منتخب کردہ کالم

غربت سے عظمت کا سفر….محمد بلال غوری

غریب آدمی کا حقیقی المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کامیابی کی امنگوں، آرزوئوں اور جذبوں کے اعتبار سے بھی مفلس ہوتا ہے۔ (سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے 18ویں صدی کے عظیم فلاسفر اور مصنف ایڈم سمتھ کا قول)
بلاشبہ غربت بہت مہلک اور موذی مرض ہے مگر یہ ناقابل علاج عارضہ اور لادوا بیماری نہیں۔ غریبی یا امیری کا تعلق خصلت، طبیعت، مزاج، عادات اور اطوار سے ہے مگر جب ہم اسے محرومیوں، مجبوریوں، طبقاتی فرق، مذہب، مقدر، قومیت یا خطے سے جوڑ لیتے ہیں تو پھر غربت و پسماندگی سائے کی طرح چپک جاتی ہے اور چھوٹنے کا نام نہیں لیتی۔ میں نے ہڈ بیتی اور مشاہدے کے نتیجے میں بتدریج یہ رائے قائم کی ہے کہ نفع نقصان اور اچھے برے حالات تو زندگی کا حصہ ہیں اور کبھی کسی پر بھی بُرا وقت آ سکتا ہے لیکن اگر کوئی شخص مسلسل غریب، بے روزگار یا ناکام ہے تو اس کے حالات زندگی اور پے درپے ناکامیوں کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کی اپنی حرکتیں ہیں۔ اکثر سنتے ہیں کہ بے روزگاری بہت ہے لیکن قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ آپ کو کوئی موزوں ڈرائیور اور معقول آفس بوائے تک نہیں ملتا۔ آپ کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہے، آپ کوئی بھی چھوٹا سا کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور آپ کو افرادی قوت درکار ہے۔ باورچی، ویٹر، آرڈر ٹیکر، مینجر کی خدمات چاہئیں تو پہلی فرصت میں مطلوبہ افراد میسر نہیں آئیں گے اور اگر آپ انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو چند دن بعد ہی یہ سٹاف اپنی حرکتوں کے نتیجے میں آپ کا دھندہ چوپٹ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور یوں نہ صرف آپ ناکام ہوں گے بلکہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے والے یہ لوگ بھی ایک مرتبہ پھر بے روزگار ہو جائیں گے۔ آپ کو گھر یا دفتر میں کسی قسم کا کوئی کام کروانا ہے اور پلمبر، کارپینٹر، الیکٹریشن، اے سی مکینک یا کسی اور کاریگرکی ضرورت پیش آ گئی ہے تو وہی لوگ جو بے روزگاری اور کام نہ ہونے کا شکوہ کرتے نہیں تھکتے، اچانک انتہائی مصروف ہو جائیں گے۔ اچھی خاصی تگ و دو کے بعد آپ کی مطلوبہ شخص تک رسائی ہوئی، کام کے پیسے طے ہو گئے، اس نے کسی فوری ضرورت کا عذر پیش کرکے یا کام کے لئے سامان لینے کا جواز گھڑ کے آپ سے ایڈوانس کا تقاضا کیا جو آپ نے ادا کر دیا۔ بس یہی وہ وقت ہے جب اچانک وہ کاریگر خود علیل ہو جائے گا یا پھر اس کا بچہ بیمار ہو جائے گا، کسی حادثے کے نتیجے میں اسے چوٹ لگ جائے گی، اگر شرم و حیا کی تھوڑی سی رمق ہو گی تو آپ کو اس خود ساختہ مجبوری سے آگاہ کر دے گا تاکہ آپ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں وگرنہ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اس شخص نے جو نمبر آپ کو دیا ہے وہ موبائل فون ہی دو چار دن بند رہے۔ آپ اچھی خاصی تلملاہٹ کے بعد کسی اور کاریگر سے رجوع کر لیں گے تو کھیل ختم پیسہ ہضم لیکن اگر آپ ڈھٹائی پر اتر آئے تو زچ کیے جانے کے بعد قسطوں میں کام ہو جائے گا۔ آپ نے ٹیلر ماسٹر کو کپڑے سلائی کرنے کے لیے دیئے، دھوبی کو کپڑے دھونے یا ڈرائی کلین کرنے کا کہا، کہیں کسی مکینک سے گاڑی یا کسی قسم کا کوئی الیکٹرانکس سامان مرمت کرنے کی بات کی، کسی قسم کا کوئی مال بنوایا، پرنٹنگ کا کوئی کام کروایا، ان سب کا نصاب ایک ہی ہے۔ آپ کو کام مکمل ہونے کی جو تاریخ دی جائے گی، اگر آپ اس میں ایک آدھ دن کا مارجن رکھ کر بھی جائیں گے تو خیر سے اپنا کام نامکمل اور ادھورا ہی پائیں گے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان صاحب کو اپنے کیے پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی بھی نہیں ہو گی۔
ان دنوں ہمارے ہاں کرائے پر دستیاب گاڑیوں کی غیر ملکی چینز بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ ٹیکسیاں اور رکشے تو ہمارے ہاں عرصۂ دراز سے مستعمل ہیں اور لوگ ان پر سفر کر تے چلے آئے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کے بجائے لوگ ایک نئی سروس کی طرف کیوں مائل ہو رہے ہیں؟ اب آپ بھلے اسے عام آدمی کا استحصال قرار دیں یا غریب رکشے والوں کو بے روزگار کرنے کی غیر ملکی سازش کا نام دیں مگر میں اسے مذکورہ شعبہ سے وابستہ افراد کی بدنیتی، نااہلی اور ہڈ حرامی کا فطری نتیجہ سمجھتا ہوں۔ آپ کسی بھی آٹو رکشے والے سے پوچھ لیں کہ ریلوے اسٹیشن سے یتیم خانے جانا ہے کیا کرایہ لو گے۔ وہ نہایت ملائمت اور اپنائیت سے کہے گا ”جو دل کرے دے دیجئے گا‘‘ آپ پھر پوچھیں گے وہ دوبارہ اسی محبت بھرے لہجے میں کہے گا ”بھائی جان جو مناسب ہو دیدیں کوئی فرق والی بات نہیں‘‘ آپ اگر اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر کرایہ طے کیے بغیر رکشے میں بیٹھ گئے ہیں تو بس پھر اترتے ہی ایک زوردار ”کھڑاک‘‘ کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن اگر آپ نے کرایہ طے کر لیا تھا تو بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کی جھگڑا نہیں ہو گا۔ عین ممکن ہے وہ صاحب اس بات پر پچاس روپے زائد مانگ لیں کہ راستے میں رش بہت زیادہ تھا یا اوورچارجنگ کی وجہ یہ قرار پائے کہ انہوں نے سمجھا تھا اتنا فاصلہ ہو گا یہ تو ان کی توقع سے زیادہ فاصلہ نکلا۔ اب ان حالات میں کوئی ان کے پیٹ پر لات کیوں نہ مارے؟ اور ایسے اطوار کے ساتھ ان کے حالات زندگی کیسے بدلیں؟ یہ ہے وہ کریکٹر، یہ ہیں وہ خصلتیں جن کی وجہ سے لوگ غربت کی لکیر سے اوپر نہیں اٹھ پاتے اور پھر اپنی محرومیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر زمانے بھر کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔
چند روز ہوتے ہیں ایک پولیس افسر نے نہایت درد مندی سے کہا ‘ غربت اور بے روزگاری کے باعث سٹریٹ کرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ جو لڑکے پکڑے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر پیشہ ور یا عادی مجرم نہیں ہوتے بلکہ ایسے اناڑی ڈاکو ہوتے ہیں جو کسی مجبوری کے باعث اس طرف چل نکلتے ہیں۔ اسی زاویۂ فکرکے تحت بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ جرائم غربت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ 17ویں صدی کے عظیم فرانسیسی فلاسفر Jean De La Bruyere اس سوچ سے متفق نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جرائم کی ماں بھلے غربت ہو مگر ان کا باپ حِس غیر معقولیت ہے۔ اب ان اناڑی ڈاکوئوں کو ہی دیکھ لیں۔ آپ کو جرائم کے پیشے میں قدم رکھنے کے لیے ایک عدد 125 موٹر سائیکل کی ضرورت ہے اور کم از کم ایک عدد پسٹل چاہئے۔ محتاط تخمینے کے مطابق بھی اس دھندے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ آپ نے ان پیسوں سے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا ہے اور باعزت طریقے سے روزگار حاصل کرنا ہے یا پھر بحیثیت ڈاکو اپنے کیریئر کا آغاز کرنا ہے، اب یہ تو اپنی سوچ اور اندازِ فکر کے تحت اختیار کیا گیا راستہ ہے۔ اگر حسِ معقولیت ہو گی تو آپ مثبت انداز میں سوچیں گے اور کسی تعمیری کام کا آغاز کرتے ہوئے کامیابی کے زینے طے کریں گے لیکن حسِ غیر معقولیت کی موجودگی میں تخریبی نوعیت کا دھندہ شروع ہو گا اور آپ اپنے تئیں اس شعبہ میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ غریبی یا امیری کوئی فطری، آفاقی یا لولاکی تقسیم نہیں، انسانوں کا اپنا اختیار کردہ طرزِ زندگی ہے۔ آپ چاہیں تو قناعت کے سراب میں کھوئے رہیں، تخیلات کے گھروندوں میں سوئے رہیں، غریبی میں نام پیدا کیے جائیں لیکن اگر آگے بڑھنے کی جستجو ہو، کامیابی کے بے میل جذبوں کی مفلسی ختم کرنے پر آمادہ ہوں، اپنی خصلتیں اور عادتیں بدلنے کو تیار ہوں تو غربت سے عظمت کا سفر چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ کوئی کتابی باتیں اور ناقابل عمل فلسفہ نہیں، سینکڑوں تابناک مثالیں موجود ہیں۔ زندگی رہی تو اگلے کالم میں ان افراد کا خاکہ پیش کروں گا جو منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا نہیں ہوئے، غربت زدہ گھرانوں میں آنکھ کھولی لیکن آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا