منتخب کردہ کالم

عوامی عدالت کا فیصلہ آنے کو ہے…. بلال غوری

عوامی عدالت کا فیصلہ آنے کو ہے…. بلال غوری

قسمت بھی بہت کمال شے ہے۔
نوازشریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ۔اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمیٰ نے کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ۔اس سے پہلے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ،نوازشریف جلاوطن ہو گئے ۔2008ء میں وطن واپسی پر نوازشریف نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ۔قانونی تقاضوں کے مطابق کسی بھی عدالتی فیصلے کے خلاف ایک ماہ کی مدت میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو آٹھ سال ہو چکے تھے۔نوازشریف نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو جسٹس تصدق حسین جیلانی ،جسٹس امیر مسلم ہانی، جسٹس غلام ربانی ،جسٹس ناصر الملک،جسٹس شیخ حاکم علی اور جسٹس موسیٰ کے لغاری پر مشتمل پانچ رُکنی لارجر بنچ نے نہ صرف اس اپیل کو سماعت کے منظور کر لیا بلکہ نوازشریف کو اس مقدمے میں باعزت بری کر دیا گیا۔یوں نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ ماضی کے دریچوں سے یہ تاریخی فیصلہ شیئر کرنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ قسمت یاوری کرے تو کیسے سب مشکلیں کافور ہوتی چلی جاتی ہیں لیکن قسمت مہربان نہ ہو تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔اب یہ قسمت کس بلا کانام ہے ،اسے پڑھنے والوں کے تخیل کی پرواز کے سپرد کیے دیتے ہیں۔بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ان دنوں قسمت کا دیو نوازشریف پر مہربان نہیں اور انہیں مستقبل میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔حدیبیہ پیپر کیس کو لاہور ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی مدت گزر گئی مگر اب عدلیہ کے احکامات بجا لاتے ہوئے نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حدیبیہ پیپر مل کیس کا پنڈورا بکس کھولنے کا مقصد شہباز شریف خاندان کا ٹرائل ہے لیکن میرے خیال میں معاملہ کچھ اور ہے ۔نوازشریف کی حکمت عملی یہ تھی کہ کلثوم نواز کو NA120سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب کروانے کے بعد شاہد خاقان عباسی کی جگہ وزیر اعظم منتخب کروایا جائے اورشاید اس حکمت عملی کوناکام بنانے کے لئے حدیبیہ پیپر مل کیس کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں کیونکہ اس مقدمہ میں پورا شریف خاندان کٹہرے میں آ سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوالیکن دیکھنا یہ ہے کہ 17ستمبرکو عوامی عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔عمران خان اپنی تقریروں میں بارہا بتا چکے ہیں کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ کس کس کے درمیان ہے۔گویا وہ بھی نوازشریف کی طرح اس عوامی عدالت کے دائرہ سماعت کوتسلیم کرتے ہیں اور امید ہے جو بھی فیصلہ آئے گا اس پر دھاندلی کاالزام لگانے کے بجائے سر تسلیم خم کریں گے۔ ویسے ہمارے ہاں عوامی عدالتوں کا مزاج اورطریقہ کار بہت مختلف رہا ہے ۔یہاں قانونی موشگافیاں اور وکلا کی چالاکیاں فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوتیں ۔یہاں تو جمشید دستی جیسا شخص جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر ایوان میں آجاتا ہے۔
یہ حلقہ کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ یہاں نوازشریف کی محبت سرایت کرتی چلی گئی ۔1990ء کے عام انتخابات میں آئی جے آئی کے امیدوار کی حیثیت سے شہباز شریف نے اس حلقے سے چون ہزار پانچ سو چھ ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی اور ان کے مد مقابل جہانگیر بدر نے اکتالیس ہزار نوسو دو ووٹ لئے ۔1997ء کے انتخابات میں عمران خان نے اسی حلقے سے نوازشریف کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور محض چند ہزار ووٹ حاصل کر سکے ۔اس حلقے میں نوازشریف کا مخالف ووٹ ہمیشہ سے رہا ہے ۔ماضی میں یہ ووٹ پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کو پڑتا تھا مثال کے طور پر 2008ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے بلال یٰسین نے 66ہزار ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے حریف جہانگیر بدر نے 24ہزار ووٹ لئے یوں دونوں امیدواروں کا مارجن تقریبا 40ہزار رہا ۔2013ء کے عام انتخابات میں جب میاں نوازشریف نے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور نوازشریف مخالف ووٹ متحد تھا اس لئے ڈاکٹر یاسمین راشد قابل ذکر ووٹ لینے میں کامیاب ہوئیں لیکن اس مرتبہ بھی جیتنے والے امیدوار کا مارجن 40ہزار ہی رہا ،کم نہیں ہوا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کونسا امیدوار کتنی اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہوتا ہے۔نوازشریف کا مذہبی ووٹ توڑنے کے لئے اس مرتبہ ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار شیخ یعقوب کو میدان میں اتارا گیا ہے جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ چند ہزار ووٹ لیکر تیسری یا چوتھی پوزیشن پر آسکتے ہیں ۔مختلف سروے اور سویلین اداروں کی رپورٹوں میں کلثوم نواز کی کامیابی کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مارجن بہت کم ہے اس لئے کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔میری دانست میں اب معاملہ محض جیت یا ہار تک محدود نہیں رہا بلکہ بات بہت آگے نکل چکی ہے۔اگر یہاں سے کلثوم بہت معمولی برتری سے جیتنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عوام نے نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے اور اب لاہورہی نہیں ملک بھر سے مسلم لیگ (ن) کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ایسی صورت میں تحریک انصاف ہارنے کے باجود بھی آئندہ انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اگر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا تناسب بڑھ جاتا ہے یا پھر برقرار رہتا ہے تو پھر تحریک انصاف سمیت بیشتر کا بوریا بستر گول سمجھیں۔ اس حلقے میں مقامی افراد سے گفت و شنید اور حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کلثوم نواز باآسانی اور بہت معقول ووٹوں کے فرق سے جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ان کے حاصل کردہ ووٹ تو لگ بھگ اسی ہزار ہوں گے جو عام انتخابات کے دوران نوازشریف کے حاصل کردہ ووٹوں کے قریب ترین ہیں البتہ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی کارکردگی برقرار نہیں رکھ پائیں گی۔اگر وہ چالیس ہزار کے قریب ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔چونکہ اس حلقے میں انتخابی مہم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز چلا رہی ہیں اس لئے یہاں سے بڑے مارجن کیساتھ کامیابی کو ان کی جیت سمجھا جائے گا ۔اور وہ اس الیکشن میں محض اپنے سیاسی مخالفین کو ہی مات دینے میں کامیاب نہیں ہوں گی بلکہ اپنی پارٹی اور اپنے خاندان میں موجود ان افراد کو بھی واضح پیغام دے سکیں گی جن کا خیال ہے کہ مریم قیادت کی اہل نہیں۔گویا اس حلقے میںبظاہر تو امیدوار کلثوم نواز ہیں مگر نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز سمیت کئی افراد کے مستقبل کا معاملہ درپیش ہے ۔

لگتا ہے کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوالیکن دیکھنا یہ ہے کہ 17ستمبرکو عوامی عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔عمران خان اپنی تقریروں میں بارہا بتا چکے ہیں کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ کس کس کے درمیان ہے۔گویا وہ بھی نوازشریف کی طرح اس عوامی عدالت کے دائرہ سماعت کوتسلیم کرتے ہیں اور امید ہے جو بھی فیصلہ آئے گا اس پر دھاندلی کاالزام لگانے کے بجائے سر تسلیم خم کریں گے۔ ویسے ہمارے ہاں عوامی عدالتوں کا مزاج اورطریقہ کار بہت مختلف رہا ہے ۔یہاں قانونی موشگافیاں اور وکلا کی چالاکیاں فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوتیں ۔