عید کے بعد…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
رمضان المبارک کا مہینہ اپنے جلو میں بہت سی رحمتوں اور برکات کو لے کر آتا ہے۔ مسلمانوں کا ذوق ِعبادت اس مہینے میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس مہینے کی فرض عبادت ر وزوں کو رکھنا ہے‘ جس میں سحری سے لے کر افطاری تک اللہ کی رضا کے لیے بھوک اور پیاس کو برداشت کیا جاتا ہے۔ روزے کے دوران شریک ِزندگی سے ازدواجی تعلق کو منقطع کر دیا جاتا ہے۔ روزے دار روزوں کو رکھ کے درحقیقت اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر کھانے اورپینے کو چھوڑا جا سکتا ہے‘ تو اس کے حکم پر حرام خوری‘ فواحش ‘ منکرات اور دیگر معصیت کے کاموں کو بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے ماہ مبارک میں فرض عبادات کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم نفلی عبادات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ تراویح کی نماز کو مسلمانوں کی بڑی تعداد جوش وخروش سے ادا کرتی ہے۔ مساجد کی آبادی اور رونق مثالی ہو جاتی ہے۔ حفاظ قرآن اپنی منازل کو دہراتے اور پوری توجہ سے قرآن مجید کو سنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح لوگ بھی بڑے ذوق وشوق سے قرآن مجید کو سنتے ہیں۔ کئی مساجد میں نماز تراویح کے بعد دروس اور خلاصہ قرآن کے حوالے سے بھی بھر پور طریقے سے اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ دورہ ٔ قرآن‘ دروس قرآن کے ان حلقہ جات میں بڑے پیمانے پر شرکت کرتے ہیں۔ دروس قرآن کی ان مجالس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ملک بھر میں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تراویح اور قرآن مجید کی تلاوت اور تفہیم کے بابرکت عمل کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے لوگ بکثرت توبہ استغفار ‘ ذکر الٰہی اور دعاؤں میں مشغول نظر آتے ہیں۔اسی طرح اس مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ کا بھی بھرپور اہتمام کیاجاتا ہے۔ صاحب ِثروت اور صاحب ِنصاب لوگ اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام بالعموم رمضان المبارک کے مہینے میں کرتے ہیں۔ مساکین‘ بیواؤں‘ یتیموں‘ طبی مراکز اور مدارس کے ساتھ بھرپور طریقے سے معاونت کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب اور نادار لوگوں کی سحری اور افطاری کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میںکئی متمول اور صاحب حیثیت لوگ بڑے ذوق وشوق سے حرمین شرفین کی زیارت کا بھی قصد کرتے اور عمرے کی سعادت سے بہرہ ورہوتے ہیں۔ رمضان کے عمرے کے بارے میں احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں کیے جانے والے عمرے کا ثواب حج کی ادائیگی کے برابر ہے جبکہ مستند روایت کے مطابق رمضان کے عمرے کا ثواب نبی کریم ﷺ کی ہمراہی اور معیت میں کیے جانے والے حج کے برابر ہے۔ رمضان المبار ک کے ماہ مبارک کے آخری عشرے میں ذوق عبادت میں بہت زیادہ اضافہ نظر آتا ہے اور بڑی بڑی مساجد اپنی وسعت کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کا ذوق رکھنے والوں سے پر نظر آتی ہیں۔ لیلۃ القدر کی جستجو اور اس بابرکت رات کو پانے کی تمنا میں بہت سے لوگ دل جمعی اور پوری توجہ کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے مسلمان آخری عشرے کا اعتکاف کرکے وقتی طور پر دنیاداری کے تمام امور سے لاتعلقی کو اختیار کرتے ہوئے‘ تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ تعلق باللہ کے حوالے سے کی جانے والی ان کاوشیں کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور اس کی قربت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں جو اعلان فرمایا کہ ”اور میں نے نہیںپیدا کیا جنات اور انسانوں کو‘ مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘اس کا التزام اور اہتمام رمضان المبارک کے ماہ مبارک میں اپنے پورے عروج اور انتہا پر نظر آتا ہے۔ رمضان المبارک میں پائے جانے والے ذوق عبادت اور اس سے حاصل ہونے والے دروس کو بقیہ زندگی میں جاری وساری رکھنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ اس ذوق عبادت اور نیکیوں کے تسلسل کو زندگی بھر برقرار رکھنے والے لوگ ہی حقیقی معنوں میں رمضان المبارک سے حاصل ہونے والے اسباق پرعمل پیراہونے والے ہوتے ہیں۔
عید الفطر کے موقع پر دیگر مسلمان ممالک کی طرح وطن ِعزیز میں بھی تعطیلات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد عید منانے کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں چلی جاتی ہے۔ عید کی تعطیلات کے دوران میں اپنے گھر کے قریب واقع مسجد میں جب نماز پڑھنے کے لیے جاتا ہوں‘ تو مسجد میں دیگر مساجد کی طرح ایک خاموشی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کے حوالے سے انسان اپنے آپ کوتسلی دینے کے لیے یہ تصور کر لیتا ہے کہ لوگ چونکہ اپنے آبائی علاقوں کی طرف جا چکے ہیں اس لیے مساجد پورے طریقے سے آباد نہیں‘ لیکن عید کی تعطیلات کے ختم ہونے کے باوجود جب مساجد میں پہلے جیسی رونق اور آمدورفت نظر نہیں آتی‘ تو دل کو ایک ٹھیس سی پہنچتی ہے کہ مسلمان رمضان المبارک کے ایام میں جن رویوں کامظاہرہ کر رہے تھے‘ان رویوں کو عید گزرتے ہی ناجانے کیوں فراموش کر دیا جاتا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے دروس کو عید کے بعد بھی جاری وساری رکھا جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ ر وزے رکھنے کے نتیجے میں حدیث مبارک کے مطابق انسان کو پورے سال کے روزوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے‘ اسی طرح ہر مہینے چاند کی 13،14 اور15 کو روزہ رکھنا اور ہر ہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرنا بھی بڑی سعادت کی بات ہے۔ اسی طرح حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یوم عاشورکو روزہ رکھنے نتیجے میں انسان کے گزشتہ ایک برس کے اور یوم عرفہ کے روزے کے نتیجے میں پچھے ایک برس اور آئندہ ایک برس کے گناہ اللہ تبارک وتعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ نماز تہجد کی ادائیگی کا سلسلہ رمضان المبارک کے بعد بھی جاری وساری رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مساکین، یتامیٰ اور بیواؤں کی معاونت کا سلسلہ فقط رمضان تک محدود نہیں رہنا چاہیے ‘بلکہ اس سلسلے کو رمضان کے بعد بھی پوری شدومد سے جاری رکھنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مال میں سے غریبوں اور یتیموں کا حصہ بھرپور طریقے سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے‘ جس پر تدبر اور غوروفکر کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ بالخصوص اپنے شعبہ زندگی سے متعلقہ قرآن مجید کے احکامات سے آگاہی نہ رکھنا بہت بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ رمضان المبارک کی بابرکت اور پررحمت ساعتو ں میں‘ جس طرح قرآن مجیدکی تلاوت اور اس کو سمجھنے کا اہتمام کیا گیا‘ اس سلسلے کو عید کے بعد جاری وساری رکھا جائے۔ بیت اللہ الحرام اور مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لیے جوجذبہ اور تڑپ رمضان المبارک میں پایا جاتا ہے اس کو رمضان المبار ک کے بعد بھی برقرار رہنا چاہیے۔ مسلمان امت کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم کل وقتی باعمل مسلمان بننے کی بجائے عبادت کوجز وقتی کام سمجھتے ہیں؛ حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اوراطاعت اوراللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر نبی آخر ی الزماںحضرت محمدﷺ کی فرمانبرداری ایک ایسا عمل ہے‘ جس میں دوام اور تسلسل ہونا چاہیے اور اس عمل کو زندگی کے تمام ادوار اور اتار اور چڑھاؤ کے دوران جاری وساری رہنا چاہیے۔ عید الفطر کے بعد بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ استوار کیے ہوئے تعلق کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے اپنی صلاحتیوں کو صرف کرنا چاہیے‘ تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹ کر حقیقی کامیابیوں کے حق دار بن سکیں۔( آمین)