عمران خان کا مخمصہ…..خورشید ندیم
عمران خان بھی نواز شریف کی طرح مخمصے میں ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان میں حاکمیتِ الٰہیہ قائم کرنے نکلے تھے۔ ‘الہلال‘ نے ایسا صور پھونکااور مولانا کی نابغۂ روزگار شخصیت نے ایسی رومانوی فضا قائم کی کہ اہلِ اسلام کو اپنی عظمتِ رفتہ لوٹتی دکھائی دینے لگی۔انجام مگر یہ ہوا کہ مولانا آزاد ہندوستانی قومیت کے علم بر دار بن کر گاندھی جی کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مولانا کے اس ‘انقلابِ حال‘ کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی قرار دیا۔ مولانا مودودی نے بھی اپنا چراغ مولانا آزاد ہی کے چراغ سے روشن کیا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر حاکمیتِ الٰہیہ کاعَلم اُٹھا لیا۔پھر1957ء میں ایک اور ٹریجڈی ہوئی۔ اب مولانا مودودی کے ساتھی ان کے ‘انقلابِ حال‘ کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔
سیاست کے ہاتھوںاصلاح کا خواب دیکھنے والوں کا انجام کم و بیش ایک جیسا ہوا۔ رومان سے حقیقت پسندی کی طرف سفر۔وقت نے بارہا بتایا کہ اقتدار کی سیاست زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں سیاست کا آغاز کیا تو اس کے نزدیک انتخابات میں خود کو بطور امیدوارپیش کرنا حرام تھا۔ وقت نے آہستہ آہستہ انہیں سکھایا کہ سیاست کی اپنی فقہ ہوتی ہے۔ یہاں حرام و حلال کا فیصلہ کسی اور پیمانے پر ہوتا ہے۔ آج جماعت اسلامی کا امیدوار ووٹ مانگتا ہے۔ اپنے اشتہارات دیواروں پر آویزاں کرتا ہے۔کسی مجبوری سے نہیں،باطبیب ِ خاطر۔
عمران خان بھی ،گمان یہی ہے کہ اصلاح کے لیے نکلے تھے۔برادرم حفیظ اﷲ نیازی گواہ ہیںکہ گھنٹوں انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سیاست اصلاح کے لیے نہیں ہوتی۔ اصلاح کا میدان سماج ہے۔ اقدار بدلتی ہیں تو سیاست سمیت سب کچھ بدل جاتا ہے۔پیغمبرانسانوں اور معاشروں کو بدلتے ہیں۔اقتدار کبھی ان کی منزل نہیں ہوتی۔ ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سفر میںاقتدار کبھی ملتا ہے اور اکثر نہیں بھی ملتا۔ معاشرہ فکری اور ذہنی تبدیلی سے گزر جائے تو اقتدار آنے والی منزلوں کو سہل بنا دیتا ہے۔اقتدار میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے کی ساخت کو بدل ڈالے۔ ہم عمران خان کو یہ سمجھانے سے قاصر رہے کہ وہ اپنی مقبولیت کواگرسماجی تبدیلی کے لیے استعمال کریں تواس کا اثر معاشرے کے ہر طبقے پر پڑے گا۔ وہ اس خیال میں مبتلا رہے کہ اقتدار مل جائے تو اصلاح آسان ہو جائے گی۔
عمران خان سیاست کو کیا تبدیل کرتے، سیاست نے انہیں تبدیل کر دیا۔ انہیں جلد ہی اندازہ ہونے لگا کہ سیاسی کامیابی زمینی حقائق سے مطابقت پیداکیے بغیر نہیں مل سکتی۔ پھر انہوں نے ہر وہ کام کیا، جس سے سیاست آلودہ ہوتی اور اخلاقیات سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کسی اخلاقی قدر کو اپنے سفر میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ یوں ان کا ‘انقلابِ حال‘ بیسویں صدی کی ایک بڑی ٹریجڈی بن گیا۔
فوزیہ قصوری اس عمران خان کو تلاش کرتی ہیں جو 2011 ء سے پہلے تھا۔ ایک مصلح اور تبدیلی کی علامت۔ انہیں کون سمجھائے کہ عمران خان اب اقتدار کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاست ہوتی ہی اقتدار کے لیے ہے۔ عمران خان اس کے سوا کچھ نہیں کر رہے کہ تاریخ کو دھرارہے ہیں۔ ان کے سامنے نواز شریف ماڈل ہے۔ نواز شریف سیاست میں کیسے کامیاب ہوئے؟اقتدار کے دیگر مراکز کی ملی بھگت سے۔ انہیں یہ موقع ملا تو انہوں نے اپنی عصبیت پیدا کر لی۔عمران خان اب اسی راستے کے مسافر ہیں۔
عمران خان کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ اصلاح کی بات کرتے ہیں مگر کامیابی کے لیے ان کی حکمت ِعملی وہی ہے جو بار ہا آزمائی جا چکی۔وہی طاقت کے دوسرے مراکز سے ساز باز ،وہی جیتنے کی اہلیت رکھنے والوں پر انحصار۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد اگلے دن زمینی حقائق بدل جائیں؟طاقت کے دوسرے مراکز عمران خان کے حق میں دست بردار ہو جا ئیں اورانہیں پورا اقتدار سونپ دیں؟یا ان کے ہم سفر جیتنے کے بعداپنی سابقہ سیاست سے توبہ کر لیں؟دنیا جانتی ہے کہ وہ کے پی کے میں کچھ نہیں کر سکے۔وہ جس تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ پاکستان سے سینکڑوں اور ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں ہی کو نظر آتی ہے جو پاکستان کو سوشل میڈیاا ور فیس بک کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
سیاست سے تبدیلی کا نعرہ تو یقینا ایک سراب ہے ،تاہم عمران ‘سیاسی سماجیات‘کو بدلنے کی کوشش ضرور کر سکتے تھے۔یہ اگرچہ سماجی تبدیلی ہی کاایک پہلو ہے لیکن وہ یہ کام سیاست میں رہتے ہوئے بھی کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ ملک کو ایک اچھی سیاسی جماعت دے سکتے تھے۔پاکستان کو ایسی سیاسی جماعتوں کی شدید ضرورت ہے جو سیاسی امور کے فہم میں پختہ اور سیاسی اخلاقیات کے ساتھ گہری وابستگی رکھتی ہوں۔جیسے جمہوریت ایک سیاسی قدر ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت اس کے ساتھ حقیقی وابستگی رکھتی ہو تو اس بات کا امکان ختم ہو جاتا ہے کہ کوئی غیر سیاسی قوت اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے۔ پاکستان میں جمہوریت کے کمزور ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت جمہوریت کے لیے کھڑی ہوتی ہے،دوسری سیاسی جماعتیں،غیر جمہوری قوتوں کے لیے دستِ تعاون دراز کر دیتی ہیں۔
پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی بات کی تو نوازشریف صاحب نے ایک آمر کو اپنا تعاون پیش کر دیا۔نوازشریف صاحب خود جمہوریت کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کی جماعت سے ق لیگ برآمد ہوگئی۔آج یہ منصب تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی،دونوںنے اپنے ہاتھ لے لیا ہے۔ نوازشریف صاحب نے بھی نون لیگ کو سیاسی جماعت نہیں بنایا۔ آج وہ غیر سیاسی قوتوں کی مزاحمت کی بات کرتے ہیں تو ان کی جماعت کے لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔سیاسی جماعت بنانے کاکام عمران خان بھی نہیں کر سکے۔تحریکِ انصاف آج بھی عمران خان کے مداحوں کا ایک کلب ہے،اس کے سواکچھ نہیں۔
دوسرا کام سیاسی کلچر میں بہتری لانا تھا۔وہ اسے مثبت طرزِ عمل اور اعلیٰ اخلاقی بنیادیں فراہم کر سکتے تھے۔وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے یہ بتا سکتے تھے کہ سیاست ملک و قوم کو درپیش مسائل پر سنجیدہ غوروفکر کا نام ہے۔یہ اختلافِ رائے کے احترام کا نام ہے۔یہاں شخصیات نہیں، سیاسی پروگرام اہم ہوتے ہیں۔وہ اگر ایسا کرتے تو مجھے پورا یقین ہے کہ سیاست میں غیر سنجیدہ اور پست اخلاقی سطح کے لوگ اجنبی بن جاتے۔
یہ بات میرے لیے ذاتی صدمے کی ہے کہ انہوں نے سیاست کو اخلاقی اعتبار سے مزیدپست بنادیا۔سیاست کی تیز دھوپ میں ان کا اخلاقی وجود برف کا تودہ ثابت ہوا۔انہوں نے جس زبان کو فروغ دیا،سچ جھوٹ کے فرق سے جس طرح بے نیازی دکھائی،جس طرح نئی نسل میں ہیجان برپا کیا،اس نے سیاسی ہی نہیں،ہمارے سماجی کلچر میںبھی گہرابگاڑ پیداکیاہے۔نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنی جماعت میں اس کلچر کی حوصلہ افزائی کی بلکہ خود کو اس کی قابلِ تقلید مثال بناکر پیش کیا۔اسلامی جمعیت طلبہ کے چند ذمہ داروں نے اپنے اساتذہ سے بد تمیزی کی تو سید ابوالا علیٰ مودودی مضطرب ہوئے اور یہ کہا کہ میری عمر بھر کی کمائی بر باد ہوگئی۔نعیم الحق صاحب نے جو کیا،اس پر عمران خان نے کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔
آج عمران خان کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ زبان سے اصلاح کا مقدمہ پیش کرتے ہیں لیکن عملاً اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی حکمتِ عملی وہی ہے جو روایتی سیاست کا خاصہ ہے۔جو سیاست کو سنجیدہ عمل سمجھتے ہیں،ان کو عمران خان اس تضادپرمطمئن نہیں کر پا رہے۔عمر کی ساتویں دھائی میں قدم رکھتے ہوئے،نوازشریف صاحب کو اپنے تضادات کا ،گمان ہے کہ اندازہ ہو چلا ہے۔عمران خان کا قدم بھی ساتویں دھائی کی دہلیز پر ہے۔انہیں اپنے تضادات کا اندازہ کب ہوگا؟ ہاں،اگر انہیں اقتدار کی سیاست کا روایتی کھلاڑی مان لیا جائے تو پھر یہ تضاد باقی نہیں رہتا۔پھر توقع باقی رہتی ہے نہ امکان۔