عید اور سعید….امیر حمزہ
علامہ جمال الدین المعروف ابن منظور نے اپنی شہرئہ آفاق عربی ڈکشنری ”لسان العرب‘‘ میں افطاری یا افطار کے معنی ”پھٹنا اور کھلنا‘‘ کے بتائے ہیں؛ چونکہ روزہ دار سارا دن اپنا منہ بند رکھتا ہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ”اللہ اکبر‘‘ کی آواز کے ساتھ اپنا منہ کھولتا ہے اور منہ میں کھانے کے لئے کوئی چیز ڈالتا ہے‘ تو اس عمل کو افطار کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے ”اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت (روزہ داروں کو جہنم کی آگ سے) آزاد کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ:1443 صحیح) یاد رہے! اللہ تعالیٰ کے قید خانہ یا جیل کا نام جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے تمام دنوں میں متواتر روزانہ اپنے بندوں کو قید خانے سے رہائی دیتے ہیں۔ اب رہائی پا کر ان کی منزل جنت ہے۔ رہائی کی خوشی اور جنت کے حصول کی مسرت میں ”عیدالفطر‘‘ گویا ایک جشن اور فنکشن ہے کہ جسے سب مسلمان مل کر مناتے ہیں۔ اس جشن کا نام بھی ”عیدالفطر‘‘ ہے‘ یعنی عربی لغت کی رو سے آزاد ہونے اور کھل جانے کا دن ہے۔
ہم اہل پاکستان کو انگریز اور ہندو سے 27رمضان کو آزادی ملی تھی۔ ہم شمسی تاریخ کے حساب سے 14اگست کو آزادی کا دن مناتے ہیں۔ اگر ہمیں توفیق مل جائے اور ہم 27رمضان المبارک کو آزادی کا دن منانا شروع کر دیں تو یہ عمل قمری تاریخ کے حساب سے ہو گا اور ہماری اسلامی روایات اسی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے‘ تو ہماری آزادی کا دن ”یومِ سعید‘‘ یعنی خوش بختی کا دن ہو جائے گا اور ہماری وہ عید تو کیا خوب ”عید سعید‘‘ ہو گی جب اہل کشمیر بھی اپنا حق خودارادیت پا کر ہمارے ساتھ ”یوم سعید اور عید سعید‘‘ کی خوشیاں منائیں گے۔پروفیسر حافظ محمد سعید کے دیرینہ ساتھی یحییٰ مجاہد نے اس سال بھی رمضان کے آخری مبارک عشرے میں دعوت افطار کا ایک ایسا پروگرام رکھا کہ جس میں لاہور کے سینئر ترین اخبار نویس بلائے گئے تھے۔
افطار کے بعد اس تقریب میں حافظ سعید صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا تو حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی اسی بات سے کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ اپنی شہ رگ کو غاصب انڈیا سے چھڑوانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اہل پاکستان کو متحد کرنے اور کشمیر کی آزادی کے لئے یک آواز بنانے کے لئے ہر لحظہ کوشاں رہتے ہیں۔ وہ اہل کشمیر کی مظلومیت سے دنیا بھر کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج وہاں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
یاد رہے‘ ہندوستان کی بری فوج کی تعداد 13لاکھ ہے۔ ہندوستان کی آبادی ایک ارب 35کروڑ ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرکی آبادی صرف ایک کروڑ ہے۔ اب انڈیا کی پانچ لاکھ فوج ایک ارب 34 کروڑ کے لئے ہے جبکہ آٹھ لاکھ فوج صرف ایک کروڑ کے لئے ہے۔ یعنی اتنی بڑی فوج کی کشمیر میں چھوٹی سی آبادی کے لئے موجودگی ہی ظلم و ستم کا سمبل ہے۔ ساٹھ ہزار خواتین کی عزتوں کی پامالی ریکارڈ پر ہے۔ 20ہزار نوجوان حالیہ تحریک میں لاپتہ ہیں۔ ہزاروں بچے‘ بچیاں تک پیلٹ گنوں سے نابینا ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ظلم کے پیش نظر کشمیر کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سائنسدان‘ پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگ انڈین فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ آزادی سے کم کسی بڑی سے بڑی رعایت پر راضی نہیں۔حافظ محمد سعید جب کشمیر کے مظالم کی بات کرتے ہیں تو انڈین میڈیا مسلمہ بین الاقوامی اصول صحافت کو یکسر نظرانداز کر دیتا ہے اور محترم حافظ صاحب کو واحد کے صیغے سے مخاطب کر کے ”دہشت گرد حافظ‘‘ کہہ کر پکارتا ہے۔ یہ ہے انڈین صحافت کا اخلاقی زوال… اس کے برعکس میرے پاکستان کی صحافت کے بلند پایہ صحافتی اقدار کا یہ حال ہے کہ یہاں نریندر مودی جیسے گجرات میں 2000مسلمانوں کو زندہ جلانے والے شخص کا نام بھی لیا جاتا ہے تو مودی صاحب کہہ کر لیا جاتا ہے۔
انڈیا کی صحافت کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس حافظ محمد سعید کو تم لوگ دہشت گرد کہتے ہو انہوں نے پاکستان میں کسی بھی عالم اور دانشور سے بڑھ کر نظریاتی میدان میں دہشت گردی کے خلاف کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے ان کی جان کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ ہسپتال‘ ڈسپنسریاں‘ سکول‘ کالج‘ ملک بھر میں ڈوبنے والوں کے لئے ریسکیو کشتیاں‘ ایمبولینس سروس‘ تھر اور بلوچستان میں کنویں‘ زلزلوں اور سیلابوں میں متاثرین کی خدمت‘ جہاں آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کریں وہاں حافظ صاحب کے کارکن بوریاں لپیٹ کر شعلوںمیں کود کر متاثرین کو نکالیں۔ پاکستان میں یہ ہے تعارف‘ پروفیسر حافظ محمد سعید کا… پھر اس خدمت میں ہندو‘ مسیحی‘ سکھ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں۔ انڈین میڈیا کو سمجھنا چاہئے کہ وہ حقائق کی دنیا میں کھڑے ہو کر بات کیا کریں۔ جب وہ حقائق کی دنیا سے صریحاً ہٹ کر بات کرتے ہیں‘ حافظ صاحب کو دہشت گرد کہتے ہیں تو یہاں پاکستان میں ان کی زبان سے نکلا ہوا دہشت گردی کا لفظ نہ صرف اپنی اہمیت کھو دیتا ہے‘ بلکہ وہ اک الزام ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کو ایسے شخص کے ساتھ چمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے جو امن کا چاہنے والا‘ انسانیت کا خدمتگار اور ایک دانشور پروفیسر ہے ‘جس کے کردار سے دنیا واقف ہے۔
موجودہ دور فتنوں کا دور ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق ایسے دور میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک طوفان آج کل انڈیا کی پشت پناہی سے پاکستان اور پاک فوج کے خلاف چل رہا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور صاحب کو کہنا پڑا کہ فوج کیخلاف کی جانے والی بات برداشت کر لی جائے گی‘ لیکن اگر بات پاکستان پر آئی تو برداشت نہیں کی جائے گی۔ میں کہتا ہوں پاک فوج کی جانب سے عاجزی کا یہ ایک پہلو ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاک فوج میں سب فرشتے نہیں‘ غلطیاں بھی ہوتی ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک فوج کے لوگ اپنی غلطیوں پر نظر بھی رکھتے ہیں‘ توجہ دلانے پر اصلاح بھی کرتے ہیں اور یہ بہت ہی صحت مند‘ تعمیری‘ ترقی پسند اور قابل تحسین رویہ ہے‘ مگر جہاں تک ہم عوام کا تعلق ہے‘ ہمیں کسی کو بالکل اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ فوج کے خلاف دشمن کی زبان بولے۔ میں شہداء کے گھروں میں گیا ہوں۔ کیپٹن حسنین‘ ارسلان‘ عبدالسلام‘ اسفند یار بخاری جیسے شیروں نے پاکستان کے تحفظ کے لئے جانیں قربان کی ہیں۔ پاکیزہ خون بہانے والی پاک فوج کو تعمیری اور اصلاحی مشورے‘ تو دیئے جا سکتے ہیں۔ قابل مذمت تنقید نہیں کی جا سکتی۔ اللہ نہ کرے پاک فوج کمزور ہوتی ہے‘ تو کمزور پاکستان‘ امریکہ اور انڈیا کی خواہش ہے۔ ہم یہ خواہش پوری نہیں ہونے دیں گے۔ ہماری خوشیاں اور عیدیں اس کی مضبوطی سے وابستہ ہیں۔
حافظ محمد سعید‘ اہل پاکستان کو بدگو فتنہ پردازوں سے بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حافظ صاحب جیسے تمام لوگوں کی جدوجہد کو عید کے مبارک موقع پر سلام ہو!۔