ایک معاصر میں یہ خبر پڑھ کر کہ عمران خان کی ہمشیرگان نے کم وبیش سات خواتین کی ایک فہرست تیار کی ہے جن میں سے ایک کو وہ اپنی بھابھی بنانا چاہتی ہیں‘ مجھے خان کی قسمت پر رشک اور ان خواتین پر رحم آیا۔
چند روز قبل اخبار نویس ‘تحریک انصاف کے چیئرمین کی انگلی میں چمکتی قیمتی انگوٹھی کے بارے میں استفسار کر چکے ہیں ۔یہ عمران خان کو ایک روحانی شخصیت کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ روحانی شخصیت ایک خاتون ہیں جن کا روحانی تعلق دربار حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے ہے۔ اتوار کی شام میں ایکسپو سینٹر لاہور کے کتاب میلہ میں حاضری لگوانے پہنچا تو برادرم فرخ سہیل گوئندی کے سٹال پر کرسٹائن بیکر کی خودنوشت سوانح ”ایم ٹی وی سے مکّہ تک‘‘ہاتھ لگ گئی۔ جسونت سنگھ کی قائداعظمؒ کے بارے میں کتاب خریدی اور جمعہ خان صوفی کی خود نوشت سوانح‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارے سٹال چھان مارے مگر کہیں ملی نہیں‘ فرخ سہیل گوئندی اور سلیم اعجاز ملک نے وعدہ کیا کہ کتاب جب ملی‘ جہاں ملی‘ آپ تک پہنچ جائے گی۔
اس بار کتاب میلہ کی رونق پہلے سے زیادہ تھی اور رش بھی اتوار کے باعث کئی گنا زیادہ‘ کھوے سے کھوا چھلنے کا اردو محاورہ درست معلوم ہوا۔ منتظمین نے جہاں اگلے سال کتاب میلہ کے لیے زیادہ جگہ دینے کا مطالبہ کیا وہاں کرایہ اور ٹیکس کی شرح پر نظرثانی کی اپیل بھی کی۔ ایک دن کا کرایہ بارہ لاکھ روپے واقعی زیادہ اور زیادتی ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو بہرحال سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ اس دور میں جبکہ کتاب سے لوگوں کا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے ‘معاشرے اور حکومت کو ان پبلشرز کا ممنون ہونا چاہیے جو کھانوں‘ جوتوں‘ کپڑوں اور پراپرٹی کا نقد آور ‘منافع بخش کاروبار چھوڑ کر کتابوں کی اشاعت اور فروخت میں مصروف ہیں اور ہر سال کتاب میلہ کی رونق بھی لگا لیتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ”ایم ٹی وی سے مکّہ تک‘‘ کے کچھ حصے میں نے انٹرنیٹ پر پڑھے تھے مگر پوری کتاب پڑھنے کا موقع اب ملا۔ عین اسی روز جب عمران خان کی باردگر شادی کی خبر شائع ہوئی۔
ایم ٹی وی کی شہرہ آفاق‘ چلبلی اور خوبرو اینکر کرسٹائن بیکر نے عمران خان سے متاثر ہو کر اسلامی تعلیمات کا براہ راست مطالعہ کیا اور عمران خان کی طرف سے شادی نہ کرنے کے اعلان کے بعد ترکی کے معروف روحانی پیشوا شیخ ناظم کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ ”ایم ٹی وی سے مکّہ تک‘‘ میں عمران خان سے تعارف‘ پاکستان میں بار بار آمد‘ شمالی علاقہ جات‘ خیبرپختون خوا‘ سندھ اور دیگر علاقوں کی سیروسیاحت‘ پاکستانی تہذیب و تمدن کا براہ راست مطالعہ اور عمران خان کے دوستوں سے ملاقات کا احوال موجود ہے اور ان کتابوں کا ذکر بھی جنہیں پڑھ کر ایک آزاد خیال‘ اور بے باک خاتون نے قبول اسلام کا فیصلہ کیا۔ کتاب کے چند قابل مطالعہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
”عمران نے کہا بطور مسلمان آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپ کی ضرورت کیا ہے اور فالتو غربا کو دیدیں‘ ذخیرہ اندوزی غیر اسلامی ہے ‘ اپنی زندگی میں جس قدر بھی دولت جمع کر لیں ہم اسے اپنے ساتھ اپنی آئندہ زندگی میں لے کر نہیں جا سکتے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مجھ سے اس انداز میں بات کرتا تو میں شاید زیادہ محسوس نہ کرتی لیکن جب عمران نے یہ کہا تو مجھے علم تھا کہ وہ سب اخلاص سے کہتا ہے‘ اپنی فوری ضروریات کے علاوہ اس نے جو کچھ کمایا ہسپتال کے لیے خرچ کر دیا‘‘۔
”جھیل (راما) کی روح پرور سیر کے بعد ہم درخت کے سائے تلے گھاس پر بیٹھ گئے اور عمران حضرت محمد ﷺ کی سوانح عمری کے مطالعہ میں مستغرق ہو گیا جو ایک انگریز عالم مارٹن لنگز (ابوبکر سراج الدین) کی تصنیف ہے۔ حضور ﷺ کی رحلت کا ذکر پڑھ کر عمران کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو واقعی کسی چیز کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ اس قسم کا شخص نہیں تھا جو اپنے نسوانی پہلو (رونے دھونے) سے متاثر ہوتا۔ اسے رسول اللہﷺ سے انتہائی عشق تھا اور یہ عشق شائد کسی دوسرے شخص کی نسبت کہیں زیادہ ہے…عمران نے مجھے بتایا کہ مسلمانوں کو حضرت محمد ﷺ سے بے انتہا عقیدت و محبت ہے اسی لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین سے مشتعل اور چراغ پا ہو جاتے ہیں‘‘ ۔
”اب میرے سامنے ایک جلا ہوا کمرہ تھا، ہر طرف تباہی کا سامان تھا، لباس جل کر سیاہ ہو چکے تھے لیکن صرف ایک چیز کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچا تھا اور وہ اپنی اصلی حالت میں موجود تھی اور وہ قرآن مجید تھا۔ کچھ دیر بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے عمران خان کو اطلاع دینی چاہیے۔ یہ اس کا مکان تھا جو اسے بہت پسند تھا یہ اس کی واحد ملکیت تھی کیونکہ اس نے اپنی ہر چیز ہسپتال کے لیے وقف کر دی تھی۔ لاہور میں عمران خان کو فون کیا تو مجھے خدشہ تھا کہ وہ ناراض ہو گا مگر اس کے منہ سے سرزنش اور ملامت کا ایک لفظ بھی نہ نکلا‘ اس نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کس قدر نقصان ہوا اور نہ انشورنس کے متعلق سوال کیا۔ وہ کہنے لگا ”اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا‘ پیسہ ہاتھ کی میل ہے، آتا ہے اور جاتا ہے جب مرتے ہیں تو خالی ہاتھ ہوتے ہیں‘‘۔
”موسم بہار میں عمران نے مجھے فون کیا اور یکلخت اطلاع دی کہ اس کے روحانی پیشوا نے کہا ہے کہ ہمارے تعلقات اب مزید قائم نہیں رہ سکتے، میری زندگی تہہ و بالا ہو گئی، میں بہت اداس‘ مضطرب اور اندر سے زخمی ہو چکی تھی۔ ذہنی دبائو مجھے بیمار کئے دے رہا تھا میں نے ایک نفسیاتی معالج سے رابطہ کیا جو نو مسلم تھی ۔جب میں نے اسے عمران کے روحانی مشیر کے بارے میں بتایا تو اس نے مجھے بھی روحانی مشیر سے بات کرنے کا مشورہ دیا اور مجھے وہ اپنے روحانی پیشوا وصوفی شیخ ناظم کے پاس لے گئی میں پہلی بار عمران کے بغیر کسی اسلامی جگہ میں داخل ہو رہی تھی‘‘۔
”جب Bild نامی اخبار نے میرے حوالے سے یہ بیان شائع کیا کہ: ”میں دل سے مسلمان ہوں‘‘ تو میڈیا میں طوفان برپا ہو گیا میرے خلاف الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اخبار نے سرخی جمائی کہ” کرسٹائن بیکر پانچ وقت نماز پڑھتی ہے جبکہ اس کے مداح ناظرین راک کنسرٹ دیکھنے چلے جاتے ہیں‘ ‘۔یہاں تک کوئی مضائقہ نہ تھا مگر دیگر صحافیوں نے تو پیشہ ورانہ اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر لیں اور مجھ پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگا دیا…میرے والدین فیصلہ سے ششدر رہ گئے ۔میرے والدین یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ میں یہ مذہب کیوں اپنانا چاہتی ہوں، اب تو میری عمران خان کے ساتھ شادی نہیں ہو رہی، میرا قبول اسلام کیا معنی رکھتا ہے؟ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے صرف اپنی ذات کے لیے اس مذہب کی جستجو کی ہے، عمران نے تو محض میرے لیے دروازہ کھولا تھا‘‘۔
”بالآخر میرے دل نے تسلیم کر لیا کہ عمران کو معاف کر دینا چاہیے؛ حالانکہ اس کے طرزعمل کے باعث میں کافی دیر تک تکلیف میں مبتلا رہی تھی،مجھے یقین ہو گیا کہ معاملات نے جو رخ اختیار کیا، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کئے۔ اس موقع پر تکلیف میں راحت کا محاورہ بالکل صادق آتا تھا میں ایمان کے اس تحفے کی شکر گزار تھی،میرے نزدیک یہ تمام صورتحال اس لیے نمودار ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو مجھے اپنے قریب لانے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔ جیسے ہی عمران خان نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنا مقررہ کردار ادا کیا۔ ایمان نے میرے دل میں جگہ بنا لی‘ اللہ تعالیٰ نے عمران کو ایک طرف کر دیا ۔اللہ تعالیٰ نے انسانی اور مجازی محبت کو مجھ سے دور کر دیا تاکہ میں حقیقی محبت یعنی خدا کی محبت تک پہنچنے کے قابل ہو جائوں جو تمام محبتوں سے اعلیٰ و ارفع ہے‘‘۔
مجھے ذاتی طور پر یہ علم نہیں کہ عمران خان کو جمائما گولڈ سمتھ اور ریحام خان سے شادی کا مشورہ کسی روحانی پیشوا نے دیا تھا یا ان کا ذاتی فیصلہ تھا‘ کرسٹائن بیکر سے شادی کا مشورہ نہ دینے والے روحانی پیشوا کون تھے؟ مگر اب بہنوں نے اپنے دیساں دا راجہ بھائی کے لیے دلہن کا انتخاب کر ہی لیا ہے اور عمران خان ایک بار پھر یہ پل صراط عبور کرنا چاہتے ہیں تو ہماری دعا ہے کہ یہ تجربہ کامیاب رہے اور تیسری شادی تحریک انصاف کے چیئرمین کو راس آئے۔ اسے جمائما خان اور ریحام خان کی نظر نہ لگے ۔ رہی کرسٹائن بیکر تو وہ عمران خان کو معاف کر چکی ‘ اور اپنی ایمانی و روحانی دنیا میں مگن ہے۔