عید کا تاریخی پس منظراور فلسفہ…..مفتی منیب الرحمٰن
عیدکالفظ عودسے ماخوذہے جس کے معنی” لوٹنا‘‘ ہے۔چونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے،اس لئے اس کو عید کہتے ہیں۔ابن العربی نے کہا :” اسے ”عید‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے‘‘۔علامہ شامی نے لکھا ہے :” مسرت اور خوشی کے دن کو عید،نیک شگون کے طور پر کہاجاتا ہے تاکہ یہ دن ہماری زندگی میں باربارلوٹ کر آئے، اسی طرح ”قافلہ‘‘ کے معنی ہیں ”لوٹ کر آنے والا‘‘،اہلِ عرب قافلہ بھی نیک شگون کے طور پر کہتے ہیں،حالانکہ وہ سفرپر روانہ ہونے والا ہوتاہے کہ یہ کامیاب و کامران ہوکر سلامتی کے ساتھ اپنی منزل پر واپس آجائے‘‘۔ چونکہ رب تبارک وتعالیٰ اس دن اپنے مقبول بندوں پراپنی اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتا ہے اس لئے بھی اسے عیدکہتے ہیں۔
دنیاکی ہرقوم اور مذہب کے ماننے والے کسی نہ کسی صورت میں سال میں چنددن تہوار مناتے ہیں۔ہر قوم اور مذہب و ملت کے لوگ یہ تہواراپنے عقائد، روایات اور ثقافتی اَقدارکے مطابق مناتے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصورِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدرِ مشترک ہے،سعودی عرب کے قومی دن کو ”عید الوطنی‘‘ کہتے ہیں۔ مسلمان قوم چونکہ اپنے عقائد اور ملی اَقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے، اس لئے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے، بقول علامہ اقبال:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
دیگراقوام کے قومی ایام نائو نوش و رقص و سرودکی محفل بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھوجانے،مادرپدر آزاد ہوکر بدمستیوں میں ڈوب جانے، تمام اخلاقی اَقدار کو تج دینے، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کو فروغ دینے اور ”آج یا پھر کبھی نہیں‘‘ کے مصداق ہوائے نفس کا اسیر بن جانے کا نام ہے۔اس کے برعکس بدن ، لباس اورروح کی طہارت، قلب کے تزکیے، عجز و انکسارا ور خشوع وخضوع کے ساتھ مسلمانوں کا اسلامی اتحادو اخوت کے جذبے سے سرشارہوکر اللہ تعالیٰ کے حضورسجدئہ بندگی اور نذرانہء شکر بجالانے کا نام عید ہے۔
خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدُّن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چنانچہ 02ھ میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اہل یثرب سال میں دو دن میلہ لگاتے تھے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے یہ تہوار منع فرما دئیے اور فرمایا:ــاللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں تمہیں دو بہتر دن فرمادیے ہیں ، یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر۔
یہاں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں نہیں کردیا کہ نو روز اور مہرجان کے انہی تہواروں کی اصلاح فرمادیتے اور ان میں جو رسوم شرعی اعتبار سے منُکرات کے زمرے میں آتی تھیں، ان کی ممانعت فرمادیتے اور اظہارِ مسرت کی جو جائز صورتیں تھیں ،وہ اختیار کرنے کی اجازت دے دیتے،اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت کار فرما تھی۔ دراصل ہر چیز کاایک مزاج اور پس منظر ہوتا ہے،آپ لاکھ کوشش کریں ، لیکن کسی چیز کو اس کی ماضی کی روایات اور تاریخی پس منظرسے جدا نہیں کرسکتے۔پس جس چیز کی اساس مُنکَرات ومحرمات پر رکھی گئی ہو ،اس کی کانٹ چھانٹ اورمیک اپ سے خیر پر مبنی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا اور اسلام تو آیا ہی کفر اور بدی کے اثرات کو مٹانے کے لیے ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی عقائد اور خالص دینی فکر اور شرعی مزاج کا تقاضایہ تھا کہ مسلمانوں کا تعلق جاہلانہ رسوم سے یکسر ختم کردیا جائے تاکہ عہد جاہلیت کی تمام علامات سے کٹ کر ان میں صحیح دینی فکر پیدا ہو۔چونکہ اسلام دین ِفطرت ہے اس لئے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا وہاں ان کے صحیح جِبِلِّی اور فطری تقاضوں کی آبیاری بھی کی، عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا، لہٰذا مسلمانوں کو ایک عیدکی بجا ئے عیدَین کی نعمت عطا فرمائی۔
جس طرح ہر قوم وملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں ، اسی طرح اسلام میںعیدین کا بھی ایک ایمان افروز پس منظر ہے ۔ رمضان المبارک انتہائی بابرکت مہینہ ہے ،یہ ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں ، مغفرتوں اور عنایات وبرکات کا خزینہ ہے ، اسے ماہ نزول قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔فتح مکہ اور اسلامی تاریخ میں حق وباطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزوۂ بدربھی اسی مبارک مہینے میں وقوع پذیر ہوئے ۔ روزے کی عظیم المرتبت عبادت کی فرضیت کا شرف بھی اسی مہینے کو عطا کیا گیا ۔تراویح کی صورت میں ایک مسنون نماز بھی اس مہینے کی روحانی بہاروں میں ایک اور اضافہ ہے ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھنے والی ایک رات، ”لیلۃ القدر‘‘ بھی اسی رمضان میں ہے ۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں بندۂ مومن ایک عشرے کے لئے سب سے کٹ کر اپنے رب سے لَو لگانے کے لئے اعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے ۔جب مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات ، سِفلی جذبات ، جسمانی لذّات ، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز وسربلند ہوتا ہے، تو وہ رشکِ ملائک بن جاتا ہے ، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے،باری تعالیٰ کے کرمِ خاص کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار ، سراپا تسلیم واطاعت اور پیکر صبر ورضا بندے کے لئے اِنعام واِکرام کا ایک دن مقرر فرمادے ۔ چنانچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے۔
ماہِ رمضان کی آخری رات فرمانِ رسول ﷺکے مطابق ”انعام کی رات‘‘ ہے اور اللہ کے اس اِنعام واِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے ۔ بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے ، چنانچہ فرمانِ رسول ﷺ ہے: ”رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لئے مغفرت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! کیا وہ (رات) شبِ قدر ہے؟، حضورﷺنے فرمایا :” شبِ قدر تو نہیں ہے ،لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کردے تو اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے‘‘ ۔
احناف کے نزدیک عید کی نمازہر اس شخص پرواجب ہے جس پرجمعہ فرض ہے ،دیگر آئمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکَّدہ۔نمازِ عید بغیر اذان واقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔نمازِعید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحیٰ جلدی پڑھنا مستحب ہے ۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا اور ان کا سنناسنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیر یں ہیں ،پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں ۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے ۔ البتہ بارش ، آندھی یا طوفان کی صورت میں مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔
مسلم ممالک آپس میں شیر وشکر تو کبھی نہ تھے ،مگرگزشتہ کچھ عرصے سے ایک دوسرے کے مقابل صف آرابھی نہ تھے ۔ مصر میں جمال عبدالناصر کے انقلاب کے بعد سعودی عرب اور مصر ایک دوسرے کے مقابل اور یمن کی داخلی جنگ میں ایک دوسرے کے حریف تھے، بعد میں یہ دونوں ملک امریکی کیمپ میں آگئے ،اسی طرح عرب ممالک امریکہ اور سوویت یونین کے کیمپوں میں منقسم تھے مگر سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ تقسیم بے اثر ہوگئی ،ایران عراق جنگ کے زمانے میں عرب ممالک یکجا تھے ۔ اب روس کے عالمی سیاست میں دوبارہ فعال ہونے کے بعد یہ تقسیم دوبارہ لوٹ آئی ہے ۔ سعودی عرب اور قطر امریکی کیمپ ہی میں رہے ہیں اور اب تک ہیں ،مگر آج یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔اسی طرح یمن اور شام میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں ، سعودی عرب براہِ راست یمن کی جنگ میں حصہ بھی لے چکا ہے اور بالواسطہ طور پر ایسے ہی شواہد ایران کے بارے میں بھی ہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی مسائل اور مصائب میں گھرا ہوا ہے ،سو امتِ مسلمہ مشکلات سے دوچار ہے اور بظاہر ان مشکلات سے نکلنے کی کوئی فوری تدبیر نظر نہیں آتی ،سوا ئے اس کے کہ امریکی پالیسی میں کوئی جوہری تبدیلی آجائے۔ترکی نے کچھ عرصے سے مسلمانوں کے ملّی مسائل میں فعال کردار ادا کرنا شروع کیا تھا ،مگر اب وہ بھی مسائل کے گِرداب میں گھرا نظر آتا ہے اور نیٹو ممالک کے ساتھ اُس کی مفاہمت ،اعتماد اور تعاون پہلے جیسانہیں ہے ۔سو مسائل ہی مسائل ہیں اور امت ان مسائل سے عہدہ برا ٓہونے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔پس تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ عجز ونیاز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ امت مسلمہ اس گرداب بلاسے نکل جائے اور پاکستان کو داخلی طور پر اپنے گردوپیش جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے، اُن سے نجات پائے۔ ہمارا وطن امن وسلامتی کا گہوارہ بنے ، دہشت گردی ،بے امنی اور تخریب وفساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو ،ہمارا پڑوسی ملک بھارت اپنی سازشوں میں نامراد اور خائب وخاسر ہو۔ ہمارے برادر مسلم ممالک جو بھارت کے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں، انہیں خیر کی توفیق نصیب ہو۔