عمران خان کو درپیش چیلنجز
نتخابات کے بعد اب نئی حکومت کا قیام چند ہی دنوں کی بات ہے۔ نئی حکومت اپنے قیام سے پہلے ہی مشکلات میں ہے۔ متوقع وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کی تلوار اس کے سرپر ہر وقت لٹک رہی ہے۔کبھی ووٹ کو کیمروں کی موجودگی میں کاسٹ کرنے کا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ کبھی بنی گالہ کی جائیداد کا قضیہ کوئی چھیڑ دیتا ہے۔ کبھی علیم خان کی دبئی میں جائیداد کی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ یہ قصے ختم ہوتے ہیں تو ہیلی کاپٹر کیس سر اٹھانے لگتا ہے۔ این اے ایک سو اکتیس کی ری کائونٹنگ ڈرانے لگتی ہے۔ اگر عمران خان ان سب معاملات سے باعزت بری بھی ہو جائیں تو بہت سے معاملات ایسے ہیں جو دل دہلانے کو کافی ہیں۔ الیکٹ ایبلز کی مدد سے انتخاب تو جیتا جا سکتا ہے مگر یہ الیکٹ ایبلز حکومت کے استحکام کی ضمانت نہیں۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ نمبر گیم اس قدر نازک ہے کہ ذرا سی غلطی سے پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ ہم خیال جماعتیں کسی وقت بھی بددل ہو سکتی ہیں۔
وزارتیں اب وجہ اتحاد بن جائیں گی۔ مصلحتیں اب عذاب بن جائیں گی۔ مفاد کی خاطر بنے دوست کبھی بھی بدل سکتے ہیں۔
چلیں حکومت بھی قائم ہو گئی۔ وزارتیں بھی تقسیم ہو گئیں۔ عہدے بھی تقسیم ہو گئے۔ پھر بھی چیلنجز کا ایک انبار لگا ہے۔ گرے لسٹ میں ہم پہلے ہی آ چکے ہیں ۔ بلیک لسٹ میں آنے کا خدشہ موجود ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کے لئے ابھی امریکی تائید حاصل نہیں ہوئی۔ جن شدت پسند جماعتوں نے الیکشن میںحصہ لیا ہے اور جن کے داعی خان صاحب بھی رہے ہیں ان کے بارے میں دنیا ہمیں اب شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ سی پیک کے مستقبل پر بھی خطرات منڈلانے لگے ہیں ۔ا ن حالات میں نئی حکومت بے شمار دشواریوں کا سامنا کرے گی۔
ان بین الاقوامی چیلنجز کے علاوہ ایک بڑا چیلنج وہ دعوے ہیں جو عمران خان الیکشن سے پہلے کر چکے ہیں۔ سو دن میں ایک کروڑ نوکریاں اب بے روزگاروں کے سینے میں مچل رہی ہیں۔ جو لوگ عمران خان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اب ان کو ان وعدوں کی قبولیت درکار ہے۔ بے گھروں کو سو دن میں پچاس لاکھ گھر درکا ر ہیں۔ بیماروں کو علاج کی سہولت درکار ہے۔ تعلیم کا میدان بھی خالی ہے۔ اس میں بھی دعوئوں کی انتہا کر دی گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے جو نسل پروان چڑھائی ہے اس میں صبر کی ہمت نہیں ہے۔ آپ سودن گزرنے دیجئے لوگوں نے طوفان مچا دینا ہے۔ عوام کو اب سڑکوں پر آنے کا سبق عمران خان نے سکھایا تھا اب عوام اپنا حق مانگنے میں دیر نہیں کریں گے۔ لوگ بہت جلد کارکردگی پر احتجاج کریں گے۔ اختلاف کریں گے۔ عمران خان نے گزشتہ حکومت کی دھجیاں جن نکات پر اڑائی تھیں انہی نکات پر بعید نہیں کہ عوام نئی حکومت سے بھی سوال کریں۔
اب مرحلہ دشوار بھی ہے دلچسپ بھی۔ سیاست کے وہ طالبعلم جو گزشتہ پانچ سال میڈیا کا رویہ، سوشل میڈیا پر دشنام ، پرنٹ میڈیا میں بہتان کا طوفان دیکھتے رہے اب ان کے لئے مرحلہ ایک نئے دور کے مشاہدے کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نیا دور پرانے قانون کے تحت چلتا ہے۔ قدم قدم پر احتساب کا نعرہ اسی شدت سے لگتا ہے ۔ لمحہ لمحہ احتجاج کی اسی طرح دھمکی ملتی ہے۔ یا پھر اب قانون بدل جائیں گے۔کیا اب جمہوریت پر لعنت بھیجنے والے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھائیں گے؟ کیا ملک بھر میں آگ لگانے کی تلقین کرنے والے اب امن کا درس پڑھائیں گے۔ کیا سول نافرمانی کا علم بلند کرنے والے اب قانون کی اہمیت بتائیں گے؟ دیکھنا یہ ہے کہ اب اگر عمران خان کسی کیس میں نااہل ہوتے ہیں تو عدالتوں کا احترام کیا جاتا ہے یا پھر توہین کی جاتی ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں کی روایت اگر برقرار رکھنی ہے تو ہر شہر میں دھرنا ہونا چاہئے۔ ہر چوک پر جلائو گھیرائو ہونا چاہئے۔ اسمبلی کے باہر احتجاجی کیمپس لگنے چاہئیں۔ مذہبی جماعتوں کی مدد سے پورے ملک میں راستے بند کر دینے چاہئیں۔ جمہوریت کی جگہ جگہ تضحیک کرنی چاہیے۔ اسمبلی کو چوروں کی اسمبلی قرار دے دینا چاہئے۔ ہر پروجیکٹ کو لوٹ مار کا طریقہ قرار دے دینا چاہئے۔ عوامی خدمت کی ہرا سکیم کو فراڈ قرار دے دینا چاہئے۔
جو روایات عمران خان نے اس ملک میں ڈالی ہیں وہ ان کے لئے خود ہی زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہیں۔ ابھی تو عنان حکومت اس نے سنبھالا بھی نہیں ہے۔ ابھی تو بات شروع نہیں ہوئی۔جب حکومت تشکیل پا جائے گی تو معاملات کا آغاذ تو تب ہو گا۔ ہر حکومت کا ایک ہنی مون پیریڈ ہوتا ہے۔ اس دور میں کی گئی غلطیاں معاف کر دی جاتی ہیں۔ اس ہنی مون پیریڈ میں لوگ منتظر ہوتے ہیں کہ شاید اچانک سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ اچانک سے ایک سنہرا انقلاب آ جائے ۔ سب بیروزگاروں کو نوکریاں مل جائیں ۔ سب بے گھروں کو گھر مل جائیں۔ غربت اچانک ختم ہو جائے۔ کسانوں کو تمام تر سہولتیں اچانک مل جائیں۔ ملکی قرضے اچانک اتر جائیں۔ سبز پاسپورٹ کو اچانک عزت مل جائے۔ دنیا ہم کو بہتر نظر سے دیکھنے لگے۔ دہشت گردی کا عفریت اچانک ختم ہو جائے۔ ایک انقلاب آ جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال نے عوام کو بہت بے صبرا کر دیا ہے۔ لوگوں میں اب صبر کی طاقت نہیں رہی۔ اب وہ ہر لمحہ انقلاب چاہتے ہیں۔ ہر لمحہ ترقی کا اک نیا خواب چاہتے ہیں۔ اب لوگ اپنی دنیا تبدیل چاہتے ہیں ۔ یہ وہی دنیا ہے جس کا وعدہ عمران خان نے دو ہزار تیرہ میں بھی کیا تھا اور جس کو کے پی کے عوام نے بھگتا بھی ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جو گزشہ پانچ سال وعدوں اور دعوئوں کا ڈسا ہوا تھا۔ جہاں آج بھی عوام تین سو پچاس ڈیموں کا نتظار کر رہے ہیں۔ جہاں بی آر ٹی اب بھی جنگلہ بس نہ بننے کا ماتم کر رہی ہے۔ جہاں کا احتساب کمیشن آج تک اپنے اختیارات کی تلاش میں ہے۔ جہاں نہ غربت ختم ہوئی ہے نہ ہی بیروزگاری ۔ جہاں نہ احتساب ہوا ہے نہ کرپشن ختم ہوئی ہے۔ جہاں نہ تعلیم کا سونامی آیا ہے نہ صحت کے شعبے میں کوئی انقلاب آیا ہے۔ جہاں نہ صاف پانی کا کوئی منصوبہ لگا ہے نہ خط غربت سے نیچے رہنے والوں کے لئے کوئی اقدام کئےگئے ہیں۔
عمران خان کو اب بہت جلد احساس ہو جائے گا کہ توڑ پھوڑ کرنا بہت آسان ہے اور تعمیر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ تضحیک کرنا بہت آسان کام ہے اور تعظیم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ احتجاج کرنا بہت آسان کام ہے اور احترام کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا آسان کام ہے اور لوگوں کو پر امن رکھنا مشکل کام ہے۔ عوام کی عدالت کا نعرہ لگانا آسان کام ہے اور عوام کی عدالت میں پیش ہونا مشکل کام ہے۔ اسمبلیوں کی توہین کرنا آسان کام ہے پارلیمان کی توقیر برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ اشتعال دلانا آسان کام ہے اختلاف رائے کا احترام کرنا مشکل کام ہے۔میڈیا پر اپنی مرضی کے اینکروں سے مخالفین کی عزت کی دھجیاں بکھیرنا آسان کام ہے میڈیا کی تنقید برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ عوامی فلاح کے منصوبوں میں سے کیڑے نکالنا آسان کام ہے عوامی فلاح کے منصوبے بنانا مشکل کام ہے۔ جمہوریت پر لعنت بھیجنا آسان کام ہے جمہوری طرز فکر اپنانا مشکل کام ہے۔ دوسروں کی ذاتی زندگی پر حملے آسان کام ہے دوسروں کی سیاسی بصیرت کو تسلیم کرنا مشکل کام ہے۔ عمران خان حکومت کے پیش نظر عمران خان کا گزشتہ پانچ سال کا رویہ ہے ۔ یہی رویہ عمران خان کے آڑے آئے گا۔ یہی رویہ عمران خان کو سبق سکھائے گا۔یہی چیلنجز عمران خان کے سامنے سر اٹھائیں گے۔ یہی دعوے ، وعدے اگلے پانچ سال کی بساط سجائیں گے۔