منتخب کردہ کالم

عمران خان پھر غلط سائیڈ پر (ترازو) محمد بلال غوری

میں ذاتی طور پر کرکٹ کا شیدائی نہیں مگر جب بھی خود ترحمی کے مرضِ لادوا میں مبتلا افراد کو کرکٹ کی مخالفت کرتے دیکھتا ہوں تو بچپن میں سنا ایک تاریخی واقعہ یاد آتا ہے۔ آپ نے بھی کہیں نہ کہیں یہ بات پڑھی یا سنی ہو گی کہ جرمنی اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ ہوا۔ ہٹلر بذات خود میچ دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں آیا۔ پانچ دن کے کھیل کے بعد میچ ڈرا ہو گیا اور فیصلہ کن ثابت نہ ہوا۔ ہٹلر کو اس بات پر بہت غصہ آیا کہ کئی دن برباد کرنے کے بعد بھی جیت ہار کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس نے ساری کرکٹ ٹیم کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی مار دینے کا حکم دیا اور یوں جرمنی میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کرکٹ بھی دفن ہو گئی۔ یہ عبرتناک واقعہ سنانے کے بعد استدلال اختیار کیا جاتا کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرکٹ کا کوئی وجود نہیں‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہود و ہنود نے مسلمانوں کے خلاف سازش تیار کی تاکہ یہ لوگ لہوولعب اور کھیل میں کھوئے اور بدستور سوئے رہیں‘ اور ترقی کی منازل طے نہ کر سکیں۔ غیر مسلموں کی سازشوں پر گہری نظر رکھنے والے ایک صاحب تو اس ضمن میں ہالی ووڈ کی ایک فلم ”گلیڈی ایٹر‘‘ پر کئی کالم لکھ کر یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ روم کے بادشاہ لوئس کموڈیس نے عوام کی توجہ بانٹنے کے لیے کھیل تماشوں کی جو روایت ڈالی‘ وہ آج بھی برقرار ہے۔ میں نے گزشتہ چند برس کے دوران ہٹلر والی روایت کا مستند حوالہ ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر معلوم ہوا کہ ہٹلر کے دور میں نہ تو قومی سطح کی کوئی کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی اور نہ ہی کبھی کسی غیر ملکی ٹیم سے اس کا کوئی میچ منعقد ہوا۔ یعنی یہ روایت بھی ان فسانوں جیسی ایک من گھڑت داستان ہے جو ہمارے اصلاح پسندوں نے قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے نہایت عرق ریزی اور سوچ بچار کے بعد تشکیل دی۔ اگر مجھے چند سوالات کی گستاخی کرنے کی اجازت دے دی جائے تو پوچھنا چاہوں گا کہ دنیا بھر میں فٹبال‘ کرکٹ کی نسبت زیادہ مقبول کھیل ہے اور فٹبال ورلڈ کپ کے دوران سفید فام باشندوں کا جوش و جذبہ پاگل پن کی حدوں کو چھونے لگتا ہے، تو کیا کوئی صاحب بتانا پسند کریں گے کہ یورپ کے خلاف اس سازش کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں؟ اگر کھیل، تماشے وقت کا ضیاع اور قوموں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو امریکہ اور چین سمیت عالمی طاقتوں کی حیثیت سے ابھرتے تمام ممالک دولت مشترکہ کھیلوں اور اولمپکس گیمز میں سب سے آگے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کے تبصرے اپنی جگہ مگر مجھے کپتان کے غیر معقول موقف اور اس پر اصرار سے دکھ ہوا۔ مجھے اس بات کا بخوبی اِدراک ہے کہ تعصب انسان کو اندھا کر دیتا ہے‘ پھر بھی یہ توقع نہ تھی کہ عمران خان پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کروانے کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ جائیں گے۔ فرماتے ہیں کہ کرفیو لگا کر میچ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ ایسے تو عراق اور شام میں بھی میچ ہو سکتا ہے۔ گاہے خیال آتا ہے کہ چند برس پہلے سنیل گواسکر، کپل دیو اور روی شاستری نے ایسی بات کی ہوتی تو کیا ہوتا؟2010ء میں بھارت دولتِ مشترکہ کھیلوں کا میزبان تھا اور دنیا بھر سے کھلاڑیوں کی آمد متوقع تھی۔ خفیہ اداروں نے آگاہ کیا کہ دلی شدت پسندوں کے نشانے پر ہے اور دہشتگردی کا خدشہ ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر نہ کرنے یا محتاط رہنے کے لیے سکیورٹی الرٹ جاری کر دیا۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے بھارتی دارالحکومت کے مضافات میں کچی بستیاں خالی کروا لی گئیں۔ شہر سے خوانچہ فروشوں، فٹ پاتھوں پر سونے والے افراد اور بھکاریوں کو نکال دیا گیا۔ پولیس اور فوج کی نگرانی میں سکیورٹی انتظامات دیکھ کر یوں لگتا تھا‘ جیسے شہر میں کرفیو نافذ ہے۔ لیکن کہیں سے ایسی آواز سنائی نہ دی کہ اس ایونٹ کو منسوخ کر دیا جائے بلکہ اس پر یہ جذبہ دیکھنے کو ملا کہ دولت مشترکہ کھیلوں کے کامیاب انعقاد کے نتیجے میں دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا جائے۔
اولمپکس کھیلوں کا آغاز تو کئی سو سال قبل مسیح یونان میں ہوا لیکن 1884ء میں اسے کھیلوں کے عالمی مقابلے کی شکل میں ایونٹ کی حیثیت حاصل ہوئی تو تنازعات کے باوجود کبھی یہ ایونٹ منسوخ نہیں کیا گیا۔ 1972ء میں میونخ اولمپکس کے دوران ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب ”بلیک استمبر‘‘ نامی ایک دہشت گرد گروہ نے اولمپک ویلیج میں داخل ہو کر 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کر ڈالا‘ لیکن اس دلخراش واقعہ کے باوجود اولمپکس گیمز کا انعقاد تواتر اور تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ 2012ء میں برطانیہ نے اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کرنا تھی۔ پے در پے دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے باعث خدشات زوروں پر تھے۔ اس عالمی معیار کے محفوظ ترین شہر میں لندن میٹروپولیٹن پولیس کے علاوہ ساڑھے تین ہزار فوجی تعینات کیے گئے‘ مگر کسی کو یہ بات نہ سوجھی کہ اس طرح کرفیو لگا کر تو سپورٹس فیسٹیول افغانستان، روانڈا اور کینیا میں بھی ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں نائن الیون کا سانحہ پیش آیا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور پوری قوم سوگ کی کیفیت میں تھی‘ مگر ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن نے ہیوسٹن کے شہر ٹیکساس میں 13ستمبر 2001ء کو ہونے والا میچ منسوخ نہ کیا‘ اور نائن الیون کے محض دو دن بعد دہشتگردوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ امریکی قوم بزدلوں کی طرح گھروں میں بیٹھنے والی نہیں۔ چند ماہ بعد جنوری میں نیشنل فٹبال لیگ کا 82واں سیزن منعقد ہوا۔ دہشت گردی کسی بھی ملک میں ہو، حملہ آوروں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قتل و غارت گری سے کسی شہر یا ملک کو فتح نہیں کر سکتے۔ ان کا مقصد نفسیاتی جنگ میں دل و دماغ پر غلبہ حاصل کرنا اور دہشت پھیلانا ہوتا ہے۔ ان کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس قدر خوف زدہ اور پریشان ہو جائیں کہ گھروں سے نکلنا چھوڑ دیں، معمول کی سرگرمیاں ترک کر دی جائیں اور نیم دلی سے شکست تسلیم کر لی جائے۔ مجھے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت اور عوام نے دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ موقع تھا فیصلہ کرنے کا کہ آپ کس کے ساتھ ہیں؟ مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تاریخ اور وقت کی غلط سمت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اکیلے دوسری طرف کھڑے ہیں۔