عمران خان روشن پاکستان کی طرف…کنور دلشاد
حالیہ انتخابات میں عمران خان نے مخالف جماعتوں کو حیران کر دیاہے۔ تحریک انصاف نے 1970ء کے انتخابات کی طرز پر بڑے بڑے برج گرا دئیے اور ملک کی اکثریتی جماعت بن کر اقتدار کے ایوانو ں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ‘پری پول رگنگ‘ میںکوئی صداقت نہیں۔ تحریک انصاف کی سیاست کا میں 2013ء سے مشاہدہ کرتا رہا ‘اس جماعت نے مئی 2013ء کے انتخابی نتائج کو جمہوری نظریہ ضرورت کے تحت تسلیم کرتے ہوئے اپنے شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے چار قومی ا سمبلی کے حلقوں میں از سر نو گنتی کا مطالبہ کیا‘ جسے اس وقت کے وزیر اعظم کی خواہش پر سابق ارکانِ الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی انہیں الیکشن ٹربیو نلز سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اب 2013ء کے انتخابات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں‘ لیکن ان انتخابات کے تسلسل میں 2018ء کے انتخابات کو متنازعہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی کار کردگی سیاسی حلقوں کی شدید نکتہ چینی کی زد میں ہے۔ اس کی وجوہ نادرا کا بنایا ہوا نظام اور ان کی نا اہلی ہے اور انتخابی نتائج میں تاخیر کو تکنیکی مسائل کا شاخسانہ ظاہر کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چاروں صوبوںکی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے ساڑھے آٹھ سو ریٹرننگ افسران کا تقرر کیا‘ جنہوں نے قانون کے مطابق اپنے فرائض خوش اسلوبی سے پورے کئے‘ مگر سیاسی جماعتوں کے اپوزیشن حلقوں نے بعض ریٹرننگ افسران کی نا اہلی کی وجہ سے الیکشن متنازعہ بنانے میں اہم کر دار ادا کیا ۔ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 13کے تحت ریٹرننگ آفیسر دو بجے تک نتائج دینے کا پابند ہے۔ آر ٹی ایس اور آرایم ایس جیسی اصطلاحات یو این ڈی پی اور یو ایس ایڈ اور برطانوی فارن فنڈنگ کے ادارے سے حاصل کی گئیں ‘ جو عوام کی سمجھ سے با لاتر تھیں ۔ آر ٹی ایس اور آر ایم اسی کی سست رفتاری اور کمیشن کی طرف سے سسٹم میں غلطیوں کے اعتراف پر تمام ریٹرننگ افسران مزید سست پڑ گئے۔اب یہ حقیقت سامنے آنی چاہیے کہ عام انتخابات 2018ء میں نتائج کی تاخیر کا ذمہ دار سسٹم آر ٹی ایس کا سافٹ ویئر الیکشن کمیشن نے نہیں ‘بلکہ نادرا نے تیار کیا تھا‘ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کئے جانے والے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کا تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا۔ آر ٹی ایس کی ناکامی میں تکنیکی وجوہ سے زیادہ انتظامی وجوہات کا عمل دخل رہا ہے ۔
اکثر پولنگ سٹیشنوں پر انٹرنیٹ کے سگنل نہ ہونے اور متعلقہ پریذائڈنگ افسران کی جانب سے کمرے کے اندر ہی سے آر ٹی ایس کو استعمال کرنے کی کوششوں کی وجہ سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ الیکشن کمیشن پر تنقید کا سبب بننے والے آر ٹی ایس سسٹم کے لیے نادرا کی جانب سے ان کے ملازمین کو ملک بھر میں تعینات کیا گیا تھا اور نادرا کے ملازمین نے ہی یہ سافٹ ویئر پریذائڈنگ افسران کے موبائل فون پر نصب کیا تھا ۔ اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے کے لیے الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیان 15فروری 2018ء کو باقاعدہ معاہدہ ہوا۔ آر ٹی ایس سٹم ملک بھر کے 82000پولنگ سٹیشنوں پر تعینات پریذائڈننگ افسران کے اینڈرائیڈ موبائل پر نصب کیا گیا تھا ‘ اور اس سسٹم کے استعمال کے حوالے سے منعقدہ ٹریننگ کے موقع پر پریذائڈنگ افسران کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اگر پولنگ سٹیشن کے اندر آر ٹی ایس سسٹم کو بھجوانے میں دشواری ہو تو بہتر سگنل کے حصول کے لیے کسی دوسرے مقام سے کوشش کریں‘تاہم پولنگ سٹیشنوں پر رزلٹ کائونٹ ہونے کے بعد پریذائڈنگ افسران نے کمروں کے اندر ہی سسٹم کو استعمال کرنے کی کوشش کی ‘ جس کی وجہ سے انتخابات کا رزلٹ پہچانے میں تاخیر ہوئی ۔نادرا نے ہر صوبے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں جو آر ٹی ایس کا سسٹم نصب کیا تھا ‘وہ اچانک زمین بوس ہو گیا اور نادرا کی صلاحیتوں کا پول کھل گیااور ان کی نا اہلی کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان شدید تنقید کی زد میں آ گیا ۔نادرا کے پراسرا کر دار پر انکوائری ہونی چاہئے ۔
ان انتخابات پر جو شک و شبہ کیا جا رہا ہے‘ اس میں بالکل وزن نظر نہیں آ تا‘ مگر مقام ِفکر ہے کہ سابق حکمران جماعت کے فعال میڈیا نے الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ ان کے انداز فکر میں جانبداری کا عنصر نمایاں تھا ‘ جس سے آزاد میڈیا کا تصور باقی نہیں رہتا ۔ فوج نے صاف‘ شفاف انتخابات کروانے کے لیے آئین کے آ رٹیکل 220اور245کے تحت معاونت کی اور عدلیہ نے ان معاملات پر نظر رکھی اور الیکشن وقت پر ہو ئے ۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے‘پاکستان بجا طور پر ایک فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے‘پولنگ اور گنتی کے دوران انہونے واقعات سامنے آتے تو خبر میڈیا تک ضرور پہنچتی ‘ جبکہ تمام پارٹیوں کے ورکرزاور رپورٹرز کی ٹیمیں ہر پولنگ سٹیشن کے گردو نواح میں موجود تھیں‘ لہٰذاپولنگ ایجنٹس کو نکالنے اور سادہ کاغذات پر یا سگریٹ کی ڈبیوں پر پولنگ نتائج کے الزامات میں وزن نہیں ہے ۔ سابقہ حکومتی میڈیا سیل کی تجربہ کار ٹیم نے پرو پیگنڈا کیا اور الیکشن کی شفافیت کو داغ لگانے کے لیے ابلاغی فنکاری کا عمومی سا رویہ اپنایا ‘ جو ان کا گزشتہ پانچ سال میں وتیرہ رہا ہے۔ابلاغی فنکاروں نے برطانوی نشریاتی ادارے کا حوالہ دیا ہے کہ یورپی یونین کے مبصرین نے کہا ہے کہ کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثر اندازہونے کی کوشش کی ہے‘ اور وفد کے سر براہ مائیکل گالر نے پولنگ کے دوران سکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعیناتی کو نا قابل فہم قرار دیا اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے انتخابات سے پہلے اور بعد میں ناروا پابندیاں عائد کئے جانے کی شکایات بھی کی ہے۔ در اصل یورپی یونین کے مبصرین کا جھکائو 2013ء کے انتخابات میں بھی نواز شریف کی طرف تھااور تحقیق کے بغیر ہی ان کے انتخابات کو شفاف ترین قرار دے دیا ۔ میں نے اس وقت بھی یورپی یونین کے مبصرین کے سربراہ کے خلاف برسلز ہیڈ کوارٹر میں شکایات کرنے کے بارے میں تفصیلی بیانات دئیے تھے ۔ اس کا اثر یہ ہو اکہ مبصرین کی تفصیلی رپورٹ میں اشارہ دیا گیا کہ 2013ء کے انتخابات میں93ریٹرننگ افسران نے پولنگ کی رات پولنگ سکیم تبدیل کر کے رزلٹ کو متنازعہ بنا دیا۔ اب جبکہ یورپی یونین کے مبصرین نے پاکستان میں پر اسرار سر گرمیاں شروع کیں اور ان غیر سرکاری تنظیموں کی خدمات حاصل کیں‘ جنہیں یورپی یونین کے ممالک اور یو ایس ایڈسے کروڑوں روپے کی امداد مل رہی ہے‘ تو میںنے نگران وزیر اعظم ‘ نگران وزیر خار جہ اور نگران وزیر قانون و انصاف کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے۔نگران وزیر قانون سید علی ظفر نے تو میرے موقف پر عملی اقدامات اٹھائے ‘ لیکن نگران وزیر اعظم ٹس سے مس نہ ہوئے ؛حالانکہ میں نے ان کو متعدد خطوط لکھے کہ الیکشن سسٹم میں پولنگ سے پہلے اور بعد میں جو خامیاں سامنے آنے والی ہیں‘ میں ان کو بریف کرنا چاہتا ہوں ۔ اس طرح نگران وزیر داخلہ بھی نادرا کے حوالے سے خامیوں کو دور کرانے میں لا تعلق اور بے حس رہے ۔یورپی یونین کی مبصرین ٹیم نے جن غیر ملکی سرکاری تنظیموں سے استفادہ کر کے الیکشن کو متنازعہ بناننے کی کوشش کی ‘میں نے وفاقی نگران حکومت سے استدعا کی تھی کہ ہمیں ان این جی اوز کی فہرست فراہم کی جائے ‘ جن کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے‘ کیونکہ وفاقی حکومت نے ساڑھے چار سو این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کر رکھی ہے‘ ایسا نہ ہو کہ انہی این جی اوز کی خدمات حاصل کی جارہی ہوں‘ جن کی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے ‘ مگر افسوس کہ نگران حکومت کے وزرا نے خاموشی کی چادر تان رکھی تھی اور ان غیر ملکی مبصرین کے ریمارکس کی آڑ میں اپوزیشن جماعتوں کو الیکشن کو متنازعہ بنانے کے لیے مواد حاصل ہو گیا۔ آج جب عمران خان کو دیگر جماعتوں پر بر تری حاصل ہے اور وہ واضح طور پر مستقبل کے وزیر اعظم بنتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ وہ اگر مروت یا مصلحت کی خاطر اپنے راستے سے ذرا بھی اِدھر ُادھر ہوتے ہیں تو عوام یہ برداشت نہیں کریں گے ‘کیونکہ عوام کا عشق بھی انتہاکا ہوتا ہے اور انتقام بھی۔ عوام کیسے انتقام لیتے ہیں ‘ اس کے لیے آصف علی زرداری‘ نواز شریف ‘ الطاف حسین وغیرہ کی مثالیں موجود ہیں۔عوام نے اپنے خون ِجگر سے عمران خان کی سوچ کو پروان چڑھایا ‘ وہی ان کی پارٹی کا اثاثہ ہیں ۔