عمران خان کا استقبال کیوں نہیں؟….ڈاکٹر وید پرتاب ویدک
پاکستان میں عمران خان کی جیت کا بھارت سرکار نے ابھی تک کھل کر استقبال نہیں کیا ہے۔ وہ شاید انتظار کر رہی ہے اس وقت کا جب عمران خان واضح اکثریت حاصل کر لیں گے‘ اور اپنے وزیر اعظم ہونے کا خود اعلان کریں گے۔ چنائو کے نتائج آنے کے دو تین دن بعد بھارت سرکار نے جو بیان جاری کیا‘ اس میں دو باتیں کہی ہیں‘ ایک تو پاکستانی عوام کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی حفاظت کی ہے‘ دہشت گرد جماعتوں کو بری طرح سے شکست دی‘ دوسرا سرکار نے امید ظاہر کی کہ نئی پاکستانی سرکار دہشت گردی اور تشدد پر روک لگائے گی۔ لیکن ہماری سرکار نے عمران خان کے اس بیان پر ابھی تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے‘ جو انہوں نے چنائو کے بعد دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ بھارت سے تجارت بڑھانا چاہتے ہیں اور مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں‘ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ بھارت سرکار کا ٹھٹکنا میری سمجھ میں آتا ہے‘ کیونکہ ساری دنیا مان کر چل رہی ہے کہ تمام خدشات کے باوجود قوی امکان ہے کہ عمران خان بہت جلد خود پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کر دیں گے‘ اور خود مختار حکمران کی طرح پیش آنے لگیں گے۔ بھارت سرکار ایک پانسہ پھینک کر کیوں نہیں دیکھتی؟ عمران کا کھلے عام استقبال کیوں نہیں کرتی؟ انہیں دورۂ بھارت کی دعوت کیوں نہیں دیتی؟ کیا پتا عمران حالات کا رخ بدلنے میں کامیاب ہو جائیں؟ عمران کے بول کے جواب میں بھارت کو بھی بول ہی تو بولنا ہے۔ بول میں بھی کوتاہی کس بات کی؟ جہاں تک پاکستان کے چناؤ میں دھاندلی کی شکایت کا سوال ہے تو ہو سکتا ہے یہ معاملہ کچھ سنجیدہ صورت اختیار کرے‘ لیکن یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘ بھارت اس پھڈے میں اپنا پائوں کیوں پھنسائے۔ عمران جب حلف لیں تو ان کے کھلاڑی دوستوں اور نجی جان پہچان والے بھارتیوں کو حوصلہ دیا جائے کہ وہ اسلام آباد ضرور جائیں۔ اسی بیچ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت پر کوئی دہشت گردانہ حملہ کروا کر گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا جائے۔ ایسی کسی صورتحال کے لیے عمران خان اور مودی دونوں کو تیار رہنا چاہیے۔
بھوک سے مر گئی بچیاں
دلی کے منڈاولی علاقہ کے کسی گھر میں تین بچیاں مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔ تینوں بہنیں تھیں۔ ان کی والدہ کی حالت دماغی طور پر ٹھیک نہیں ہے اور ان کا باپ تین چار روز سے گھر نہیں آیا تھا۔ وہ رکشا چلاتا ہے۔ اس کی نوکری چھوٹ گئی تھی۔ وہ نئی نوکری کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ دو‘ چار اور آٹھ برس کی ان تینوں بچیوںکے نعشیں جب ہسپتال لائی گئیں تو پتا چلا کہ وہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے پہلے ہی مر چکی تھیں۔ انہیں گزشتہ تین دنوں سے کھانے کو کچھ نہیں ملا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کیا تو انہیں پتا چلا کہ ان تینوں کے پیٹ میں ایک دانا بھی نہیں تھا۔ وہ بھوک سے مر گئی تھیں۔ جب یہ خبر چھپی تو کہرام مچ گیا۔ اس معاملے کی عدالتی جانچ شروع ہوئی۔ دوبارہ پوسٹ مارٹم ہوا۔ پھر بھی بھوک ہی ان کی موت کا سبب پایا گیا۔ بھوک سے ایسی موت کوئی پہلی بار نہیں ہوئی ہے‘ لیکن اس پر ایوان میں بھی ہنگامہ اس لیے ہو گیا کہ یہ دلی میں ہوئی اور اس کی خبر ٹی وی چینل اور اخباروں کے ہاتھ لگ گئی۔ گزشتہ برس جھار کھنڈ میں گیارہ سال کی بچی اور 58 برس کی خاتون کا بھی یہی حال ہوا تھا‘ لیکن وہ معاملات آئے گئے ہو گئے‘ کیونکہ وہ خبر نہیں بن پائے۔ کوئی آدمی بھوک سے مرا یا نہیں‘ اسے کچھ بھی ثابت کر دینا آسان ہوتا ہے‘ کیونکہ مرتے وقت کچھ بھی بہانا بن جاتا ہے۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق بھارت میں 4500 بچے ہر روز مر جاتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر حمل کے دوران ہی مر جاتے ہیں۔ اگر ان بچوں کو پیٹ بھر کھانا دیا جائے تو ہر برس لاکھوں بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ خوشحال اور طاقتور ہیں‘ ان کے تصور بھی نہیں ہو گا کہ بھوک کے سبب کوئی مر سکتا ہے۔ اگر بچہ یا آدمی بھوک سے مر جائے تو کیا ہمارا سماج‘ بہتر سماج کہلانے کے لائق رہ جا تا ہے؟ بھوک سے بچیوں کی موت کا یہ افسوسناک واقعہ اس شہر میں ہوا‘ جو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کا دارالحکومت ہے۔ اس شہر میں ہزاروں بڑے ریستوران اور ہوٹل ہیں۔ ان جگہوں پر روزانہ لاکھوں کلوگرام خوراک بچ جاتی ہے‘ جسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ بچا ہوا کھانا کچرا دانوں کے بجائے ضرورت مندوں اور بھوکے افراد کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہو جائے؟ اگر ایسا ہو رہا ہوتا تو امکان ہے کہ منڈاولی کی یہ تین بچیاں‘ جن کا باپ بے روزگار ہو چکا تھا‘ بھوک سے نہ مرتیں۔
رشوت پریمی اور رشوت سے باغی
ایوان نے اب ایک قانون پاس کر دیا ہے کہ رشوت لینا ہی نہیں دینا بھی جرم ہو گا۔ 1988ء میں جو بد عنوانی کے خلاف قانون پاس ہوا تھا‘ وہ لنگڑا لولا تھا‘ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ وہ قانون رشوت لینے والوں کو سزا دیتا تھا لیکن دینے والا کسی پکڑ میں نہیں آتا تھا اور بالکل فری ہوتا تھا‘ مزید بد عنوانی کے لئے۔ اس طرح کا قانون یہ مان کر چلتا ہے کہ کوئی بھی آدمی رشوت تبھی دیتا ہے جب وہ زبردست مجبوری میں پھنس جاتا ہے۔ اس قسم کے قانون کی بنیاد ایسے تصورات پر ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے درست کام کروانے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس لیے انہوں نے رشوت دے کر کوئی جرم نہیں کیا‘ بلکہ اپنی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کو رشوت دینے پر سزا دی گئی تو ان پر دو گنا ظلم کیوں کیا جائے۔ کچھ حد تک یہ دلیل ٹھیک ہے‘ لیکن بھارت میں بد عنوانی ایک طرح کا اخلاق بن گیا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے غیر قانونی کام کروانے کے لیے ہی رشوت دینے کا اصول آزماتے ہیں۔ وہ رشوت دینے کے ایسے ایسے طریقے نکالتے ہیں کہ ایماندار سے ایماندار افسر کو بھی پھسلتے دیر نہیں لگتی‘ جیسا کہ نقد روپیہ دینے کے بجائے کوئی قیمتی تحفہ دے دیا‘ کسی مہنگے ریستوران میں کھانے کی دعوت دے دی یا ملک میں یا بیرون ملک گھومنے کے لیے سپانسر کر دیا۔ دوسرے الفاظ میں اصلی گنہگار رشوت دینے والا ہوتا ہے‘ جو اپنے غلط کام کروانے کے چکر میں افسروں کو بد عنوان کر دیتا ہے۔ ایسے رشوت دینے والوں کو اب نئے قانون کے مطابق جرمانے کے علاوہ سات سال تک کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اگر رشوت دینے والا سات دن میں اس راز کو کھول دے اور پولیس میں رپورٹ کر دے تو اسے مجرم نہیں مانا جائے گا۔ ایسی رپورٹ وہی کرے گا‘ جسے اپنے صحیح کام کے لیے بھی مجبوری میں رشوت دینی پڑی ہو گی۔ ایسی رپورٹ لکھوا کر کتنے لوگ نیا سر درد مول لینا چاہیں گے؟ اب اس قانون کی وجہ سے رشوت خوری کے اس غیر ضروری وسیلے میں دونوں جانب زیادہ خبرداری برتیں گے‘ تاکہ کوئی ثبوت نہ پکڑا جائے۔ اصلی ضرورت تو ایسے سخت اور باریک قانونی قواعد کی ہے کہ جن میں کوئی ہیرا پھیری کرنا ممکن ہی نہ ہو رشوت یا رشتہ داری یا سیاسی دبائو بھی بیکار ثابت ہو جائے۔ گزشتہ قانون میں صرف جنرل سیکرٹری کے عہدے اور اس کے اوپر کے افسروں کے خلاف کارروائی کے لیے سرکار کی اجازت لازمی تھی۔ اب ایسی اجازت سبھی ملازمین کے لیے ضروری ہو گئی ہے۔ کیا اس سے رشوت خوری کو بڑھاوا نہیں ملے گا؟ افسر رشوت خوری اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کے وزیر‘ ممبر آف پارلیمنٹ‘ ایم ایل ایز وغیرہ بھی ڈٹ کر رشوت کھاتے ہیں۔ جب مالک رشوت پریمی ہو تو نوکر رشوت سے باغی کیسے ہو سکتا ہے؟