عید مبارک….خورشید ندیم
عید خوشی کا استعارہ ہے مگر کئی سالوں سے، جب یہ دن نکلتا ہے تو ایک ان دیکھی اداسی میں لپٹا ہوتا ہے۔ یہ اداسی شاید میری نسل کا مقدر ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے، وقت نے ارتقا کے مراحل جس سرعت کے ساتھ طے کیے، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ تغیر وقت کا خاصہ ہے مگر اب ایسی بھی کیا جلدی کہ ہر آنے والا دن ایک نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہو؟ صنعتی انقلاب نے اس تبدیلی کو مہمیز دی۔ یہ سچ ہے مگر ‘کمپیوٹر ایج‘ کی رفتار کا تو کوئی مقابلہ نہیں۔
نئی نسل وقت کو ماضی اور حال میں جس طرح تقسیم کرتی ہے، ہماری یا ہم سے پہلے کی نسل نہیں کر سکتی تھی۔ پرانی نسل کے لیے وقت کی تقسیم کا ایک ہی پیمانہ تھا: بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ اپنے ارد گرد اسے زیادہ تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خارج کا ماحول ہمارے لیے اجنبی ہو رہا ہے۔ اب ممکن ہے کہ جوانی کے دور کو مصنوعی اسباب سے قدرے طوالت دی جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب امکانی زندگی کا دورانیہ طویل تر ہو گیا ہے۔ گزرے دور میں اگر ایک آدمی اوسطاً ساٹھ سال جیتا تھا تو اب ستر سال تک زندہ رہتا ہے۔ میری نسل کا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ ہم اپنا ماحول کھو رہے ہیں۔ سادہ لفظوں میں اپنی یادداشت کھو رہے ہیں۔ وقت اب ادوار میں منقسم ہو گیا ہے۔
اسی عید کو دیکھیے۔ ہم نے برسوں عید ایک طرح سے منائی ہے۔ مائیں اپنوں بیٹوں کا انتظار کرتیں۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے ان کی آس بھی کم زیادہ ہوتی۔ انتیس رمضان کی شام تو انتظار کی شام ہوتی۔ اندھیرا گہرا ہوتا اور بیٹوں کے قدموں کی چاپ سنائی نہ دیتی تو ماؤں کا دل جیسے مٹھی میں آ جاتا۔ باپ مغرب کی نماز پڑھتے تو دعائیں طویل ہو جاتیں۔ انتظار کا یہ موسم ہر سال ایک ہی طرح سے اترتا۔
بچوں کے انتظار اپنے رنگ لیے ہوتے۔ کھلونے، پھل، کپڑے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں سارا سال ان کے من میں جمع ہوتی رہتیں جو عید ہی پر پوری ہوتیں۔ بچوں کی مائیں تو اپنی خواہشوں کا کسی سے اظہار ہی نہ کر پاتیں۔ دوپٹے کے پلو سے کچھ اس طرح باندھ کر رکھتیں کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ رات کسی سپنے سے اچانک آنکھ کھل جائے تو پہلا دھیان پلو کی گانٹھ کی طرف جاتا۔ اس کے بعد پھر نیند کہاں کی؟ روایت میں لپٹا ہوا رومان کا یہ دلکش انداز، کبھی کوئی شاعر چرا لیتا تو اسے منظوم کر دیتا۔ اب وہ رومان رہا نہ وہ شاعری۔ بے باکی نے رومان ہی نہیں، ادب کو بھی برباد کر دیا۔
یہ روایت صدیوں برقرار رہی۔ اگر تبدیلی آئی بھی تو اتنی دبے پاؤں کہ اُس کے آنے کی خبر سالوں بعد ہوئی جب وہ روایت کا حصہ بن گئی۔ افراد بدلتے رہے مگر رشتے وہی رہے۔ ماں، باپ، بچے، بیوی، بہن بھائی، سالوں بعد ان کے نام دوسرے تھے مگر کردار وہی۔ جذبات بھی وہی اور اظہار کے اسلوب بھی پرانے۔ ان دنوں شب و روز اس طرح تبدیل نہیں ہوتے تھے کہ صبح کی خبر شام کو ماضی کا قصہ بن جائے۔ ماضی اور حال ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھتے‘ رشتے برقرار تھے اور ان سے وابستہ جذبات بھی۔ یوں روایت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
چاند دیکھنا، مثلاً بڑی حد تک مقامی سرگرمی تھی۔ ہمارے گاؤں کی مسجد قدرے بلندی پر ہے۔ جیسے ہی مغرب کی نماز ختم ہوتی، نمازی چھت کا رخ کرتے۔ لڑکے بالے تو بمشکل فرض نماز مکمل کرتے اور سب سے آگے ہوتے۔ چاند نظر آ جاتا تو کوئی بلند آہنگ وہیں چھت سے اعلان کر دیتا۔ ابھی غارتِ ایمان و سکوں لاؤڈ سپیکر، گاؤں نہیں پہنچا تھا۔ سکون بہت تھا اور اطمینان بھی۔
میرا سارا بچپن کم و بیش ایک ہی رنگ میں گزرا ہے۔ رمضان کے دنوں میں کنویں کا ٹھنڈا پانی۔ شدید گرمی میں شکنجبین بڑی عیاشی ہوتی۔ بجلی نہیں تھی تو برف کا جھنجھٹ بھی نہیں تھا۔ جوانی کے دہلیز پہ قدم رکھا تو برف نے گاؤں کا رخ کیا۔ شہر سے لوگ برف کی سلیں لے آتے۔ یہ نئے کلچر کی طرف ایک ابتدائی قدم تھا۔ جیسے ہی برف پہنچنے کی خبر عام ہوتی، ہم لڑکے مٹھی میں پیسے اور برتن لیے دوڑ لگاتے۔ پہلے مجھے، پہلے مجھے، کے شور میں، برف مل جاتی تو خوشی کا ٹھکانا نہ ہوتا۔ دیر ہو جاتی تو مایوسی بھی قابلِ دید ہوتی۔ بجلی آئی تو جیسے تبدیلی نے دوڑ لگا دی۔
اس تبدیلی نے روایت کی چولیں ہلا دیں۔ میری نسل نے جس سماج میں آنکھ کھولی، وہ روایت پر کھڑا تھا۔ روایت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے۔ یہ ماضی سے وابستگی کے ساتھ ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ تبدیلی کو اگر اپنے دامن میں سمیٹتی ہے تو ایک نظامِ فکر و عمل کا حصہ بنا کر۔ یوں جدت کی اجنبیت ختم ہو جاتی ہے۔ تہذیب کا قافلہ خراماں خراماں رواں دواں رہتا ہے۔ وہ سبک رفتار نہیں تھا کہ کسی فکری پراگندگی کا باعث بنے۔
پھر ہماری نسل کے ساتھ حادثہ ہوا۔ ایک تیز رفتار تبدیلی نے اسے آ لیا۔ سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔ ماضی اور حال میں فاصلہ بڑھنے لگا اور اتنی سرعت کے ساتھ کہ یادداشت جواب دینے لگی۔ تبدیلی کا ایسا طوفان اٹھا کہ ہمارا بچپن اور لڑکپن اس میں کھو گیا۔ ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو اس کے آثار کہیں نہیں ملتے۔ یہ آثار کیا ہوتے ہیں؟ آپ گلیوں محلوں میں بچوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کو اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔ ان کی مسکان میں آپ کو اپنی مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شرارتوں میں آپ کو اپنی کھوئی ہوئی شوخی کا سراغ ملتا ہے۔
آج کے بچے ویسے نہیں ہیں جیسے ہم تھے۔ پروین شاکر کا کہنا ہے کہ یہ دن کی روشنی میں جگنو کو پرکھنا چاہتے ہیں۔ ہم تو جگنو کو پانے کے لیے رات کا انتظار کرتے اور اس کے طلسم میں کھوئے رہتے۔ ہمارے بچوں کو اپنے والدین سے وہ تہذیبی نسبت نہیں ہے جو ہماری نسل کو تھی۔ روایت کا دھاگہ ٹوٹ چکا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ نئی نسل کا کوئی ماضی نہیں۔
مذہب نے کسی حد تک روایت سے ایک رشتہ قائم رکھا ہے۔ یہ رشتہ بھی مگر مراسمِ عبادت سے ہے، کلچرِ عبادت سے نہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ مسجدوں کا کلچر ان کچی مسجدوں جیسا نہیں ہو سکتا، جنہیں ٹھنڈا رکھنے کا کوئی طریقہ مٹی کی چھت ہوتی تھی۔ دبیز قالینوں کا کلچر وہ نہیں ہو سکتا جو ان مصلوں کا تھا جو دریا کے کنارے اگنے والے خود رو پودوں سے، جنہیں ہمارے علاقے میں کوندر کہتے تھے، سال بھر کی محنت کے بعد تیار کیے جاتے تھے۔ انہیں شعبان کے آخری دنوں میں بچھایا جاتا کہ قدرے نرم ہوتے اور نمازِ تراویح پڑھنے والوں کے لیے سہولت کا باعث ہوتے۔
اگر عبادت کا کلچر وہ نہیں رہا تو عید کو بھی بدل جانا تھا۔ میری عید میری روایت کے ساتھ کھو چکی۔ میں اب ارد گرد ایسے آثار نہیں دیکھتا جو مجھے میرے ماضی سے جوڑ دیں۔ میری اولاد کا بچپن وہ نہیں ہے جو میرا تھا۔ ان کا تو کوئی ماضی ہی نہیں۔ جس طرح میری نسل کی نانی دادی ہمیں کہانیاں سنا سکتی تھیں، میں اپنے بچوں کو نہیں سنا سکتا کہ میرے پاس سمجھانے کے لیے کوئی حوالہ نہیں۔ نہ زبان کا، نہ کلچر کا۔
یہ کوئی گلہ نہیں، احوالِ واقعہ کا بیان ہے۔ میں اب عید ویسے ہی مناتا ہوں جیسے میرے بچے چاہتے ہیں۔ کھانے ان کی مرضی سے پکتے ہیں اور تفریح بھی ان کی چاہت میں ڈھلی ہوئی۔ میرے کلچر میں عید کے دن سونے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اب میرا آدھا دن سوتے گزر جاتا ہے۔ کئی سال سے عید پر اپنے گاؤں نہیں گیا۔ یہ ایک سادہ جملہ نہیں، محرومی کی نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ ویسے بھی اب وہاں کون ہے جو میرا انتظار کرتا ہو۔ گاؤں سے باہر مٹی کی دو ڈھیریاں ہیں جہاں میرے منتظر آسودہ خاک ہیں۔ ان کا خیال آتا ہے تو آنکھیں دھندلانے لگتی ہے۔
یہ اُس نسل کا المیہ ہے جو چند عشروں کی مہمان ہے۔ زمانہ نئی کروٹ لے چکا۔ ماضی اب ایک تدریسی مضمون تو رہے گا مگر میوزیم میں سجی یادوں کی طرح، زندگی سے غیر متعلق۔ ابھی میں آپ سے کہہ سکتا ہوں: ”عید مبارک‘‘۔