جوں جو ں قومی اور صوبا ئی اسمبلیوں کی مد ت پوری ہو نے کا وقت قر یب آ رہا ہے ‘ سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ تی جا رہی ہیں ۔ عمران خان نے جمعہ کو رائے ونڈ اڈا پلاٹ میں اپنی بھرپورطاقت کا مظاہرہ کیا اور جلسہ عام سے خطاب کے دوران دھمکی دی کہ میاں نواز شریف پاناما لیکس کے حوالے سے عوام کے سامنے پیش ہوں ورنہ محرم کے بعد وہ حکومت کو مفلوج اور اسلام آباد بند کر دیں گے ۔ادھر میاں نواز شر یف بھی اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی’ فتح‘ کرنے اور لندن میں ڈا کٹرو ں سے کلین چٹ حاصل کر نے کے بعداب سیا ست گر ی میں زیا دہ مشغول ہو رہے ہیں ،برادر خو رد شہباز شر یف تو پہلے ہی کل وقتی یہی کام کر رہے ہیں ۔دوسری طرف اکثر تجز یہ کار آرمی چیف جنرل راحیل شر یف کے مستقبل کے حوالے سے طر ح طر ح کی چہ میگو ئیاں کر رہے ہیں ۔جنر ل صاحب نے تو سال رواں کے آغاز میں ہی یہ دوٹو ک اعلان کر ادیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں تو سیع کے امید وار نہیں ہیں، اس کے باوجو د قیا س آرائیاں میڈ یا کی زینت بنتی رہی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف اور چو ہد ری نثار علی خان اس بات کے حق میں تھے کہ آرمی چیف کی مدت ملا زمت میں تو سیع کر دی جائے لیکن میاں نواز شر یف نے ان کو سختی سے ویٹو کر دیا ہے‘ لیکن پھر بھی یہ بحث ختم ہونے کانام لیتی۔ اس کی وجہ غا لباً یہ ہے کہ بعض عسکری حلقے تمام تر انکا ر کے با وجو د اس بات کے حامی لگتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹا ف کی مدت ملا زمت میں تو سیع کر دی جائے لیکن میاںصاحب اصرار کر رہے ہیں کہ’ غا لب خستہ کے بغیر کو ن سے کام بند ہیں‘۔ یہ تجو یز اب بھی سنجیدگی سے زیر غور ہے کہ جنر ل را حیل شریف کو چیئر مین جو ائنٹ چیف آ ف سٹا ف بنا کر اور انھیں ایک’ سکیورٹی زار‘بنا نے کے لیے ساتھ ہی سا تھ فیلڈ مارشل کا عہد ہ بھی دے دیا جا ئے۔ اب زیا دہ دور کی بات نہیں ہے اور چندروز میں ا س بارے میں فیصلہ ہو جا ئے گا ۔
عمران خان مسلسل بظا ہر سعی لا حا صل میں لگے ہو ئے ہیں کہ ‘پاناما لیکس ‘ کے مسئلے پر میاں صاحب کا کڑا احتساب ہو لیکن وہ ان کو کا میابی سے طر ح دے رہے ہیں ۔دراصل مسلم لیگ(ن) کی حکمت عملی بڑ ی سید ھی سادی ہے کہ ‘پاناما لیکس ‘ کے معاملے کو لٹکا یا جائے، ان کے نز دیک یہ عوام کا مسئلہ ہے ہی نہیں ۔انھیں تو نوکر یاںچا ہئیں نیز اگر الیکشن سے پہلے لو ڈ شیڈ نگ ختم ہو جا تی ہے تو پھراگلے انتخا بات بھی ان کی جیب میں ہو نگے ۔ اسی بنا پریہ پروا کیے بغیر کہ ہرپاکستانی کا بال با ل مہنگے تر ین قر ضوں میں جکڑا جا رہاہے‘ حکمران جماعت چاہتی ہے کہ ہر حا لت میں کم ازکم پنجاب میں عام انتخابات سے پہلے بجلی ہی بجلی ہو ۔ اس کے علا وہ مسلم لیگ ن ووٹروں کو لبھانے کیلئے مو ٹر ویز ، ہائی ویز ،اورنج ٹر ینوں،میٹر وبسوں اور کھیت سے منڈ ی تک سڑکوںکے جال جیسے دلآویز آ پشنز بنانے میں دن رات لگی ہو ئی ہے ۔ اس حوالے سے امیج بلڈ نگ کے لیے مر یم نواز کی سر پر ستی میں خصوصی سیل اخبارات میں اشتہارباز ی کے لیے اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک منظم طریقے سے مسلم لیگ (ن) کی ٹیم جس میں دا نیال عزیز ،طلا ل چوہدری، عابد شیر علی اور ڈاکٹر مصدق پیش پیش ہیں، اس لا ئن کو مز ید اجا گر کیے جا رہے ہیں۔
درا صل حکمران جما عت کی سیا ست اپنے مخالفین سے قدر ے مختلف ہے،اس کے رہنما بڑ ے بڑ ے جلسے کرنے کے بجا ئے حلقہ جا تی سیاست میں زیا دہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس مہم کے ذریعے ووٹر زکو یہ باورکرالیتے ہیں کہ ہم ہی دوبارہ اقتدار میں آکر آپ کے کام آ ئیں گے‘ لہٰذا ہمیں ووٹ دیں۔ آمر یت کا دور تو ٹل چکا ہے لہٰذا اپوزیشن میں رہنے والے سیا ست دانوں کو اس حوالے سے اتنی پذیر ائی نہیں ملتی ۔ جہاں تک خان صاحب کی سیا ست اور سیا ست گر ی کا تعلق ہے انہوں نے یقینا نوجوانوں کے ایسے طبقے کو جو سیاست میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتا تھا ‘ باہر نکالا ہے ۔ لیکن گزشتہ تین بر س سے ان کی سوئی احتساب ‘دھاندلی اور اس حوالے سے مسلسل احتجا ج پر ہی اڑ ی ہو ئی ہے ۔ تحریک انصاف میں بڑھتے ہو ئے خلفشار اور گروپ بندی کو رو کنے کے لیے کو ئی سعی نہیں کی جا رہی ۔خان صاحب اپنی دھن کے پکے اور فیصلے بھی خو د کر نے کے عادی لگتے ہیں ۔نسبتا ً ایک نئی سیا سی جماعت کے طور پر ان کا ریکا رڈ اچھا ہے اور گز شتہ عام انتخا بات میں ووٹوں کے لحا ظ سے تیسر ی بڑ ی طاقت بن کر ابھرے۔ خیبر پختو نخوا میں ان کی حکومت بھی ہے ۔ اپنی تمام تر مثبت باتوں کے با وجو د پی ٹی آ ئی قومی اسمبلی اورسینیٹ میں بہت کم وقت گز ارتی ہے، حکومت کی خر اب گورننس، ملک کی دگر گو ں سیاسی صورتحا ل اور ناقص خا رجہ پالیسی پر بہت کم تبصر ہ کیا جا تا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اخبار نو یس صبح اخبار پڑ ھ کر یا ٹی وی چینلز دیکھ کرتجز یے اور اداریے لکھتے ہیں، خان صاحب اس کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اور محض ردعمل کی سیاست کرتے ہیں ۔انھیں اب اگلے انتخا بات کے لیے ہو م ورک کر نا چاہیے اور انتخابی سیاست کے حوالے سے اپوزیشن اور دیگر سیا سی جما عتوں سے مشاورت کا عمل بڑھانا چاہیے۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں کیو نکہ تحر یک انصاف کی لیڈرشپ سو لو فلائٹ کی قا ئل لگتی ہے ۔حالیہ ضمنی انتخابات سے یہ بات عیاںہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحر یک انصاف کا عام انتخابات میں کا نٹے دار مقا بلہ ہو گا ۔ لیکن خان صاحب اسی صورت وزیر اعظم بن پا ئیں گے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی یکسر ناکام ہو جا ئے جس کے امکا نات کم لگتے ہیں ۔
جہا ں تک پیپلز پا رٹی کا تعلق ہے ،یہ پاکستا ن کی سب سے بڑ ی سیا سی جماعت ہونے کے ناتے پانچ بار وفاق میں بر سر اقتداررہ چکی ہے‘ لیکن اس نے بھی 2013ء میں پنجا ب ،خیبر پختو نخوا اور بلو چستان میں اپنی عبر تناک شکست سے کو ئی سبق نہیںسیکھا ۔ 3سال سے زیا دہ عرصہ گز رنے کے با وجو د پیپلز پارٹی کے نوآمیز چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے شاذ ہی پنجاب کا دورہ کیا ہے ۔ اس حقیقت کے با وجو د کہ پنجاب میں کامیابی حا صل کیے بغیر کو ئی بھی جماعت وفاق میں بر سر اقتدار نہیں آ سکتی، پیپلز پا رٹی نے پاکستان کے سب سے بڑ ے صوبے میں کو ئی کا م نہیںکیا ۔ گزشتہ3 برسوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کے امید وار بہت کم ووٹ حاصل کر پا ئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ اس جماعت نے خو د کو اگلے انتخا بات کے لیے سند ھ تک محد ود کر لیا ہے۔ جہاں تک شہری سندھ کا تعلق ہے وہاں دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ ‘ ما ئنس ون‘ فارمو لہ پر عمل درآمد کے بعد کیا اگلے انتخا بات میں فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان اپنا ووٹ بینک بر قرار رکھ سکے گی؟ –