منتخب کردہ کالم

عینک لگا کر دیکھو الیکشن نظر آرہے ہیں۔تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

عینک لگا کر دیکھو الیکشن نظر آرہے ہیں۔تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
میں نے اُسے اِتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے
شاعر فرخ یار کو حیرت تھی کہ وہ ان دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھے؟ لیکن بعض اوقات صورت ایسی بن جاتی ہے کہ یہ دو آنکھیں دیوار پر لکھا ہوا بھی نہیں پڑھ سکتیں اور وہی کچھ دیکھنے پر تیار ہوتی ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے۔ ہمارے بعض سیاستدان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ وقت پر الیکشن ہوتے نہیں دیکھ رہے۔ کیوں نہیں دیکھ رہے اس کی وجہ تو وہ نہیں بتاتے لیکن بعض اوقات سچی بات منہ سے نکل ہی جاتی ہے۔ اسی لئے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا:
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
ہمارے ایک سینئر سیاستدان کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے، البتہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ دو سال کے لئے ایک قومی حکومت بنے گی، یہ وہی قومی حکومت ہے جسے سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی بنتے ہوئے عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ کئی اور سیاستدانوں کا بھی یہ خیال سامنے آچکا ہے کہ جو قومی حکومت بنائی جائے اس کا سربراہ جنرل راحیل شریف کو ہونا چاہئے۔ اب معلوم نہیں انہوں نے اس ضمن میں جنرل راحیل شریف کی مرضی بھی معلوم کی ہے یا نہیں، کیونکہ وہ اس وقت اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں، جو ابھی تشکیلی دور میں ہے۔ انہوں نے یہ بھاری ذمہ داری سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی خواہش پر قبول کی ہے۔ اس فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد تو دہشت گردی کا مقابلہ ہے جس نے کسی نہ کسی انداز میں بہت سے اسلامی ملکوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سعودی عرب کی ہمسائیگی میں تو یمن میں حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ چند روز قبل یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کا قتل ان حالات کی سنگینی کا پتہ دیتا ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے تو چند ماہ قبل سعودی عرب پر ایک میزائل بھی داغ دیا تھا جس کو راستے ہی میں تباہ کر دیا گیا۔ ان حالات نے ہی سعودی عرب کو دہشت گردی کے مقابلے کے لئے فوجی اتحاد بنانے پر آمادہ کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کو اتنی بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے تو وہ اس نام نہاد قومی حکومت کی سربراہی کے لئے کیوں آمادہ ہو جائیں گے۔ جس کا آئین میں کوئی تذکرہ نہیں۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف بیرون ملک بیٹھ کر یہ ’’غیر منطقی منطق‘‘ جھاڑ رہے ہیں کہ آئین میں ذکر ہے یا نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کو ایسی قومی بنانے کی اجازت دے دینی چاہئے۔ اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے روبرو ابھی اس قسم کی کوئی پٹیشن پیش ہی نہیں کی گئی۔ جنرل مشرف اگر قومی حکومت کے تصور سے اتنے ہی متاثر ہیں تو وہ آئینی درخواست لے کر سپریم کورٹ میں پیش ہوں، دلائل دیں پھر جو بھی فیصلہ ہو، لیکن باہر بیٹھ کر سپریم کورٹ کو ’’مشورے‘‘ دینے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بات ذرا طویل ہوگئی۔ ہم ان آنکھوں کا تذکرہ کر رہے تھے، جنہیں غیر آئینی قومی حکومت تو صاف نظر آتی ہے لیکن الیکشن نظر نہیں آتے۔ آئین میں صرف ایسی نگران حکومت کی گنجائش ہے جو الیکشن کرانے کے محدود مینڈیٹ کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور الیکشن کرا کے رخصت ہو جاتی ہے۔ بعض سیاستدان ایک ہی سانس میں دو متضاد اور مختلف باتیں کر جاتے ہیں۔ مثلاً جنہیں الیکشن نظر نہیں آتے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ فلاں جماعت کے ساتھ اتحاد کریں گے۔ سیاسی اتحاد عام طور پر الیکشن سے قبل انتخابی مقاصد کے لئے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ اگر الیکشن نہیں ہو رہے تو پھر اتحادوں کا کیا مقصد ہے۔ اگر چند جماعتیں مل کر اتحاد بنائیں اور انتخاب جیت جائیں تو وہ مخلوط حکومت بھی بنا لیتی ہیں جو اتحاد انتخاب ہار جاتے ہیں، وہ عام طور پر انتخابات کے بعد تحلیل ہو جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں نو سیاسی جماعتوں نے 1977ء میں ایک اتحاد تشکیل دیا تھا جس نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک نشان کے تحت انتخاب لڑا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا تو اتحاد نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے حکومت مخالف تحریک شروع کر دی۔ تحریک ابھی جاری تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا، مارشل لاء کے بعد یہ اتحاد ٹوٹ گیا، تحریک استقلال اور پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی اس سے الگ ہوگئیں جبکہ اتحاد کی کئی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ شریک حکومت ہوگئیں۔ البتہ یہ سیاسی اشتراک زیادہ دیر نہ چل سکا، بعد میں بھی سیاسی اتحاد بنتے اور بگڑتے رہے۔ آج کل بھی کئی سیاسی اتحاد بن رہے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ انتخابات وقت پر ہو جائیں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتحاد کی باتیں بھی وہ سیاستدان کر رہے ہیں جو انتخابات نہیں دیکھ رہے اب کوئی ان سے پوچھے کہ اگر قومی حکومت ہی بننی ہے اور طویل عرصے تک چلنی ہے تو ایسے میں سیاسی اتحاد کی بے کار مشقیں کیوں کی جا رہی ہیں۔ ایم ایم اے پانچ سال تک صوبہ سرحد میں حکمران رہی، یہ اتحاد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا، اب تقریباً دس سال بعد یہ اگر دوبارہ تشکیل پایا ہے تو کچھ دیکھ کر ہی ایسا کیا گیا ہوگا۔ جنرل پرویز مشرف تو ویسے ہی انتخابات پر یقین نہیں رکھتے، ان کا خیال ہے کہ اچھے لوگوں کی ایک حکومت بننی چاہئے اور اچھا وہ ہے جو ان کی دانست میں اچھا ہے۔ جو ملک کو پٹڑی پر چڑھائے، حالانکہ انہوں نے اپنے عہد میں ملک کو پٹڑی سے اتارے رکھا، لیکن وہ آج بھی اپنے دور کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ خودکش حملوں کا جو کلچر ان کے دور میں پروان چڑھا، وہ آج تک پیر تسمہ کی طرح ملک کی گردن پر سوار ہے اور اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ امریکہ کے جو مطالبات انہوں نے چشم زدن میں تسلیم کرلئے تھے، ان کی وجہ سے امریکہ آج تک ’’ڈومور‘‘ کی گردان کر رہا ہے۔ اب اگر وہ ایسی قومی حکومت چاہتے ہیں جو ان کا دور واپس لے آئے تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جو وہ پڑھ نہیں رہے اور الیکشن ہوتا ہوا دیکھ نہیں رہے۔