عمران خان کا نئے پاکستان کا نعرہ !…..کنور دلشاد
21دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد ذو الفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالنے کے بعد چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کی حیثیت سے پاکستان کے چاروں صوبوں کو نئے پاکستان کے قلب میں ڈھالنے کے لئے‘ لیگل فریم ورک آرڈر کا سہارا لیا اور قوم سے خطاب کیا۔ 14اپریل 1972ء کو ذو الفقار علی بھٹو نے آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سابق مشرقی پاکستان کی 163قومی اسمبلی کی نشستیںخالی قرار دیتے ہوئے اشارہ دیا کہ بہت جلد ان نشستوں پر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی براجمان ہوں گے۔ جب مشرقی پنجاب سے مسلمان پاکستان کی طرف رواں دواں تھے‘ تو ان کو یقین دلایا گیا تھا کہ امن و امان کی بحالی کے بعد وہ واپس اپنے گھروں میں آ جائیں گے‘ تو ہمارے والد محترم اسی بہلاوے میں آ گئے اور اپنی حویلی کی چابیاں ہندو ملازم کو دیتے ہوئے کہا کہ بڑے صحن اور مہمانوں کے کمروں کی صفائی کرتے رہنا اور شام کے وقت چراغاں بھی ضرور کیا کرنا‘ہم جلد ہی واپس آکر تمہیں انعام دیں گے ۔ اسی انداز میں ذو الفقار علی بھٹو نے قوم کے زخموں کو سہلانے کے لئے یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ اپنے ناراض مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو واپس اسی قومی اسمبلی میں لائیں گے۔اس طرح غیر آئینی اجلاس کو آئینی اجلاس قرار دیتے ہوئے آئین سازی شروع کروائی گئی۔14اپریل اور 21 اپریل 1972ء کی قومی اسمبلی میں تقاریرکے مسودات قومی اسمبلی کے آ رکائیوز میں موجود ہیں۔ میں نے ان دونوں اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ صدر ذو الفقار علی بھٹو کی دھواں دار تقریر کے دوران مولانا شاہ احمد نوارانی زارو قطار رو رہے تھے‘ جبکہ حکمران جماعت کے ارکان وزارتوں کے متلاشی تھے۔ ان کے چہروں سے رنج و ملال دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔22اپریل 1972ء کو نام نہاد مارشل لا اٹھاتے ہوئے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے خود کو آئینی صدر نامزد کرتے ہوئے راولپنڈی سٹیڈیم میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں چیف جسٹس حمودالرحمان کے سامنے حلف اٹھایا ۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کے ہال میں مشرقی پاکستان کے ارکان کے نام سے جو نشستیں لگوائی گئی تھیں‘ وہ خاموشی سے رات کے اندھیرے میں اٹھا لی گئیں۔ اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی چوہدری فضل الٰہی نے کسی کو بھی گمان نہ ہونے دیا اور وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے نئے پاکستان کا پرچار شروع کر دیا گیا اور قومی ترانہ اور قومی پرچم تبدیل کرنے کی راہ نکالی ۔ انہی دنوں میری ملاقات وزارت خارجہ کے سیکر ٹری لیفٹیننٹ جنرل رضا اور صاحبزادہ یعقوب علی خان سے ہوئی‘ جنہوں نے بڑی راز داری سے مجھے بتایا کہ یہ نیا پاکستان 14اگست1947ء والا پاکستان نہیں رہا‘ اب نئے پاکستان کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ صدر پاکستان بننے کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے 163ارکان اسمبلی کا ذکر تک نہیں کیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے ارکان کو آئین ساز اسمبلی میں شرکت کرنے کا آئینی و قانونی جواز نہیں تھا‘ کیونکہ وہ متحدہ پاکستان کا مینڈیٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ میں نے ہفت روزہ ”الفتح‘‘ اورروزنامہ ” جسارت‘‘ کے ایڈیٹر صلاح الدین کو بھٹو حکومت کی پر اسراریت کے بارے میں آگاہ کیا۔ روزنامہ” جسارت‘‘ نے اپنے اداریہ میں حکومت کی مذمت کی اور یہ سلسلہ رک گیا‘ مگر پاکستان میں جو آئینی بحران1972ء سے شروع ہوا‘ اس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔
عمران خان کے نئے پاکستان کا نعرہ‘ میری نظر میںتو ایک حد تک علامتی ہے‘ شاید اس سے مراد یہ ہے کہ پاکستان میں نا انصافیوں ‘بد عنوانیوں اور ظلم و ستم کے جو منحوس سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں‘ انہیں ختم کر کے ایک روشن پاکستان بنانا ہے ۔در اصل سیاست دان اپنے رتنوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اور عمران خان کو میرے خیال میں نئی حکومت بنانے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف کے نفرت انگیز بیانیہ کے اثرات کو زائل کرنا ہوگا‘ کیونکہ ان کے جراثیم ہر ادارے میں موجود ہیں۔ ان کے ارکان اسمبلی بھی ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ‘ میڈیا ہائوسز کے اینکرز‘ جو ان کا مذاق اڑاتے تھے ‘اب نئے میڈیا ہائوسز میں چلے گئے ہیںاور عمران خان خوشی سے پھولے جا رہے ہیںکہ ان کے حامیوں کی تعداد میڈیا میں بڑھتی جا رہی ہے ۔اس طرح عمران خان کو انتخابی نتائج پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی کہ نواز شریف کے حامی ووٹرز کی تعداد بھی ایک کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ اور وہ ان کی راہ میں مشکلات پیدا کریں گے‘ کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے بعض راہنمائوں کی بقا‘ اسی میں ہے کہ محاذ آرائی کا سلسلہ طول پکڑتا جائے ‘تاکہ ان کا وزن بڑھتا جائے اور وہ اپنے مخالفین کے لئے گولہ باری کرتے رہیں ۔سیاسی بد حالی کے علاوہ نئی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہوگا‘ کیونکہ پاکستان اس وقت انتہائی ابتر معاشی حالت میں ہے ‘ لہٰذامعاشی ٹیم کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔ عرب ریاستوں کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان میں مختلف خیالات کے گروہوں کی بھی اصلاح کرنا ہوگی‘ کیونکہ کئی تجزیہ کار بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی سرد جنگ کے دوران 1954ء سے عرب خطوں نے پاکستان میںمختلف مسالک میں دوری پیدا کرنے کے لئے اہم کردار اد ا کیا تھا ۔
پاکستان میں ابتدائی چند برسوں کے بعد سے قیادت کا بحران رہا‘ مگر 1970ء کی دہائی کے بعد اب پہلا موقع آیا ہے جب سادگی کی بات ہو رہی ہے اور بلا تفریق احتساب کا چرچا ہے۔ دراصل معیشت میں ترقی لازم ہے‘ سماجی معاشرتی ترقی بھی مستحکم معیشت کے بغیر بے معنی ہے‘ کیونکہ تہذیب‘امن‘سکون معیشت سے مشروط ہے ۔ نواز شریف کے بیانیہ کے ازالہ کے لئے جن جن حلقوں سے تحریک انصاف ہاری ہے‘ وہاں سرکاری سکولوں کا جال بچھا دیں ‘ گھریلو دستکاری بنگلہ دیش کی طرز پر شروع کر ادیں اور غریب عوام کو گھروں کی دہلیز پر روزگار فراہم کر دیں‘ تو اگلے قومی انتخابات میں 90فیصد نتائج تحریک انصاف کے دامن میں آجائیں گے۔ اس کے لئے اربوں روپے کی تشہیر کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی‘ نہ ہی حکومت میڈیا ہائوسز کی محتاج ہوگی ‘اسی طرح بڑے بڑے عظیم منصوبوں کے ساتھ ساتھ صدر ایوب خان کے منصوبے کے تحت سمال انڈسٹریز کے منصوبے شروع کرا دیں اور سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے امیر ترین ریاستوں سے قرضے اور امداد کے حصول کی بجائے ‘ ان ملکوں میںپاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع کھلوا دیں ۔ قوم کو عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں‘ لہٰذااربوں ڈالر پر مشتمل دولت کو جو پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک پوشیدہ رکھی گئی ہے ‘واپس لانا ضروری ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن بہت مضبوط ہے ‘ لہٰذافلاحی کاموں کی طرف انقلابی قدم اٹھانے ہوں گے ۔ شہباز شریف کی طرز کو تبدیل کرنا ہوگا‘ جن کا وطیرہ تھا کہ ہر واردات کے بعد رپورٹ طلب کرتے تھے‘ مگران کے دس سالہ دور حکومت میں ایسی کسی رپورٹ پر عمل در آمد نہ ہوا ۔یہی طریقہ کار پنجاب کی نگران حکومت نے اختیار کیا ہوا تھا ‘اب پنجاب کی نئی حکومت کو ایسے فریب زدہ نوٹسز لینے کے لالی پاپ دینے کی بجائے‘ گھروں کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنا ہوگا اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو مظلوم گھرانے کے سامنے کھڑا کرنا ہوگا‘جس طرح عمران خان نے ہر تھانے کے ایس ایچ او کے انتخاب کے ذریعے تقرر کے عزم کا اظہار کیا تھا‘ جسے شفقت محمود کی مخالفت کی وجہ سے انہیں ترک کرنا پڑا۔ عمران خان تکنیکی بنیادوں پر جو ٹاسک فورس بنانے کا عزم رکھتے ہیں‘ اس میں ایسے ماہرین کو شامل کیا جائے‘ جو ریاست کے مفاد میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ۔ عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو مختلف ٹاک شوز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لئے بھیجنے کی بجائے‘ متعلقہ وزارت کا فوکل پرسن بھیجا جائے ‘وزرا کو ٹاک شوز اور میڈیا میں اپنی ہوا باندھنے کی بجائے عملی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی۔