غور کرنے کی فرصت مگر کسے ہے؟…ہارون الرشید
تمام مقابل لشکروں کو‘ جن میں سے بعض آج بھی زخمی سانپوں کی طرح زہر گھولتے ہیں‘ قائداعظم نے کیونکر شکست فاش دی۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں‘غور کرنے کی فرصت مگر کسے ہے؟
1993ء میں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے آخری ایّام تھے۔ ایک مرحوم مذہبی رہنما نے جو اپنے جوش و خروش‘ زورِ خطابت اور غیر معمولی قوتِ عمل سے پہچانے جاتے تھے‘ اچانک ناچیز سے سوال کیا : آج کے مظاہرے میں مجھے کیا کہنا چاہئے۔ خواتین کے اس احتجاجی جلوس کے لئے کئی ہفتوں سے تیاریاں کی جا ری تھیں۔ اندازہ تھا کہ اردگرد کے شہروں سے دس پندرہ ہزار عورتیں امڈ کر آئیں گی… اور پیپلزپارٹی کا اقتدار تمام ہونے کا عمل تیز ہو جائے گا۔ عرض کیا: حکومت کے خلاف آپ کی چارج شیٹ بھر پور مکمل اورقابلِ فہم ہے۔ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، وہ مستند ہے اور قائل کر دینے والا۔ بس یہ ہے کہ لہجہ شائستہ ہونا چاہئے۔ آپ کا مشن مکمل ہونے والا ہے کہ عوامی تائید‘ اپوزیشن کو حاصل ہوچکی۔ جذبات کی آگ پر تیل چھڑنے کی ضرورت نہیں۔ مرحوم نے اثبات میں سرہلایا اور پوچھا کہ کس بات پہ اعتراض ہے؟ گزارش کی کہ ”بے شرم‘‘ کا لفظ ان کے شایان ِشان نہیں۔ اپنے وعدے پر وہ قائم رہے اور یہ لفظ نہ برتا‘ لیکن پھر اسے ”بے غیرت‘‘ سے بدل دیا۔ محترمہ کو اقتدار سے الگ کرنے کی جنگ جیت لی گئی کہ صدر فاروق لغاری پہلے ہی نون لیگ کی قیادت سے سازباز کر چکے تھے۔ ان معزز رہنما اور ان کی پارٹی کو مگر اس ریاضت سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی قوت اور بھی کم ہوتی گئی۔ ان کے مسائل جوں کے توں رہے اور اس سر زمین کے بھی‘ جہاں اپنی قیادت کا جادو انہیں جگانا تھا۔ جذبات کی آگ سے نہ کبھی دانش کا نور طلوع ہوا ہے اور نہ منزل کا سراغ۔
ایک دانا آدمی اور کوئی بھی ہوش مند گروہ اپنی ترجیحات اچھی طرح سوچ سمجھ کر مرتب کرتا ہے۔ وہ اپنے سب سے بڑے مطالبے اور ہدف کے لئے کام کرتا ہے۔ جزئیات میں نہیں الجھتا‘ اپنی توانائی برباد نہیں کرتا۔
اصحاب کے درمیان تشریف فرما‘ اللہ کے آخری رسولؐ نے ایک تنکا اٹھایا ۔فرش خاک پہ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں۔ پھر اس ایک سیدھی‘ صاف لکیر۔ تب اس مفہوم کا جملہ ارشاد کیا: ٹیڑھے میڑھے‘ الجھا دینے والے‘ یہ گمراہی کے راستے ہیں… اورسیدھی لکیر‘ صراطِ مستقیم ہے۔ کامیابی اور فلاح کی منزل کو لے جانے والی۔
کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے‘ تحریک ِآزادی اور تشکیل ِ پاکستان کے ہنگام‘ اس نادر روزگار لیڈر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا تھا؟ قرار دادِ پاکستان سے وہ اڑھائی عشرے قبل مسلمانوں کے حقوق کا پرچم لے کر وہ اٹھے۔ تحریک ِخلافت اور ”ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک سمیت‘ کیسے کیسے ہنگامے ‘اس دوران برپا ہوئے۔ نظر اٹھا کر انہوں نے دیکھا۔تحمل اور توازن کے ساتھ ان میں سے ہر ایک ہنگامے کا تجربہ کیا۔ نگاہ مگر اس ایک نکتے پہ رہی کہ مسلم اکثریت کے مفاد اور مستقبل کا تحفظ کس طرح ممکن ہے؛ حتیٰ کہ 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان منظور کر لی گئی۔ پھر آپ نے پلٹ کر نہیں دیکھا تاآنکہ 1946ء کے انتخابات آپہنچے… اور پاکستان کی منزل حاصل کر لی گئی۔ کیسا کیسا خطیب اور کیسا کیسا ولولہ انگیز گروہ قائداعظم کے مقابل تھا،آگ اگلتے‘ زندگیاں قربان کرنے پر تلے نظر آتے لوگ! مسلم لیگ سے سوگنا بڑی آل انڈیا کانگرس تو تھی ہی۔ اس کے پلیٹ فارم سے خطابت‘ نثرنگاری اور جوڑ توڑ کا سحر پھونکنے والے ابوالکلام تو تھے ہی‘ جمعیت علماء ہند اس کے سوا تھی۔ خاکسار اور احرارِ اسلام ان کے سوا تھے۔ سندھ میں جی ایم سید‘ بنگال میں مولوی فضل الحق‘ سرحد میں خان عبدالغفار خان‘ پنجاب میں یونینسٹ۔ بلوچستان میں بلوچ گاندھی‘ محمود اچکزئی کے والد گرامی جناب عبدالصمد اچکزئی کار فرما تھے۔ غوث بخش بزنجو ایسے ترقی پسند دانشور اور قبائلی سردار کانگریس‘ جن سے ہمہ وقت رابطے میں رہا کرتی۔ باہم کردار کشی کے موجودہ غلیظ ہنگاموں سے‘ ہر وہ شخص بیزار ہے‘ اجتماعی حیات میں انتشار اور افراتفری کے مضمرات کا جو احساس رکھتا ہے۔1940ء کے ہنگامہ کبریٰ میں کردار کشی کی ویسی ہی مہم قائداعظم کے خلاف برپا ہوئی تھی‘جو آج ہمارے آفاق کو محیط تھی۔ ایک اور انداز میں مقدس اور معتبر زبانوں سے!
اپنی خودنوشت میں آغا شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ احراری لیڈر مولانا مظہر علی اظہر نے کانگریس سے روپیہ وصول کیا۔ جواں سال خطیب کو پتہ چلا تو بے تاب وہ سری نگر پہنچے‘ عطاء اللہ شاہ بخاری جہاں مقام پذیر تھے۔ روداد کہی تو بھاگم بھاگ وہ لاہور آئے۔ ان کے بقول ؛نیلا گنبد لاہور میں احرار سے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شاہ جی کی ڈاڑھی آنسوئوں سے بھیگ گئی۔ جتنے دن لاہور میں مقیم رہے‘ وہ ایک جملہ دہراتے رہے ”مولوی مظہر علی اظہر‘ تم نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی‘‘۔
کانگرس کے حلیف‘ خان عبدالغفار خاں سرحد میں برسراقتدار تھے۔ ضدی ‘ ہٹ دھرم اور اپنے پیروکاروں کی نگاہ میں پشتونوں کے سب سے بڑے لیڈر۔ ابوالکلام نے لکھا ہے کہ کانگرس انہیں روپیہ بھجواتی۔ خرچ کرنے کی بجائے‘ وہ جیب میں ڈال دیتے۔ فضل الحق کو شیر بنگال کہاجاتا۔ خطابت میں ان کا ثانی‘ اس پورے خطے میں کوئی نہ تھا۔ صدیوں سے محرومی کا شکار بنگالیوں میں قوم پرستی کی لہر اس قدر شدید تھی کہ مشرقی اور مغربی بنگال پہ مشتمل متحدہ سلطنت کا خیال بار بار سر اٹھایا۔
کردار کشی میں مولوی حضرات کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کوئی خامی‘ اور کوئی عیب ایسا نہیں ‘جو ماں کے دودھ کی طرح اجلے‘ محمد علی جناح سے انہوں نے منسوب نہ کیا۔ برصغیر کا ترقی پسند اور مولوی‘ دونوں کرم چند موہن داس گاندھی سے مرعوب تھے۔ عدم تشددکے فلسفے کا بانی۔ معلوم ہندو تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر‘ تقدس کا ایک چکا چوند کر دینے والا ہالہ‘ جس کے اردگرد فروزاں رہتا۔ اسے مہاتما کہا جاتا؛ حتیٰ کہ بعض مسلمان لیڈر بھی ”باپو‘‘ کہہ کر پکارتے۔ مولوی مظہر علی اظہر نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ کانگریس کی دولت کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ انگریزی بولنے والے ایک گجراتی وکیل کے ہاتھوں‘ اپنی پسپائی پہ بعض علماء زخمی بھیڑ یوں کی طرح برہم تھے۔
دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ممبئی کے ایک اجتماع میں مولانا حسرت موہانی ایسے شخص سے قائداعظم کے بارے میں یہ کہنا تھا: اس شخص کی زبان اسلامی ہے‘ اور نہ لباس۔ اس کے باوجود کہ محمد علی امانت و دیانت کا پیکر تھے۔ کبھی ان پہ خیانت کا الزام لگا‘ وعدہ شکنی اور نہ رتی برابر بددیانتی کا‘ مولوی لوگ انہیں انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگے رہے۔ اُردو زبان سے ان کی ناآشنائی اور ظاہری حلیے کی بنا پر‘ پروپیگنڈے کی گرد اڑانے میں بہت سہولت انہیں رہی۔ کب تک ‘مگر کب تک؟ جیسا کہ قرآن کریم قرار دیتا ہے‘ سچائی آخر کار غالب آکر رہتی ہے۔ رفتہ رفتہ بتدریج مسلم عوام قائداعظم کے قائل ہوتے گئے۔ علامہ اقبال ایسے شخص کی گواہی کے باوجود1937ء کے الیکشن میں 24 فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنے والی مسلم لیگ نے 1946ء کے معرکے میں 75.6 فیصد حمایت حاصل کرلی۔ اس تمام عرصے میں قائداعظم نے کردار کشی کرنے‘ تہمت تراشتے اور گالی بکنے والوں کو کوئی جواب نہ دیا۔ کانگرسی پریس بہت طاقتور تھا۔ اللہ ‘ رسول ؐکا حوالہ دے کر مولویوں کی زبانیں زہر اگلتی تھیں۔ اس کے باوجود جناح نے انہیںشہ مات دی۔تمام مقابل لشکروں کو‘ جن میں سے بعض آج بھی زخمی سانپوں کی طرح زہر گھولتے ہیں‘ قائداعظم نے کیونکر شکست فاش دی۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں‘غور کرنے کی فرصت مگر کسے ہے؟