بچپن میں اپنے بڑوں کے ساتھ جب بھینسوں کا چارہ کاٹنے جایا کرتا تھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے، جولائی اور اگست کے حبس زدہ موسم میں جب پیاس لگتی تھی تو کتنی بار ایسا ہوا کہ ہم نے کھال کا پانی پیا۔ یہ پانی ایسا ہوا کرتا تھا کہ کھال میں چالو حالت میں نہ ہوتا، ایک جگہ ٹھہرا ہوتا تھا، اس میں کیڑے مکوڑے بھی ہوتے تھے۔ میرے ماموں محترم خالد صاحب اپنے سر پر باندھا ہوا سوتی کپڑا ہاتھ میں لیتے اور اسے پھیلا کر پانی کے اوپر ڈال دیتے۔ اس پر منہ رکھ کر خود پیتے اور پھر میں بھی اسی طرح کپڑے پر منہ رکھ کر پانی پی لیتا۔ بہتے کھال سے نہری پانی بھی اسی طرح پیا اور کھڑے پانی کو بھی نوش جان کیا۔ ہمارے گائوں کا جو تالاب تھا۔ اسے چھپڑ کہہ لیجئے، نہری پانی سے یہ بھرتا تھا۔ اس کی تہ کا گارا کالی مٹی ہوتا تھا۔ گائوں کی بھینسیں اس میں نہاتی تھیں، گائوں کے بچوں کے ساتھ میں بھی اس میں نہایا کرتا تھا۔ نہاتے اور ڈبکیاں لگاتے ہوئے اس پانی کے گھونٹ نہ چاہتے ہوئے بھی پیٹ میں چلے جاتے تھے۔
قارئین کرام! میں یہ باتیں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ اللہ کے فضل سے نہ مجھے ہیپاٹائٹس ہوا ہے اور نہ ہی میرے ماموں کو ہوا ہے۔ وہ 65اور 70سال کے درمیان ہیں، ماشاء اللہ صحت مند ہیں۔ ہم نے کبھی نہ سنا کہ گائوں میں کسی کو ہیپاٹائٹس ہو گیا ہے۔ اس موذی مرض کا نام کچھ سال پہلے ہی سننے میں آیا ہے۔ کہتے ہیں یہ مرض آلودہ پانی پینے سے ہوتا ہے یا پھر کسی دوسرے کی سرنج لگنے سے ہو جاتا ہے مگر میرا دل اس بات کو نہیں مانتا۔ میرا دل تو کچھ اور ہی کہتا تھا۔ میں کہتا ہوں، میرے بچپن کے زمانے میں جو آلودگی نظر آتی تھی وہ بے شک آلودگی تھی مگر اس میں کیمیکلز کی ملاوٹ نہ تھی۔ ساتھ ساتھ غذائیں دیسی اور ملاوٹ سے پاک تھیں۔ کھاد کے بغیر بھینس کو چارہ ملتا تھا۔ دودھ خالص تھا، دیسی گھی تھا، دیسی گندم کا آٹا تھا، خراس پر پسا ہوتا تھا پھر لکڑی کی حدت اور شعلے سے توا گرم ہوتا تھا۔ ماں کے مبارک اور پاکیزہ ہاتھ بسم اللہ پڑھ کر روٹی کو توے پر ڈالتے تھے۔ ایسا کھانا کھانے والی قوم صحت مند نہ ہو تو کیا ہو؟ کھال کے پانی اور جوہڑ کے کبھی کبھار کے چند گھونٹ ایسے نوجوان کا کیا بگاڑیں گے؟ اللہ کی مہربانی سے کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔
آج میں دیکھتا ہوں امیر ترین گھرانوں کے لوگ ہیں، پوش علاقوں کے باسی ہیں، امپورٹڈ کمپنیوں کا پلاسٹک بند باسی پانی بہتر سمجھ کر پیتے ہیں، اعلیٰ غذائیں کھاتے ہیں مگر وہ بھی ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں۔ کینسر کے مریض ہیں اور غریب غربا کا تو کچھ حال نہ جانئے کہ وہ بیماریوں کے کس کرب میں مبتلا ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خوراک میں کیمیکلز شامل ہو چکے ہیں۔ یہ کیمیکلز ہی فساد اور بیماریوں کی جڑ ہے۔ دودھ، لسی، شربت اور سکنجبین کے بجائے سوڈا واٹر کی بوتلیں ہیں ”وے ظالماں کوکا کولا پلا دے‘‘ یہ اپنے پینے والے پر وہ ظلم ڈھاتی ہے کہ معاشرہ بیماریوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ السر اور معدے و جگر کے کینسر وغیرہ اسی سے پھیل رہے ہیں۔ فلور مل آٹے سے چوکر نکال دیتی ہے اور باریک سفید سا میدہ بوریوں میں بھر دیتی ہے۔ پورے ملک کے ہوٹلوں میں ربڑ جیسا یہی آٹا چلتا ہے۔ کئی گھروں میں بھی یہی چلتا ہے۔ پیٹ اور انتڑیوں میں قبض کرتا ہے، اوپر سے تندور والا تیز شعلے پر باریک سی کچی پکی روٹی اتار کر مَتھّے مارتا ہے۔ بتلایئے! قومی صحت کا کیا بنے گا؟ ڈبے میں بند جوس ہوں یا غذائیں سب کیمیکلز سے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہ بیش قیمت غذائیں اور مشروبات کھا پی کر بھی آخرکار بیماریوں کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر ہیپاٹائٹس، کینسر، السر وغیرہ عام ہو رہے ہیں۔ فارمی مرغیوں کی خوراک کیمیکلز سے پاک ہو، صاف اور اچھی خوراک ہو تو صحت کے لئے بہتر ہو سکتی ہے مگر اس وقت مرغیوں سمیت فارمی جانوروں کو عموماً جو خوراک مہیا کی جاتی ہے وہ کیمیکلز پر مبنی ہوتی ہے۔ اس سے صحت کو بیماریاں نہ ملیں گی تو اور کیا ہو گا؟
میرے چھوٹے بیٹے نے گھر میں دیسی مرغیاں پال رکھی ہیں، ایک دن وہ برائلر مرغی لے آیا اور شام کو باقی مرغیوں کے ساتھ ڈربے میں بند کر دیا، صبح ڈربے کا میں نے دروازہ کھولا تو ساری مرغیاں اچھل کود کر باہر نکل گئیں، مرغا پر پھیلائے اچھلنے لگا، اذانیں دینے لگا، میں نے برائلر مرغی کو باہر نکالنا چاہا تو باہر ہی نہ نکلے۔ میں نے اٹھا کر باہررکھ دیا تو ایک جگہ پر ہی جم گئی۔ میں الگ کھڑا ہو گیا، باقی مرغیاں اس کے پاس آئیں گویا کہہ رہی تھیں، آئو ہمارے ساتھ کھیلو، مگر مجال ہے جو جنبش ہو، آخرکار انہوں نے اسے مارنا شروع کر دیا، اب مجھے ترس آیا اور اسے چھڑوایا۔ یہ ہے انسان کی مشینی ایجاد جس کو کیمیکل پر مبنی ناقص خوراک نے ایسا ناکارہ بنا دیا ہے، ابھی قربانی کے دن گزرے چند ہفتے ہوئے ہیں، جن لوگوں نے بیلوں اور بکروں کو بادام اور اعلیٰ چارہ کھلایا تھا وہ کس قدر صحت مند اور طاقتور تھے۔ لاکھوں روپے ایک ایک کا ریٹ لگ رہا تھا، الغرض! خوراک بنیادی چیز ہے، قومی ہیلتھ کے ذمہ داروں کو ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ خوراک کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔اچھی صحت کی بنیاد خالص اور دیسی خوراک ہے۔ بیماری آ جائے اس کے بعد ہسپتال ہے جہاں شفا ملتی ہے۔
”شفائ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی ہے۔ یہ لفظ ”شَفٌّ‘‘ سے نکلا ہے۔ جو شے انتہائی باریک اور شفاف ہو، اس قدر شفاف کہ وہ دوسری طرف سے بھی دکھائی دینا شروع کر دے یعنی شیشے کی طرح صاف شفاف ہو تو اسے ”شَفٌّ‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ غذا صاف شفاف ہو گی تو بدن بیماریوں اور جراثیم کا مقابلہ کرتا رہے گا۔ دُھلتا رہے گا، اندر سے بھی شفاف رہے گا اورباہر سے جلد پر نکھار نکھرتا رہے گا۔ یاد رہے ”شَفٌّ‘‘ سے ہی ”اَلشّفَّان‘‘ نکلا ہے۔ اس کا مطلب بارش کا برسنا اور ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا کا چلنا ہے۔ گرمی کے بعد ایسا موسم بہت لطف دیتا ہے یعنی بیماری کے بعد صحت کی بارش برسے تو صحت کے صاف شفاف جھونکے تازگی اور فرحت بخشیں گے۔ یاد رہے! بیماری کی صورت میں دوائی اپنی جگہ مگر پھر بھی پرہیزی غذا کو اہمیت حاصل ہو گی۔ دوا کی چارہ گری تبھی ہو گی جب غذا کی مناسبت کو اہم سمجھا جائے گا۔ قارئین کرام! شفا کا معنی چاند کا طلوع ہونا بھی ہے۔ ہر شے کے کنارے کو بھی شفا کہتے ہیں۔ چاند جب نکلنے لگتا ہے تو اس کا کنارا ہی دکھائی دیتا ہے پھر وہ بڑھتے بڑھتے چودھویں کا چاند بن جاتا ہے۔ صحت کو چودھویں کا چاند بنانے کے لئے غذا کو اہمیت دینا ہو گی۔ کبھی موقع ملے تو پوٹھوہار کے علاقے کی بارانی زمین سے اگنے والی گندم کی روٹی کھا کر دیکھیں، بارش کے پانی کو اللہ تعالیٰ نے مبارک پانی کہا ہے۔ زم زم کے بعد دنیا کا سب سے بہترین منرل واٹر بارش کا پانی ہے۔ پوٹھوہاری زمین میں گوبر کی قدرتی کھاد اور بارش کا پانی گندم کے ذائقے اور قوت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اس بارانی گندم کے بعد دوسرا نمبر اس گندم کا ہے جس کو نہری پانی ملتا ہے اور کھاد قدرتی میسر آتی ہے۔ وہ گندم جس کو کھاد جیسی کیمیکل دوائی ملے، نہری پانی ہو اس گندم کا تیسرا اور چوتھا نمبر ہے مگر وائے افسوس کہ ہمیں اس گندم کا بھی چوکر سمیت درست آٹا میسر نہیں۔ فلور مل اس کا بھی کباڑا کر کے ہمیں مہیا کرتی ہے اور غذا میں پہلی چیز یہی گندم ہے، میں ہیلتھ کے ذمہ داران سے عرض کروں گا، فلور مل کا آٹا چکی جیسا آٹا ہونا چاہئے جس میں چوکر موجود ہے۔ فائبر ہی تو ہڈیوں کی صحت کا ضامن ہے۔ پورے ملک میں یہ آٹا فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔ ہیلتھ پالیسی میں یہ اولین اینٹ ہے، بنیاد کون رکھے گا؟