عمران خان کی سادگی مہم….کنور دلشاد
عمران خان کے جمہوری ویژن کے مطابق وفاق اور صوبوں میں نئی آئینی اور جمہوری حکومتوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان ایک ایسے ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا جا رہا ہے‘ جہاں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے‘ کیونکہ اس سے پہلے تین مرتبہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت کے خاتمے تک کام کرتی رہیں‘ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے دانشور 2002ء سے2007ء تک کی پارلیمانی میعاد کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اب پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور قومی سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ سیاسی اور جمہوری روایات کو قائم کریں‘ تاکہ پاکستان صرف جمہوری ریاست ہی نہیں‘ بلکہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرہ بھی ایک عظیم جمہوری معاشرہ بن سکے۔
عمران خان نے اعلیٰ جمہوری روایات کے تحت اعلیٰ آئینی عہدوں پر نامزدگی کے لئے اس مرتبہ اپنی سیاسی جماعتوں خصوصاً پارلیمانی پارٹیز کے ساتھ پہلے سے زیادہ مشاورت کی ہے۔ انہوں نے صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ اور سپیکرز سمیت دیگر اہم عہدوں پر نامزدگی کے لئے اپنی پارلیمانی پارٹی سے جس طرح طویل مشاورت کی وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ اب پارٹی سربراہ کی خواہش و مرضی کا دور بھی ختم ہو چکا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ سیاسی جماعت کا اپنی پارلیمانی جماعت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ‘ سیاسی جماعت کے ارکان یہ سوال نہیں کر سکتے تھے کہ پارلیمنٹ میں جانے والے ان کے ارکان کی کارکردگی کیا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں جانے والا خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے یا کرپشن میں ملوث ہے‘ تو سیاسی جماعتیںاس کا احتساب نہیں کرتی تھی‘ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عہدیدار کسی حد تک احتساب کے عمل میں شریک ہو گئے ہیں اور ان کی تنقید اور سوالات کی شنوائی ہو گی اور اس عمل کو مزید آگے بڑھانے میں عمران خان مزید آگے بڑھیں گے‘ اور سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کی کارکردگی کی صحیح معنوں میں جانچ پڑتال کر سکیں گی۔ عمران خان نے کرپشن کے ازالے کے لئے عمدہ فرمان جاری کیا ہے‘ کہ کرپشن کو بے نقاب کرنے والے کو 25 فیصد اس رقم سے انعام دیا جائے گا‘ اس اعلامیہ کے بعد نوجوان اور سیاسی ورکرز مچھلی پکڑنے کے جال بننے لگے ہیں۔ وہ ہر ادارے سے کرپٹ مچھلیاں پکڑوا کر معقول حصہ لیں گے۔ عمران خان کے اس اعلامیے کو قومی احتساب بیورو کو خصوصی مہم کا حصہ بنانا چاہیے اور ساتھ یہ بھی اعلامیہ جاری کریں کہ غلط حقائق سامنے آنے پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اس طرح اعلیٰ اور صحت مند جمہوری روایات کو رائج کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمانی اداروں خصوصاً سینیٹ‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سٹینڈنگ کمیٹیز اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کو فعال بنانے کے لئے فلپائن اور کینیڈا کے سسٹم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اب متحدہ اپوزیشن کے لیڈر شہباز شریف روایتی احتجاج کی بجائے حقائق پر مبنی ٹھوس انداز میں حکومت کی نا اہلی پر بحث کریں۔ خورشید شاہ نے متحدہ اپوزیشن لیڈر بن کر قوم کے ساتھ دھوکا دہی کی‘ وہ قوم کو فریب دیتے رہے اور جمہوریت کے نام پر نواز دشریف کی کرپشن پر پردہ ڈال کر اپنے مفادات کا سودا کرتے رہے۔ اسی لئے ان کمیٹیوں نے قومی مفادات کو نظر انداز کئے رکھا۔ اب ان کمیٹیوں کے ذریعے احتساب اور جمہوری تعاون کا حقیقی ماحول پیدا کرنا ہو گا جو نہ صرف پارلیمنٹ کے استحکام کا ذریعہ بنے گا‘ بلکہ جمہوری معاشرے کے قیام میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات کو نظر انداز کرنے کی نواز شریف کی روایت ختم کرنا ہو گی‘ کیونکہ کمیٹیوں‘ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان غور و خوض اور ریاضت کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل اور ووٹرز بہت با شعور ہو گئے ہیں‘ وہ اچھی حکمرانی اور دیانت داری کا تقاضا کر رہے ہیں‘ اب اپوزیشن جماعتیں بلا وجہ کی مفاہمت سے نئی نسل کو قائل نہیں کر سکتیں۔
عمران خان کو مضبوط اپوزیشن کی اندرونی کشمکش اور اختلافات کے باعث کمزور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا‘ کیونکہ آصف علی زرداری‘ انور مجید کی گرفتاری کے بعد کمزور وکٹ پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک ایسی پراسرار شخصیت موجود ہے‘ جس نے شہباز شریف کو آصف علی زرداری سے ہاتھ ملانے پر روک کر اپوزیشن اتحاد میں رخنے پیدا کر دئیے۔ شہباز شریف کا اپنی پارٹی پر کنٹرول نہیں ہے۔ ان کے ارکان نے صدارتی الیکشن میں حیرت انگیز طور پر اپنا کردار ویسے ہی ادا کیا جیسا کہ 6 ستمبر 2008ء کو آصف علی زرداری کے صدارتی انتخابات میں مشاہد حسین سید کو صدمات سے دوچار کرتے ہوئے ان کی پارٹی کی بعض خواتین اور مرد ارکان نے آصف علی زرداری سے خفیہ ڈیل کرکے ان کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے تھے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ کا حجم 55 ارکان سے کم ہو کر 30 ارکان تک رہ گیا تھا۔ تقسیم شدہ اپوزیشن سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو آئندہ پانچ سالوں میں کوئی سنگین خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اتنی بڑی اپوزیشن حقیقت میں کمزور ہے۔
پاکستان اس وقت اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ قرض اور میگا بد عنوانی نے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے‘ ایسی حالت میں امریکہ نے بھی ہاتھ اٹھا لیے ہیں‘ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد روک دی ہے اور رہی سہی کسر وزیر اعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلی فونک کال سے نکلی ہے‘ اور جس انداز میں وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کی ایماء پر امریکی وزیر خارجہ کو دو ٹوک جواب دیا ہے انہوں نے صدر یحییٰ خان اور روسی صدر پڈگانی کی ایران کے عشائیہ میں ہونے والی تند و تیز گفتگو کی یاد تازہ کر دی ہے‘ جس کے نتائج چند مہینوں میں سامنے آ گئے تھے۔ پاکستان کو عوامی جمہوریہ چین کا بہت سہارا تھا‘ لیکن چین کی تجویز اور چینی اقتصادی راہداری کے منصوبے بھی کھٹائی میں پڑ رہے ہیں‘ اس میں ہونے والے خرچ کا ازالہ نہیں ہو پا رہا اور امریکہ اور چین کو مطمئن کرنے کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم کو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی‘ جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال دائو پر لگنے کا اندیشہ ہے۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام نواز شریف کا حامی میڈیا کرے گا اور وزیر اعظم پاکستان کے خلاف چاروں طرف سے ویب سائٹس پر حملے ہوں گے اور ریاست مدینہ کا جو تصور وزیر اعظم کے ذہن میں موجود ہے اس تصور کو متاثر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ عمران خان کا ارادہ اصولی طور پر درست ہے‘ لیکن اس کی آڑ میں بعض ‘سکالر‘ ان کے خیالات بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزیر اعظم نے 22 برس محنت کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے ارد گرد دوستوں کے بارے میں رائے مستحکم نہیں ہے‘ اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے بھارتی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی پوزیشن میں ہیں کیونکہ عمران خان کے بھارت میں جتنے دوست ہیں اتنے ماضی میں کسی وزیر اعظم کے نہیں رہے۔ اسی دوستی کے سہارے عمران خان کشمیر کے حوالے سے اپنے ان دوستوں کی حمایت سے نیا ڈائیلاگ شروع کر دیں۔ عمران خان نے حلف لینے کے بعد قوم سے جو خطاب کیا اس سے بھارت کے کئی با اثر افراد بھی گھبرا گئے ہیں۔ عمران خان نے سادگی کی تحریک چلا کر بھارت کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے‘ عمران خان کی سادگی سے پاکستان کے خوشحال اور طاقتور طبقے میں ایسی لہر پیدا ہو رہی ہے جس سے غریب طبقے میں اطمینان پیدا ہو رہا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کے امراء نے عمران خان کو اپنا آئیڈیل بنا لیا تو پھر رشوت‘ بد عنوانی پر قابو پانا مشکل نہیں رہے گا۔