتمند قوموں کو بدنام کرتے ہیں ۔ اس لئے ان نام نہاد پختونوں کو میں پختونوں کا اور ان نام نہاد بلوچوں کو میں بلوچوں کا دشمن سمجھتا ہوںجو ان باضمیر اقوام کو دنیا میں بے ضمیر مشہورکرتے ہیں ۔ تبھی تو میں نے انہیں گدھوں سے بھی بدتر قرار دیا اور اب اگرعمران خان نے ان بے ضمیروں کو نمونہ عبرت بنانے کا قدم اٹھایا تو وہ بہر صورت خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ انہوں نے یہ فیصلہ سیاسی مصلحت کے لئے کیا یا نیک نیتی سے ، بہر حال اس کے نتیجے میں لوٹوں اور ضمیر فروشوں کو ایک سبق ملے گا اور یوں یہ اقدام لائق تحسین ہے
۔اسی طرح جن جن سیاسی جماعتوں نے اپنے ضمیر فروشوں کے خلاف کارروائی نہیں کی ، وہ اسی طرح قابل مذمت ہیں جس طرح ووٹ فروخت کرنے والے ہیں ۔ وہ جس بھی مصلحت کے تحت ایسا نہیں کرسکتے ، بہر حال ضمیر فروشی کے مکروہ کھیل کو فروغ دینے کے مرتکب ہورہے ہیں ۔اور مسلم لیگ(ن) ہو یا ایم کیوایم ، وہ جب تک پنجاب اور سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں بکنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے، تب تک ان کے پاس ہارس ٹریڈنگ جسے میں ڈنکی ٹریڈنگ کہتا ہوں کے خلاف شور مچانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔ اس تناظر میں عمران خان زندہ باد اور بہر صورت زندہ باد لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان سب لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے ووٹ فروخت کئے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کہیں بعض ایسے ممبران اسمبلی پر تو ڈنکی ٹریڈنگ کا الزام نہیں لگایا گیا کہ جو بے قصور ہیں یا کہیں ایسے لوگوں کو بھی تو بدنام نہیں کیا گیا کہ جو پی ٹی آئی کا حصہ ہی نہیں تھے ۔ میں مانتا ہوں کہ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ، اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے بارے میں پہلے دن سے کہا جارہا تھا کہ وہ ووٹ فروخت کرچکے ہیں لیکن افسوس کہ حسب عادت ان کے خلاف کارروائی کرتے وقت تحریک انصاف کی قیادت نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے ۔ اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی نظرآتے ہیں جن کے بارے میں گمان ہے کہ انہیں قیادت سے قربت کی وجہ سے بچایا گیا۔ بعینہ بعض ایسے لوگوں کو بھی بدنام کیا گیا جن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ میاں نوازشریف اور عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی غلطی سے صحیح کام بھی کرتے ہیں تو غلط وقت پر ، غلط انداز میں کرتے ہیں ۔ مثلاً جن لوگوں نے ووٹ فروخت کئے ان کے نام وزیراعلیٰ کو پہلے دن سے معلوم تھے کیونکہ ان لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لئے انتخابات کے وقت تک وزیراعلیٰ ان سے رابطے میں بھی رہے اور ان کو پیشکش بھی کرتے رہے ۔
انتخاب سے قبل اس معاملے پر بارگیننگ کے لئے وزیراعلیٰ اور پیپلز پارٹی کے خریداروں کے مابین مذاکرات بھی ہوئے ۔ اس کے تدارک کے لئے پی ٹی آئی نے ارب پتیوں کو پارٹی ٹکٹ دئیے اور اسی لئے پی ٹی آئی نے اپنے ایم پی ایز کو بھی پیسے دئیے ۔ اس کھیل کا اعتراف پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے مبینہ لوٹوں کے خلاف کارروائی سے بہت پہلے ٹی وی پر آکر کرچکے ہیں ۔ اب جب پارٹی خود اپنے ایم پی ایز کو ووٹ کے بدلے نوٹ دے تو پھر وہ دوسروں کے ہاں کیوں فروخت نہ کریں ۔ اسی طرح پارٹی کے مخلص اور باصلاحیت ورکروں کو ٹکٹ دینے کی بجائے پارٹی خود دولت کی بنیاد پر ٹکٹ دے تو پھر ایم پی اے کو بھی میرٹ کی بجائے دولت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی ترغیب کیوں نہ ملے ۔ بہر حال سب کچھ جاننے کے باوجود پہلے وزیراعلیٰ اور عمران خان صاحب نے پردہ ڈالنے کے لئے یہ غلط دعویٰ کیا کہ ان کے تیرہ چودہ ممبران بکے ہیں لیکن میں دعویٰ کرتا رہا کہ بکنے والوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے ۔ اسی طرح شروع میں پی ٹی آئی یہ بات چھپا رہی تھی کہ بکنے والوں میں وزیر اور مشیر بھی شامل ہیں لیکن میں کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں دعویٰ کرتا رہا کہ گدھا بن جانے والوں میں ایک وزیر اور مشیر بھی شامل ہے ۔ اب الحمد للہ خود خان صاحب نے مان لیا کہ تعداد بیس ہے اور ان میں ایک وزیر اور ایک مشیر بھی شامل ہے ۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ جس پارٹی کی قیادت کے چنے ہوئے ممبران اسمبلی میں ایک تہائی لوگ بکنے والے ہوں ، اس کو کیسے پورے ملک کا اختیار دیا جاسکتا ہے اور یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ جو حکومت ان لوگوں نے گزشتہ پانچ سال چلائی ہو، اس کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ اس حکومت میں کرپشن نہیں تھی لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو پارٹی فورمز پر بلا کر صفائی کا موقع کیوں نہیں دیا گیا اور ان ثبوتوں کے ساتھ ان کو چیلنج کیوں نہیں کیا گیا جن کی بنیاد پر لسٹ بنا کر ان کے خلاف اب کارروائی کی گئی ہے ۔ جن ایم پی ایز کے خلاف کارروائی کی گئی ، ان میں آٹھ ایسے ہیں جو ماضی میں میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ اور وزراء کی کرپشن کی فائلیں عمران خان صاحب کو دی ہیں لیکن ان معاملات پر کوئی انکوائری نہیں ہوئی اور اس کے بعد بھی یہ ایم پی ایز آج تک پی ٹی آئی کے ایم پی ایز رہے ۔ اب اگر واقعی میرٹ پر فیصلے ہونے تھے تو گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران ان لوگوں کے الزامات پر تحقیقات کیوں نہ ہوئیں یا پھر ان کو وزیراعلیٰ اور وزراء پر اتنے سنگین الزامات لگانے کے باوجود پارٹی سے کیوں نہیں نکالا گیا۔ جب عمران خان صاحب مبینہ لوٹوں یا مبینہ گدھوں کے خلاف کارروائی کے اعلان پرمبنی پریس کانفرنس کررہے تھے تو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں شوکت یوسفزئی بھی تھے ۔ اب کرپشن کا الزام لگا کر عمران خان صاحب نے ان کو اور یاسین خلیل کو وزارت سے فارغ کیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے واقعی کرپشن کی تھی تو پھر اس کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔ ان کو اس کے بعد پارٹی عہدے کیوں دئیے گئے ۔ ابھی کل ہی شوکت یوسفزئی کو دوبارہ وزیراعلیٰ کا ترجمان مقرر کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف خان صاحب کا الزام درست تھا تو پھر انہیں اسمبلی اور پارٹی سے کیوں نہیں نکالا گیا اور اگر غلط تھا تو پھر اس پر خان صاحب اور وزیراعلیٰ نے قوم کے سامنے ان سے معذرت کیوں نہیں کی ۔ سب سے عجیب تماشہ ہے کہ خان صاحب نے جن ایم پی ایز کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ، ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہی نہیں اور جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے پابند ہی نہیں تھے ۔ مثلا اس فہرست میں ایک نام بابر سلیم ایم پی اے کا بھی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بابر سلیم پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہی نہیں ہوئے تھے ۔ وہ ترکئی گروپ کی طرف سے صوابی سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے ۔ پھر ترکئی گروپ نے حکومت میں شمولیت اختیارکی تھی لیکن بابر سلیم دو سال قبل ترکئی گروپ سے بھی الگ ہوئے تھے ۔ پانچ چھ ماہ قبل وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تھے اور صوابی میں امیر مقام کی موجودگی میں ایک بڑے جلسے میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ سینیٹ انتخابات کے دوران وہ کھل کر مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو سپورٹ کررہے تھے اور ان کے لئے مہم بھی چلارہے تھے ۔ اب خان صاحب نے ان پر بھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ان کے خلا ف کارروائی کا اعلان کیا۔ اسی طرح وجیہ الزمان ایم پی اے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے ۔ کچھ عرصہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق وہ نون لیگ کے ایم پی اے رہے ۔ عمران خان کے اعلان سے کئی روز قبل وہ چوہدری شجاعت کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوگئے تھے لیکن خان صاحب نےان کو بھی پی ٹی آئی کے کوٹے میں ڈال دیا۔ یوں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مناسب تحقیق نہیں کی گئی اور کچھ لوگوں کو بچانے کے لئے بیس کی تعداد پوری کی گئی ۔دینی تعلیمات کی رو سے رشوت لینے اور دینےوالا دونوں دوزخی ہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو جس پیپلز پارٹی نے خریدا، اسے چند ہی روز بعد ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ دے کرخان صاحب نے الٹا نواز دیا۔ یہ شاید عمران خان صاحب کا انصاف ہے کہ جس میں رشوت لینے والا تو لائق تعزیر لیکن رشوت دینے والا عنایتوں کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ تاہم پھر بھی بحیثیت مجموعی عمران خان کے اس اقدام کو سراہنا چاہئے کیونکہ تحریک انصاف کا انصاف ایسا ہی ہوتا ہے۔