عید اور ہمارے پردیسی… (آخری حصہ)….وقار خان
یقینا ہماری ذہنی پسماندگی آشکار ہوئی مگر ہم نے دیانتداری سے مضافاتیوں کے جذبات عرض کر دیے۔ آج ذرا ہمارے پیارے، ہمارے ساتھ یا ہمارے ہاتھوں میں پلے بڑھے پردیسیوں کی بھی کچھ باتیں ہو جائیں، جو زندگی کی حرارتوں سے بھرپور عید منا کر اور ہم پسماندوں کی خوشیاں دوبالا کر کے واپس شہروں اور ملکوںکی طرف پلٹ گئے ہیں۔
ہمارے تارکینِ دیہات میں سے اکثر ایسے ہیں، جو دو تہذیبوں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ایک شہر کی اور دوسری گائوں کی تہذیب۔ خدا معلوم یہ ترقی ہے یا احساس کمتری مگر ہمارے یہ پیارے پیارے پردیسی شہر جا کر پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اپنی مادری زبان اور لہجہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ اب ان کی پنجابی میں بھی جا بجا، بلکہ بے جا اردو اور انگریزی کے الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔ پہلے خواتین کی بات کرتے ہیں۔ ہماری جو بہنیںگائوں سے شہر جا آباد ہوئی ہیں، انہیں یہاں آ کر دیسی زبان تو بولنی ہی پڑتی ہے کہ بے بے جی اور بابا جی پرائی زبانیں کیا جانیں؟ تاہم وہ اتنی احتیاط ضرور کرتی ہیں کہ ”کَوڑا‘‘ کو ”کڑوا‘‘ اور ”دُدھ‘‘ کو ”دودھ‘‘ بولتی ہیں۔ شہروں میں قابل اور ذہین مصور خواتین دیہی زندگی کے شاندار پورٹریٹس بنا کر عالیشان گیلریوں میں ان کی نمائش کرتی ہیں۔ ان فن پاروں میں سرسبز کھیتوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر دیہاتی عورتیں دو، دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں دبائے جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
ہماری تارکینِ دیہات بہنیں بھی شہری خواتین کے شانہ بشانہ ان فن پاروں کو دلچسپی سے دیکھنے کے لیے جاتی ہیں اور ان کی تخلیق کاروں کو داد بھی دیتی ہیں، نیز پانی سے بھرے تین تین گھڑے اٹھانے والی عورتوں کی غربت اور ہمت کی باتیں بھی کرتی ہیں؛ تاہم وہ اپنی شہری دوستوں کو کبھی نہیں بتاتیں کہ ان کے بچپن میں جب اماں اسی طرح تین گھڑے اٹھائے گائوں کے کنوئیں پر جاتیں تو وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے ان کی قمیص کا پلو تھامے پیچھے پیچھے اڑتی جاتی تھیں۔ بیوٹی پارلرز میں جدید فیشن کے مطابق بال بنواتے بھی بجا طور پر انہیں یہ بتانے میں سبکی محسوس ہوتی ہے کہ اپنے بچپن کے دنوں میں گھر کے کچے صحن میں ایک پائوں اٹھائے اچھل اچھل کر ”چینجی‘‘ کھیلتے ہوئے ان کے سرسوں کے تیل سے چپڑے سر پر چُنی (دوپٹہ) جمی رہتی تھی اور اگر اتر جاتی تو دادی جان ایک ہی مرتبہ زبانی وارننگ دیتی تھیں۔ دوسری بار وہ زبان کی بجائے اپنا گوبر زدہ جوتا اچھال کر یہ کارِ خیر انجام دیتی تھیں۔ ہماری یہ پردیسی بہنیں شہر میں جاکر نازک ہو جاتی ہیں۔ اب وہ پِینو کی بجائے بیگم صاحبہ کہلاتی ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے ان کے پاس قیمتی کپڑے کے بہت سے سوٹ اور بیش قیمت زیورات بھی آ جاتے ہیں‘ مگر وہ شرمندگی کے ڈر سے اہلِ شہر سے چھپائے رکھتی ہیں کہ جب وہ گائوں میں زیرتعلیم تھیں تو ان کے پاس نیلی قمیص اور سفید شلوار پر مشتمل یونیفارم کا ایک ہی جوڑا ہوتا تھا اور وہ ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے کے سبب کئی میل پیدل چل کر سرکاری سکول میں جاتی تھیں۔ مہذب ہونے کے بعد اب انہیں جراثیموں سے بہت ڈرلگتاہے۔ وہ خود تو دیہات میں پلی بڑھی ہوتی ہیں مگراپنے بچوں کو جراثیموں اور پینڈو ماحول کے اثر سے بچانے کی خاطر انہیں زیادہ دن گائوں میں رکھنے سے پرہیز کرتی ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے اوپر چڑھایا گیا تہذیب کا ملمع نہیں اتارتیں مگر یہاں آکر اندر ہی اندر ان کے جذبات دلی کی شاعرہ ڈاکٹر وسیمؔ ارشد جیسے ہوتے ہیںکہ:
مائیکے جائوں تو اب تک مری چوکھٹ پہ وسیمؔ
مری ہی شکل کی اک لڑکی کھڑی ملتی ہے
ہمارے بہت سے بھائی ہماری طرح اپنے گائوں کے کنوئیں ہی کوکل کائنات سمجھتے رہتے ہیں۔ جب وہ روزگارکے لیے شہر یا دوسرے ملک جا کر آباد ہوتے ہیں تو ان پر کھلتا ہے کہ دنیا تو بڑی وسیع اور رنگ برنگی ہے۔ تب وہ اپنے دیہاتی پن سے جان چھڑاتے ہوئے خود کو ماڈرن اور مہذب بنانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ خوب ماڈرن ہو جاتے ہیں اور تہذیب یافتہ لوگوں کے رویے اپنا چکتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک اور مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب وہ اپنی جنم بھومی میں ہمارے درمیان آکر خود کو مس فٹ سا محسوس کرتے ہیں۔ ہم ان کے خونی رشتہ دار اور بچپن کے دوست انہیں اجڈ اور گنوار لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ دنیا دیکھ کے آئے ہوتے ہیں اور اعلیٰ نسبی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، جبکہ ہم ٹھہرے وہی بارانی کے بارانی اور پہاڑی کے پہاڑی۔ ایسے میں جب وہ عید وغیرہ کے موقع پر گائوں آکر دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ، ڈوبتی ملکی معیشت اور یورپ کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی باتیں کرتے ہیں تو جواب میں ہم کنوئیں کے مینڈک اپنی فصلوں اور ڈھور ڈنگروں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے یہ بھائی تو ہمارے علم میں اضافے کی خاطر اپنا فرض سمجھ کر اسے بجا لاتے ہیں تاکہ ہم پینڈوئوں کو بھی دنیاکی کچھ ہوا لگے مگر آخر سر پیٹ کر اور ہمیں ناقابل اصلاح قرار دے کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم اپنے پردیسیوں کی خاطر مدارت اور پروٹوکول میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے مگر جب فریقین کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہی نہ رہے تو پروٹوکول کا کسی مہذب انسان نے اچار ڈالنا ہے بھلا؟
ہماری پردیسی بہنوں کی طرح ہمارے یہ بھائی بھی شہرجا کر اپنی گزشتہ دیہی زندگی پر شرمندہ سے رہتے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس تاریک دور کی یادیں شیئر کرنے سے ہر ممکن پرہیز کرتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں بتاتے کہ ان کے بچپن میں گائوں میں بجلی، گیس، فریج، اے سی، صوفہ اور بیڈ جیسی بلائوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ ماں جی چرخہ کات کر ”پُونیاں‘‘ کھڈی پر بھیجتی تھیں تب جا کر تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر آتا تھا۔ وہ اہل شہر کے سامنے یہ بھی تسلیم نہیں کریں گے کہ وہ لڑکپن میں جنگلوں میں بکریاں چراتے رہے ہیں یا کھیتوں سے جانوروں کے لیے چارہ کاٹ کر لاتے رہے ہیں۔ اسوج میں مچان پر چڑھ کر باجرے کی راکھی کرتے رہے ہیں یا بیساکھ میں اپنے ہاتھوں سے فصل کاٹتے رہے ہیں۔ گڑ کی چائے پیتے رہے ہیں یا اچار اور لسی سے لنچ کرتے رہے ہیں۔ وہ شہر میں اپنے اثاثے تو فخر سے بتاتے ہیں مگر یہ راز آشکار نہیں کرتے کہ کبھی ملیشیا کا ایک یونیفارم، جوتوں کا ایک جوڑا (جس پر جابجا موچی کے دستخط موجود ہوتے تھے) سلیٹ، سلیٹی‘ قاعدہ، تختی اور قلم دوات ان کا کل اثاثہ رہا ہے۔ کبھی آپ نے ہمارے ان بھائیوں کے منہ سے سنا کہ والد بزرگوار بیل اور گائے جوت کر کھیت میں ہل چلاتے تھے، یا قبلہ جوتے بناتے تھے، یا حضرت کھڈی پر کپڑا بنتے تھے، یا بزرگ ڈھول بجاتے تھے یا اُسترے اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ”رچھائونی‘‘ ہمہ وقت والد صاحب کے کندھے پر ہوتی تھی یا ہمارے وڈ وڈیرے نامی گرامی مویشی چور تھے۔ نہیں، بالکل نہیں۔ ہمارے یہ برادران جدی پشتی رئیس ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر بے بے جی یا والد صاحب شہر میں ان کے پاس آدھمکیں تو خدا معلوم وہ کیوں انہیں اپنے دوستوں سے ملوانے سے کتراتے ہیں؟
ہمارے پردیسیوں میں سے چند خوش نصیب ایسے بھی ہیں، جنہوں نے دو تہذیبوں کے درمیان خود کو ایڈجسٹ کرلیا ہے۔ وہ شہر میں اعلیٰ سول یا فوجی افسر ہیں یا بیرون ملک کامیاب بزنس مین، کسی احساس کمتری کے بغیر اپنے پسماندہ گائوں اورماضی کے متعلق فخرسے بتاتے ہیں۔ وہ شہرمیں برینڈڈسوٹ پہنتے ہیں تو گائوں آکر بے تکلفی سے دھوتی باندھ لیتے ہیں۔ وہ ٹوٹی چارپائی پربیٹھنے سے گریزکرتے ہیں نہ جراثیموں کے ہیڈکوارٹر بابا شیرے کو گلے لگانے اور اس سے گپ شپ کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں، جس نے انہیں بچپن میں گود میں اٹھاکر کھلایا تھا۔ شہرمیں انہیں لگژری سہولتیں حاصل ہوتی ہیں مگرہمیں لگتاہے کہ وہ ہمارے درمیان آکرزیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔وہ آج بھی یہاں آکر اپنی ٹھیٹ مادری زبان میں ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں، جس سے وہ خودبھی سکھی رہتے ہیں اورہمیں بھی کسی مشکل کاسامنانہیں کرناپڑتا۔
حرف آخریہ ہے کہ خداآپ ہمارے پردیسیوں کوشہروں اور ملکوں میںآبادوشاد رکھے۔ آپ جتنی ترقی کریں گے ، ہمارے سرفخرسے اتنے ہی بلندہوں گے۔ التجا فقط اتنی ہے کہ آپ عیدبقرعیدوطن لوٹ کرہم پسماندوں کی خوشیاں دوبالاکرتے رہاکریں۔باقی کبھی کبھی خیال آتاہے کہ آخرکار قبریںتو آپ کی بھی یہیں بننی ہیںاورہماری بھی۔آپ کے برعکس تہیہ ہم نے یہ کیا ہواہے کہ جنازہ اپنی دھرتی سے اٹھے گا، پردیس سے ایمبولینس میں آناہمیں پسند نہیں۔