غیر متحدہ اپوزیشن…خورشید ندیم
پیپلز پارٹی نے عذرِ لنگ تراشا اور اشاروں کی زبان میں ایک پیغام دے دیا۔ نون لیگ سے ایک قدم کی دوری، کسی اور سے ایک قدم قریب ہونے کا اشارہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ‘کوئی اور‘ ایک قدم چلتا ہے یا دو۔
متحدہ اپوزیشن بہت جلد غیر متحدہ اپوزیشن میں بدل گئی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے، شاید پہلی مرتبہ، خود کو جذبات کے حوالے کر دیا۔ عجلت میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ انتخابی شکست کی زخم خوردہ ہر جماعت ابھی ذہنی انتشار کا شکار تھی۔ سب سے پہلے اسے خود کو مرتب کرنا تھا۔ اس کے بعد وہ کسی اتحاد کا سوچ سکتی تھی۔ یہ مراحل طے ہونے باقی تھے کہ شتابی کے ساتھ کل جماعتی اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اس سے جذبات کا اظہار تو ہو گیا، حکمتِ عملی نہ بن سکی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، انفرادی سوچ اجتماعی سوچ پر غالب آتی گئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی امیدوں کا چمن پوری طرح اجڑ گیا۔ انہیں کچھ کھونا نہیں تھا، اس لیے نعرۂ مستانہ بلند کیا اور اسمبلیوں میں نہ جانے کا مطالبہ کر دیا۔ نون لیگ نے سوچا کہ قومی اسمبلی میں باسٹھ نشستوں کے ساتھ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہوتے ہوئے، کیا حلف نہ اٹھانا کوئی عقل مندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے؟ پیپلز پارٹی نے خیال کیا: ایک صوبے کی حکومت مل رہی ہے اور قومی اسمبلی میں بھی پہلے سے زیادہ نشستیں مل گئیں۔ کیا اس نظام کو رد کرنا عقل مندی ہے؟ جماعت اسلامی کا انجام جمعیت علمائے اسلام سے بھی زیادہ مایوس کن تھا۔ وہ تو ابھی اس بنیادی سوال پر غور کر رہی ہے کہ مجلس عمل کا حصہ بن کر اسے کیا ملا؟
ہر جماعت اپنے دل کے ٹکڑے جمع کر رہی تھی۔ غمِ جاناں کے اس دور میں غمِ دوراں کا کسے ہوش؟ یہ بات کہ سب کی شکست کا ذمہ دار، کوئی ایک عامل ہو سکتا ہے، کسی کے پیشِ نظر نہیں تھا۔ سب اپنی اپنی شکست کے محرکات تلاش کر رہے تھے۔ بظاہر دھاندلی کی بات کہی گئی لیکن سوائے جمعیت علمائے اسلام اور نون لیگ کے، شاید کسی کو اس بات پر یقین نہیں۔ پیپلز پارٹی اس سے زیادہ کامیابی کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ مصطفیٰ کمال یا جی ڈی اے، جن کی امیدوں کے چراغ گل ہوئے، ان کو دگنے عذاب کا سامنا ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ دھاندلی ہوئی۔ ابتدا میں، جب زخم تازہ تھا، مصطفیٰ کمال مولانا فضل الرحمن کی طرح پھٹ پڑے مگر اب خاموش ہیں۔ شاید تنہائی میں گنگناتے ہوں:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے، نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں، یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کو فریاد کی اجازت ہے۔ مولانا فراخ دلی کے ساتھ اس کا استعمال کر رہے ہیں اور شہباز شریف کفایت شعاری کے ساتھ۔ جہاں لوگ روتے بھی احتیاط کے ساتھ ہوں، وہاں نعرۂ مستانہ لگانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یوں مولانا فضل الرحمٰن بھی اب جذبات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی زمین پر قدم رکھ رہے ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ جہاں انفرادی مفاد کسی اجتماعی مفاد پر غالب ہو‘ اور جہاں سیاسی تجزیہ گروہی مفادات کے تابع ہو، وہاں متحدہ اپوزیشن کیسے وجود میں آ سکتی ہے؟
سادہ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں اگر فی الواقعہ کسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) ہے یا پھر جمعیت علمائے اسلام۔ مسلم لیگ تو ایک سال سے ہمہ جہتی کوششوں کا ہدف تھی اور کوئی ایسا شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا جو کھلی آنکھوں کے ساتھ گزرے واقعات کو دیکھتا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن انتخابات کے انعقاد تک پُر امید تھے۔ شاید انہیں کوئی امید دلائی گئی تھی۔ ان کا ردِ عمل بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی ناگہانی آفت کا شکار ہوئے۔ مسلم لیگ کے لیے یہ ایک متوقع حادثہ تھا۔ نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو معلوم ہے کہ محض انتخابی شکست پر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اس لیے حقیقی اپوزیشن تو یہی دو جماعتیں ہو سکتی ہیں۔
اپوزیشن کا تصور اگر صحیح معنوں میں متشکل ہو سکتا ہے تو وہ اسی وقت جب مسلم لیگ (ن) کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور وہ نواز شریف کے بیانیے کو بنیاد بنا کر اپنی حکمتِ عملی تشکیل دے۔ پارلیمنٹ میں جہاں روزمرہ کے پالیسی معاملات زیرِ بحث آئیں، وہاں عوام کی حقیقی حاکمیت کے تصور کو طاقِ نسیاں پہ نہ رکھ دیا جائے۔ مسلم لیگ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کا بیانیہ پارلیمنٹ کا اصل بیانیہ بن جائے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو کہ وہ اس کی حمایت کریں۔ مسلم لیگ کا اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ یہ ہدف کیسے حاصل کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی کیا اپنے اس طرزِ عمل کو نبھا سکے گی؟ پارٹی قیادت کے لیے اصل سوال یہی ہے۔ انتخابی مہم میں اگرچہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کسی کارکر دگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی‘ مگر بلاول بھٹو کی انتخابی مہم نے ایک اچھا تاثر ضرور قائم کیا۔ لوگوں نے اسے مستقبل کے حوالے سے امید کی کرن قرار دیا۔ یہ خیال کیا گیا کہ پیپلز پارٹی آصف زرداری صاحب کے اثرات سے نکل رہی ہے اور بلاول پھر سے اس رومان کو زندہ کر رہے ہیں جس نے اس جماعت کو کبھی ملک کی سب سے بڑی جماعت بنا دیا تھا۔
ان دنوں مگر پیپلز پارٹی نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک آصف زرداری صاحب کی گرفت میں ہے اور ان کی دلچسپی اپنے مفادات کے تحفظ تک محدود ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی قوت کو اسی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظام اگر ان مفادات کی حفاظت نہ کرے تو ان کے قدم مسلم لیگ (ن) کی طرف اٹھیں گے اور اگر مقتدر قوتیں ان کے تحفظ کی ضمانت دیں تو پھر سینیٹ کے انتخابات کی طرح، وہ اس کے دست و بازو بن جائیں گے۔
یہ صورتِ حال متحدہ اپوزیشن کی تشکیل کے لیے سازگار نہیں۔ اس وقت انفرادی سوچ کا غلبہ ہے۔ ہر جماعت اپنی صف بندی کر رہی ہے۔ وہ اپنے مفاد اور بقا کے پہلو سے حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ اس وقت کسی کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ ملک کا اصل اور بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ ووٹ کا تقدس اہلِ سیاست سے کس کردار کا تقاضا کرتا ہے، یہ سوال کسی کے پیشِ نظر نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی بقا چونکہ اس سوال سے وابستہ ہے، اس لیے اس وقت یہی جماعت ہے جو اس کو سنجیدگی سے موضوع بنا سکتی ہے۔
مسلم لیگ کی ضرورت یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانیے کی بنیاد پر ایک حکمتِ عملی تشکیل دے۔ وہ کوشش کرے کہ پیپلز پارٹی سمیت سب جماعتیں اس کا ساتھ دیں مگر اس کے لیے عزتِ نفس کو قربان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نون لیگ اگر استقامت کا مظاہرہ کر سکی تو کل اس کا بیانیہ ہی حقیقی اپوزیشن کا بیانیہ بنے گا۔ ہر جماعت مجبور ہو گی کہ اس کا ساتھ دے۔
کیا مسلم لیگ (ن) یہ کر پائے گی؟ اس کا جواب آنے والا کل دے گا۔ اگر وہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر عوامی بیداری کی پُرامن مہم منظم کر سکتی ہے تو یہ ممکن ہے۔ بصورتِ دیگر اسے بیانیے کے بجائے اقتدار کی روایتی سیاست کرنی چاہیے، جیسے پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ اس کے لیے مقتدر حلقوں سے ساز باز ضروری ہے۔ اس صورت میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت فطری طور پر شہباز شریف صاحب کو منتقل ہو جائے گی۔ یہی صورت حال پیپلز پارٹی کی ہے۔ اگر شخصی اور خاندانی مفادات کے لیے پارٹی کو استعمال کرنا ہے تو پھر قیادت کے حق دار زرداری صاحب ہیں۔ اگر عوامی مفاد کی سیاست کرنی ہے تو پھر بلاول خود بخود لیڈر بن جائیں گے کہ لوگ انہیں بھٹو اور بے نظیر صاحبہ کے جانشین کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن، ان حالات میں ایک خام تصور ہے۔ مسلم لیگ (ن)، جس نے قائدانہ کردار ادا کرنا ہے، ابھی خود یک سوئی کی تلاش میں ہے۔