عمران خان معاشی بحران سے کیسے نکلیں؟…امیر حمزہ
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی ” صحیح‘‘ میں لین دین کے معاشی مسائل پر ایک پورا باب لائے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک ہی واقعہ پر متعدد احادیث ہیں۔ ان تمام احادیث کو ملا کر شرح اور وضاحت کے ساتھ جو واقعہ حضرت محمد کریمﷺ کی طرف سے امت کو بتایا گیا ہے‘ وہ اس طرح ہے کہ پہلے دور کی کسی امت کے تین افراد تھے‘ جو باہم دوست تھے۔ قریبی یا دور کے رشتہ دار بھی ہو سکتے ہیں‘ وہ کسی کام کے لئے کہیں جا رہے تھے۔ سفر لمبا تھا۔ ان کو رات نے آ لیا تھا؛ چنانچہ یہ تینوں دوست ایک غار میں داخل ہو گئے‘ تاکہ رات غار میں بسر کریں اور صبح کو اپنے سفر پر چل نکلیں۔ اب ہوا یہ کہ اوپر سے ایک بڑی چٹان لڑھکتی ہوئی آئی اور عین غار کے منہ کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ غار کا منہ بند ہو کر رہ گیا۔ گھپ اندھیرا مزید گہرا ہو گیا۔ نکلنے کی کوئی امید نہ رہی۔ بھوک پیاس اور لاچاری و بے بسی کی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہ تھا۔ آبادی کا کہیں نام و نشان نہ تھا‘ لہٰذا موت یقینی نظر آ رہی تھی‘ مگر انتہائی کربناک اور بھیانک انداز سے تینوں دوست آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: یہ جو بھیانک مصیبت ہم پر آن پڑی ہے‘ اس سے ہمیں نجات مل سکتی ہے ‘تو صرف اور صرف اس کا ایک ہی ذریعہ اور وسیلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ کے سامنے اپنے اپنے نیک اعمال پیش کریں اور اس مصیبت کو ٹالنے کی درخواست کریں؛ چنانچہ تینوں میں سے پہلا کہنے لگا: اے مولا کریم! میرے ماں باپ انتہائی بوڑھے تھے‘ میری عادت تھی کہ میں شام کو جانوروں کا دودھ دوہنے کے بعد اپنے بیوی بچوں اور اپنے ملازموں کو بھی دودھ نہیں دیتا تھا‘ جب تک کہ میرے ماں باپ نہ پی لیں۔ شام کو میں انہیں دودھ پلا دیا کرتا تھا۔ ایک دن کسی کام کی وجہ سے میں لیٹ ہو گیا۔ میرے ماںباپ سو گئے۔ میں نے انہیں جگانا مناسب نہ سمجھا ‘جبکہ دودھ کا برتن ہاتھ میں تھامے ان کے سرہانے کھڑا رہا؛ حتیٰ کہ فجر کا وقت ہو گیا۔ وہ (فجر کی نماز پڑھنے کو) بیدار ہوئے تو میں نے ان کو دودھ پلایا۔ اے مولا کریم! میں نے مذکورہ عمل صرف اور صرف آپ کی خوشنودی کے لئے کیا تھا‘ تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے؛ چنانچہ چٹان تھوڑی سی اپنی جگہ سے ہٹ گئی۔ دوسرے نے عرض کیا: اے مولا کریم! میں نے چند اشخاص کو مزدوری پر لگایا ہوا تھا (کام مکمل ہونے پر) انہیں ان کی مزدوری دے دی تھی۔ ایک مزدور اپنے پیسے لئے بغیر ہی چلا گیا۔ میں نے اس کے پیسوں کو انویسٹ کر دیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس کا مال خوب برگ و بار لایا‘ پھر ایسا ہوا کہ ایک مدت کے بعد وہی شخص آ گیا اور مجھ سے اپنی مزدوری کے پیسے مانگے‘ میں نے اسے مال مویشی دکھلائے اور کہا: یہ جتنے بھی اونٹ‘ گائے اور بکریوں کا ریوڑ ہے‘ سب تیرا ہے۔ وہ مجھے کہنے لگا: اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر (ٹھیک ہے‘ تم مال و دولت والے ہو‘ مگر غریب مزدور سے مذاق نہ کرو) مگر میں نے اسے کہا: یہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔ میں نے تمہاری مزدوری کے پیسے انویسٹ کر دیئے تھے۔ اب اس نے سارا مال اپنے آگے لگایا اور لے گیا۔ اس نے کچھ بھی نہ چھوڑا (یعنی اتنا بھی نہ کہا کہ اپنی محنت کا ہی رکھ لو) اے مولا کریم! میں نے مذکورہ عمل صرف جناب کو خوش کرنے کے لئے کیا تھا ‘تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دیں؛ چنانچہ وہ چٹان مزید ہٹ گئی۔
تیسرے نے اپنا عمل یوں پیش کیا: اے مولا کریم! میرے چچا کی ایک بیٹی تھی‘ جو مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی‘ میں نے اس سے کہا کہ میری خواہش پوری کر دو‘ وہ نہ مانی‘ پھر ایسا ہوا کہ ایک سال قحط پڑ گیا‘ وہ میرے پاس آئی اور رقم مانگنے لگ گئی۔ میں نے اسے کہا: ایک سو بیس دینار (سونے کے سکے) اس شرط پر دوں گا کہ وہ میری خواہش کو پورا کرے۔ وہ میری شرط مان گئی‘ اس نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا۔ عین آخری لمحے پر وہ مجھے کہنے لگی‘ اللہ سے ڈر جا‘ میری عزت کی مہر کو توڑنا تیرے لئے جائز نہیں ہے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا‘ آپ سے ڈر گیا‘ میں نے اسے دینار بھی دے دیئے اور گناہ سے بھی محفوظ رہا۔ میں نے مذکورہ عمل‘ اے اللہ کریم! آپ کی رضا کے لئے کیا‘ تو اس چٹان کو ہٹا دیں؛ چنانچہ چٹان ہٹ گئی‘ تو تینوں دوست وہاں سے نکل کر اپنی منزل کو چل دیئے۔ (بخاری:2272-15)
قارئین کرام! میں مذکورہ واقعہ کے دوسرے کردار کو آخر پر‘ یعنی تیسرے نمبر پر اس لئے لایا ہوں کہ یہی میرا موضوع ہے۔ معاشی تنگی انسان کو ایسی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس سے اس کی عزت و آبرو کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ یاد رہے! دنیا میں سود خور سے بڑھ کر سخت دل کوئی انسان نہیںہوتا۔ اس میں انسانیت نہیں ہوتی۔ صرف سرمائے سے محبت ہوتی ہے۔ وہ انسانیت کا خون چوستا ہے‘ اپنے سرمائے کو اگلے کے سرمائے میں کئی گنا بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سود خور کے عمل کو اپنے اور اپنے رسول سے جنگ قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف ایسا ہی سودخور ادارہ ہے‘ جو سخت ترین شرائط عائد کرتا ہے ۔اس میں عزت اور معاشی بدحالی کے جنازے پچھلی حکومتیں نکالتی چلی آ رہی ہیں۔ محترم عمران خان کی حکومت اس سے کیسے بچتی ہے‘ مجبوریوں میں کہاں تک جا کر اپنے آپ کو سنبھالتی ہے‘ یہ مستقبل ہی بتائے گا۔ یہاں پر میرا ایک مشورہ ہے کہ قرض کے لئے ایسے محسنوں سے رابطہ کیا جائے‘ جو اس تاجر اور بزنس مین جیسا دل رکھتے ہوں‘ جس نے ایک مزدور کا مال انویسٹ کر دیا تھا اور اونٹ‘ گائے اور بکریوں کے ریوڑ مزدور کے حوالے کر دیئے تھے۔ پہلی حکومتیں قرض کا مال ہڑپ کر گئیں اور سود کی ادائیگی غریب پاکستانی قوم پر چھوڑ دی۔ موجودہ حکومت عمرانی حکومت ہے‘ عمرانیات کا معنی آبادکاری ہے۔ عمران خان صاحب کا مشن یہی ہے کہ قوم کو بدترین صورتحال سے نکال کر معاشی آبادکاری کی سڑک پر رواں دواں کیا جائے‘ تو اس ویژن پر قوم بھی اپنا سرمایہ عمران خان کی جھوٹی میں ڈالنے کو تیار بیٹھی ہے؛ چنانچہ خان صاحب اپنی قوم سے رجوع کریں۔
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے اپنے مشہور صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو دیکھ کر ان کی قوم کی تعریف کی تھی‘ فرمایا: اشعر قبیلے کے لوگ جب لڑائی کے دوران غذائی مواد کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں رہتے ہوئے وہ غذائی مواد کی قلت کا سامنا کرتے ہیں ‘تو ایسا کرتے ہیں کہ جس کے پاس جو موجود ہو اسے جمع کر لیتے ہیں ‘پھر ایک پیمانے کے ساتھ برابر برابر آپس میںبانٹ لیتے ہیں (یوں وہ معاشی بحران سے نکل جاتے ہیں) یاد رکھئے! یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں (بخاری:2486)۔ عمران خان صاحب دنیا بھر میں پاکستانی قوم کو کال دیں وہ اشعر قبیلے کا کردار ادا کریں‘ یوں پاکستان کو کسی سود خور ادارے کے سامنے اپنی عزت کو رہن نہیں رکھنا پڑے گا۔ ہم بحران سے نکل جائیں گے۔ اپنے حضور حضرت محمد کریم ﷺکے خصوصی ایمانی امّتی بن جائیں گے۔ محترم عمران خان نے جس طرح حضورﷺ کی حرمت کا دفاع کیا ہے۔ اس عظیم رسولﷺ کی پاکستانی امت کا دفاع بھی حضورﷺکے طریقے پر کریں۔ ہم سرخرو ہو جائیں گے۔ (انشاء اللہ)