عمران خان کی اصل آزمائش…خورشید ندیم
یہ ایک فرد کی نہیں، در اصل ایک نقطہ نظر کی آزمائش ہے۔
تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ اعیان سے یا عوام سے؟ اس باب میں بالعموم دو نقطہ ہائے نظر پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے مرحلے میں عوامی سطح پر تبدیلی آتی ہے۔ یہ افراد ہیں جو نظام تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے سوچنے کا زاویہ بدلتا ہے تو سماجی تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی پھر مختلف شعبوں میں ظہور کرتی ہے۔ یوں سیاسی، معاشی اور دوسرے ادارے تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ سیاسی ادارے بدلتے ہیں تو حکمران بھی بدل جاتے ہیں اور بالآخر نظام بھی۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے۔ اگر حکمران طبقہ بدل جائے تو معاشرہ سنور جاتا ہے۔ لوگ تو اعیان کے دین پر ہوتے ہیں۔ وہ اگر دیانت دار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوں گے تو عوام بھی انہی کی طرح دیانت دار ہوں گے۔ حکمران طبقہ بد عنوان ہو تو معاشرہ کبھی دیانت دار نہیں ہو سکتا۔ عمران خان اسی کے قائل ہیں۔
حکمتِ عملی نقطہ نظر سے پھوٹتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کے لیے معاشرے کی اخلاقی ساخت کو بدلنا ضروری ہے، ان کی تمام سعی و جہد نظامِ اقدار کی اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ وہ سوچ کی تبدیلی کو اولیت دیتے اور اسی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اوپر سے تبدیلی کے علم بردار قیادت کی تبدیلی کو ہدف بناتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی کا محور یہ نکتہ ہوتا ہے کہ کیسے اقتدار کی لگام ان کے ہاتھ میں آ جائے۔
عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی میں، جماعت اسلامی کی طرح ارتقا ہے۔ جماعت اسلامی بھی صالحین کی قیادت چاہتی ہے۔ جماعت چونکہ ایک صاحبِ نظر کا نتیجۂ فکر ہے اور اسے برسوں ان کی راہنمائی بھی میسر رہی، اس لیے اس کے ارتقا کے پس منظر میں ایک استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی ابتدائی حکمتِ عملی یہی تھی کہ تبدیلی کا آغاز شعوری تبدیلی سے کیا جائے؛ تاہم وہ اس کی بھی قائل رہی کہ اصلاح کا ایک میدان چونکہ سیاست بھی ہے؛ لہٰذا اس سے صرفِ نظر بھی درست نہیں۔ پہلے مرحلے میں اس سے مراد، سیاست کے بارے میں عوامی خیالات کی اصلاح تھی۔
بعد میں جب یہ سوال اٹھا کہ سیاسی اصلاح کے لیے، کیا اقتدار کی کشمکش میں بھی فریق بننا چاہیے تو اس پر جماعتِ اسلامی میں دو نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ ایک رائے یہ تھی کہ قابلِ ذکر سماجی اور شعوری تبدیلی کے بغیر یہ قبل از وقت اقدام ہو گا۔ اس سے گریز کرنا چاہیے، یہاں تک کہ معاشرے میں ایک بڑی فکری تبدیلی آ جائے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ معاشرتی اصلاح کا کام تو جاری رہے گا‘ لیکن اقتدار کی سیاست سے صالحین کا دور رہنا گویا غیر صالحین کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ ریاست کے وسائل پر قابض ہو جائیں اور یوں معاشرتی بگاڑ کے لیے ان وسائل کو استعمال کریں۔
اکثریت نے اس رائے کو اختیار کیا اور وہ لوگ جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے جو اس سے مختلف رائے رکھتے تھے۔ اس حکمت ِعملی کے نتائج ہم نے بچشمِ سر دیکھ لیے۔ اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی کے بر خلاف عمران خان تجربات کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ مروجہ سیاست کو اپنائے بغیر اقتدار تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنا لیا اور یوں اقتدار تک پہنچ گئے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کے نام میں اگرچہ تحریک کا لفظ موجود ہے لیکن اصلاً یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ یہ معاشرتی اصلاح کی کوئی ہمہ گیر تحریک نہیں، جس طرح جماعت اسلامی ابتدائی دور میں تھی۔ پہلے ہی دن سے اس کا ہدف اقتدار تھا جس طرح دوسری سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعت بنتی ہی اس مقصد کے لیے ہے۔ اس کے پیشِ نظر خاص نقطۂ نظر یا نظامِ فکر کے حامل افراد تیار کرنا نہیں تھا۔ ان کا خیال تو یہ تھا کہ ایک بار ہم اقتدار تک پہنچ جائیں تو پھر معاشرے کے دیانت دار اور باصلاحیت افراد کو جمع کریں گے اور یوں حکومت کی قوت سے سب کچھ بدل دیں گے۔
مثال کے طور پر جب تعلیم کا شعبہ آپ کے ہاتھ میں آ جائے گا تو پھر آپ نظامِ تعلیم کو بدل ڈالیں گے۔ معیشت آپ کے ہاتھ میں ہو گی تو اسے کرپشن سے پاک کر دیا جائے گا؛ چنانچہ حکومت ملتے ہی ایک معاشی مشاورتی کمیٹی بنا دی گئی جس میں ماہرینِ معیشت کو جمع کیا گیا کہ وہ اقتصادی اصلاحات تجویز کریں۔ اسی طرح تعلیم پر ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی جو ایک نظامِ تعلیم پر تجاویز مرتب کرے گی۔
یہاں پھر جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں ایک فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی کے قائد مولانا مودودی نے سب سے پہلے تبدیلی کا ایک لائحہ عمل تجویز کیا۔ یہ لائحہ عمل ان کے فہمِ تاریخ و مذہب کا نتیجہ تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس تبدیلی کے لیے جن رجالِ کار کی ضرورت ہے، وہ معاشرے میں کہیں نہیں پائے جاتے۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں ایسے رجالِ کار کی تیاری ضروری ہے‘ جو تبدیلی کے اس لائحہ عمل اور مذہب و تاریخ کے ان نتائجِ فکر سے اتفاق رکھتے ہوں‘ جن تک وہ پہنچے ہیں۔ تحریکِ انصاف نے اس طرح کی کوئی درد سری نہیں پالی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ ایک تحریک کی ضرورت تو ہو سکتی ہے، سیاسی جماعت کی نہیں۔
میں نے جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کا اگر تقابل کیا ہے تو اس کی ایک وجہ ہے۔ تحریکِ انصاف نے اپنے لیے جو اہداف مقرر کیے ہیں، یہ ایک ہمہ گیر تحریک کے ہوتے ہیں، کسی سیاسی جماعت کے نہیں۔ ہمہ گیر تبدیلی کی اگر کوئی منظم کاوش اس سے پہلے ہوئی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہی ہے۔ اس لیے اس سابقہ تجربے کو سامنے رکھے بغیر یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ تحریکِ انصاف کو اب کن مشکلات کا سامنا ہو گا۔
اس مرحلے پر ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے ان اہداف کو کیوں پیشِ نظر رکھا جو دراصل تبدیلی کی ایک ہمہ گیر تحریک کے اہداف ہو سکتے ہیں؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ اس جماعت کی بنیاد رکھنے والے اکثر جماعت اسلامی سے متاثر تھے۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر صالحین کی حکومت قائم ہو جائے تو سماج خود بخود بدل جائے گا۔ وہی اوپر سے تبدیلی کا فلسفہ۔ انہوں نے عمران خان کی عوامی مقبولیت کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ رہے عمران خان تو سماج اور ریاست یا جماعت اور تحریک کی بحث، اُس مرحلے پر ان کی سمجھ سے باہر تھی۔
بعد میں جب عمران خان خود سیاسی تجربات سے گزرے تو ان کا اپنا ایک زاویہ نظر وجود میں آیا۔ یہ متعدد اور متضاد اجزائے ترکیبی کا مرکب ہے۔ اس میں اصلاح کی خواہش، اقتدار کی بے مہار تمنا سے ہم آغوش ہو گئی ہے۔ ساتھ سیاست، تاریخ اور مذہب کے باب میں ان کے کچے پکے خیالات ہیں؛ تاہم ایک بات میں وہ واضح ہیں کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے۔ ایک بار کسی بھی طریقے سے اقتدار تک پہنچ جانا چاہیے۔ اس کے بعد تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
یہ کیسے ہو گا؟ ان کا خیال ہے کہ انہیں تین ماہ دیے جائیں۔ اس کے بعد وہ بتا سکیں گے کہ یہ تبدیلی کیسے آ رہی ہے۔ انہیں اس کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ عمران خان کا امتحان نہیں، ایک نقطہ نظر کی آزمائش ہے۔ آج یہ نقطہ نظر رکھنے والے صرف وہ نہیں، علم بردارانِ خلافت سمیت بہت سے گروہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ بات اہم نہیں کہ اقتدار تک کسی جائز طریقے سے پہنچا جائے یا ناجائز طریقے سے‘ اصل بات یہ ہے کہ صالحین کو اقتدار تک پہنچا دینا چاہیے۔ اس پر البتہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے: جو نا جائز طریقوں یا حیلوں سے اقتدار تک پہنچتا ہے، کیا اس کے بعد بھی وہ دیانت دار اور صالح ہو سکتا ہے؟ یعنی صادق بھی اور امین بھی؟