ملک خالد روز صبح فون کرتا ہے۔ جس رات سفر یا کسی اور وجہ سے دیر سے سوئوں تو صبح فجر کے بعد دوبارہ سو جاتا ہوں۔ اس روز ملک خالد کا فون جب اپنے وقت مقررہ پر اٹھاتا ہے تو تھوڑی تنگی ہوتی ہے مگر میں حسب عادت نہ صرف یہ کہ فون کی گھنٹی بند نہیں کرتا بلکہ فون اٹھاتا بھی ہوں‘ لہٰذا اس روز بھی ملک خالد سے بات ہوتی ہے جو عموماً ملک کی سیاسی صورتحال پر ہوتی ہے۔ تاہم ملک خالد کبھی کبھار بڑی شرپسندانہ گفتگو کرتا ہے۔ الٹے الٹے سوالات کرے گا۔ مفسدانہ خیالات کا اظہار کرے گا اور محض چسکے لینے کی غرض سے فساد فی الارض پیدا کرنے کی تگ و دو کرے گا۔ کل صبح بھی اس نے ایسا ہی فون کیا۔ میں رات قریب تین بجے واپس گھر آیا اور ساڑھے تین بجے بمشکل سویا۔ پانچ بجے دوبارہ اٹھا‘ نماز پڑھ کر اخبارات اٹھائے‘ آدھ پون گھنٹہ ان پر صرف کر کے چھ بجے کے قریب دوبارہ سو گیا۔ ارادہ تھا کہ دس بجے اٹھوں گا تاہم ایک خیال یہ بھی آیا کہ اور کسی کا فون آئے یا نہ آئے ملک خالد کا فون بہرحال نو بجے ضرور آئے گا۔ پھر ایسے ہی گمان کیا کہ ممکن ہے آج اس کا فون نہ آئے۔ کبھی کبھار اس کا فون نہیں بھی آتا۔ کیا خبر آج وہی ”کبھی کبھار‘‘ والا دن ہو۔ لیکن یہ گمان خام ثابت ہوا‘ نو بجے ملک کا فون آ گیا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا یہ بتائو‘ میاں صاحب لاہور کیوں بیٹھے ہیں؟ میں سمجھ گیا کہ آج ملک خالد آمادہ بہ شر پسندی ہے۔ جس روز وہ اس موڈ میں ہو اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے۔ خلاف معمول وہ دوسرے کی بات بھی سنتا ہے بلکہ وہ اس روز صرف دوسروں کی بات ہی سنتا ہے، خود صرف سوالات کرتا ہے۔
پوچھنے لگا‘ میاں صاحب لندن سے واپس آ کر لاہور کیوں بیٹھ گئے ہیں؟ میں نے کہا ان کی طبیعت ناساز ہے ‘ لہٰذا ابھی آرام کی غرض سے لاہور میں ہیں۔ طبیعت سنبھلے گی تو اسلام آباد بھی چلے جائیں گے۔ کہنے لگا طبیعت کتنی خراب ہے؟ میں نے کہا میں نہ تو ان کا معالج ہوں اور نہ ہی اس شعبے میں کوئی شد بد رکھتا ہوں‘ میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ ان کی طبیعت کتنی خراب ہے؟ ملک کہنے لگا تمہیں پتہ ہے وزیراعظم ”غیر فعال‘‘ ہیں؟ میں نے کہا یہ لفظ بڑے خطرناک مفہوم کا حامل ہے‘ کیا تم یہ بات سوچ سمجھ کر کہہ رہے ہو یا الفاظ کے چنائو میں غلطی ہوئی ہے؟ ملک کہنے لگا میں یہ لفظ اسی تناظر میں استعمال کر رہا ہوں جو تم سمجھ رہے ہو اور جو اس کا حقیقی مفہوم ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ یہ بات کس بنیاد پر کہہ رہا ہے۔ ملک کہنے لگا، وزیراعظم انچاس دن لندن میں رہے ہیں۔ بائی پاس کا نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی آثار۔ ہسپتال سے چوتھے پانچویں دن روانگی کا منظر کیمرے نے دکھایا ہے‘ اس میں وزیر اعظم اتنے ہشاش بشاش اور تروتازہ لگ رہے ہیں کہ لگتا ہی نہیں اوپن ہارٹ سرجری کے بعد ہسپتال سے چوتھے ہی دن رخصت ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے کسی ہریسے والی دکان سے پیٹ پوجا کر کے نکل رہے ہیں‘ نہ چہرے سے کوئی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے اور نہ ہی بیماری سے اٹھنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ہم نے زندگی میں درجنوں لوگوں کو بائی پاس یا اوپن ہارٹ سرجری کے بعد ہسپتالوں میں دیکھا ہے۔ ہسپتالوں سے فارغ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ہفتہ دس دن بعد ملاقاتیں کی ہیں۔ اتنا تندرست و توانا اور فٹ فاٹ مریض اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر دو دن بعد ”ہیرڈز‘‘ میں خریداری کرتے ہوئے پھر رہے ہیں‘ یہ سب کیا تھا؟
میں نے کہا ملک تم بات دوسری طرف لے جا رہے ہو۔ میں تمہاری گفتگو میں استعمال ہونے والے لفظ ”غیر فعال‘‘ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں اور تُم وزیراعظم کے آپریشن کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو۔ میں کوئی اور بات پوچھ رہا ہوں اور تم کوئی اور بات بتا رہے ہو۔ ملک کہنے لگا یہ تمہاری سمجھ کا قصور ہے کہ تُم میری بات سمجھ نہیں رہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ انچاس دن کی غیر حاضری دراصل غیر فعالیت تھی اور اس کا منطقی جواز پیدا کرنے کے لیے ایک بڑی بیماری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تاکہ اتنے دن کی غیر حاضری یعنی غیر فعالیت کا جواز پیش کیا جا سکے۔ اب تم خود بتائو‘ چوتھے دن ہسپتال سے فارغ ہو کر بازار میں مسلسل خریداری کرنے میں مصروف وزی اعظم کو اسلام آباد جانے میں کیا قباحت ہے؟ لندن میں کیمپ آفس چلانے والے وزیر اعظم کو دو مہینے بعد دفتر جانے میں کیا امر مانع ہے؟ آخر وہ رائیونڈ کیوں بیٹھے ہیں، اگر طبیعت ناساز ہے تو پھر ماڈل ٹائون والے گھر کیوں نہیں آئے؟ لاہور شہر میں رہنا زیادہ سودمند اور بہتر تھا۔ آخر رائیونڈ کیوں؟
میں نے کہا، وزیر اعظم وہاں زیادہ آرام محسوس کرتے ہوں گے۔ کھلی فضا ہے‘ سبزہ ہے‘ آب و ہوا بہتر ہے، ساتھ ہی شریف میڈیکل کمپلیکس ہے۔ سارا خاندان ہمراہ ہے۔ وہاں وہ خود کو کمفرٹیبل محسوس کرتے ہوں گے۔ ملک ہنسا اور کہنے لگا‘ آخر سارا خاندان عید سے پہلے لندن کیوں دوڑا چلا گیا تھا؟
عید سے دو دن پہلے اکیلے میاں صاحب پاکستان کیوں نہ آ گئے؟ میں نے کہا ڈاکٹروں نے شاید اجازت نہ دی ہو گی۔ ملک پھر ہنسنے لگ پڑا۔ کہنے لگا یا تم بھولے ہو یا بھولے بن رہے ہو۔ عزیزم ! ڈاکٹروں کا تو اس میں کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں۔ میاں صاحب کی غیر فعالیت اور خاندان کے لندن آنے کی وجوہات علیحدہ علیحدہ ہیں۔ غیر فعالیت کی وجہ وہی جانتے ہیں جنہوں نے اس پر مجبور کیا ہے۔ جواباً میاں صاحب بھی اپنی مرضی کی غیر فعالیت پر تُل گئے ہیں۔ محمود اچکزئی کی ہرزہ سرائی پر وہ خاموش رہے اور اب تک خاموش ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کی تازہ ترین لہر پر بھی وہ خاموش ہیں۔ بھلا باقی دنیا ہمارے حق میں یا کشمیریوں کے حق میں کیوں بولے گی جب ہمارا وزیراعظم ہی چپ ہے۔ ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے‘ درجنوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں‘ ایک رپورٹ کے مطابق سو سے زائد کشمیریوں کو بندوق کے چھروں سے بصارت سے محروم کیا جا چکا ہے۔ ایک 14 سالہ کشمیری بچی انشا ملک کی ایسی ہی دردناک تصویر نے پورے سوشل میڈیا اور دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگر ہمارے وزیراعظم جو خود کشمیری ہونے کے دعویدار ہیں اور ان کے دور حکومت میں اقتدار کے ایوانوں میں جتنا حصہ ان کو ملا ہے اس کو سامنے رکھیں تو وزیراعظم واقعی کشمیریوں سے بڑی محبت کرتے ہیں مگر صرف اقربا پروری کی حد تک۔ وہ لاہور کے کشمیریوں کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر وادی کے
مظلوم‘ مجبور اورمقہورکشمیریوں کے لیے ان کے پاس زبانی بیان جاری کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ سکت۔ ہم دنیا سے کشمیر کے مسئلے پر حمایت طلب کر رہے ہیں لیکن خود ہمارا حکمران اس سلسلے میں چپ سادھے بیٹھا ہے۔ اوپر سے کشمیر کمیٹی جو عرصہ دراز سے مولانا فضل الرحمان کی گود میں بیٹھی ہوئی ہے خاموش ہے۔ صرف ایک ڈھیلے سے بیان کے بعد مولانا کا خیال ہے کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں جو فوائد اٹھائے ہیں اور موج میلا کیا ہے‘ اس کا حق ادا ہو گیا ہے۔ جتنا پیسہ کشمیر کے نام پر مولانا فضل الرحمن کی ذات پر ضائع ہوا ہے وہ شاید ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔ مگر مولانا کو ٹکے کی فکر نہیں کہ انہوں نے اس سارے خرچے اور اس کے عوض کارکردگی کا ایک دن حساب دینا ہے۔ یہاں تو خیر کس نے حساب مانگنا ہے کہ جنہوں نے حساب مانگنا ہے وہ خود ہی یہ ساری غلط بخشیاں کر رہے ہیں اور ان کا مقصد بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنا نہیں‘ مولانا فضل الرحمن جو بذات خود ایک مسئلہ ہیں کو حل کرنا ہے اور الحمد للہ حکومت نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے نام پر مولانا فضل الرحمن کو وزیر کے برابر جو پروٹوکول عطا کر رکھا ہے وہ بنیادی طور پر ایک سرکاری رشوت ہے۔ مولانا کو تو مسئلہ کشمیر کے نام سے بھرپور فائدہ ہوا ہے البتہ مسئلہ کشمیر کو مولانا کے صدقے ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا۔
میں نے کہا‘ ملک بات کہیں اور سے نکل گئی ہے۔ ملک کہنے لگا یہ بات بھی میرے تھیسس سے متعلق ہی تھی۔ وزیراعظم کو باقی معاملات میں غیر فعال کیا گیا اور وہ بالکل ہی غیر فعال ہو گئے۔ ملکی سالمیت پر‘ ملک کی جغرافیائی سلامتی پر‘ ملک کی شاہ رگ کشمیر پر اور بھارت کی مذمت پر‘ ہر چیز پر وہ غیر جانبدار ہو گئے ہیں ‘یہ قومی لیڈر کا شعار نہیں ہے۔ اگر وہ صحت مند ہیں تو اسلام آباد جائیں اور امور سلطنت سرانجام دیں۔ اگر بیمار ہیں تو گھر بیٹھیں‘ آرام کریں‘ علاج کروائیں اور وزارت عظمیٰ کسی کے حوالے کریں‘ خواہ اسحاق ڈار کو دیں ‘خواہ چوہدری نثار کو دیں۔ ان کی مرضی شہباز شریف کو دیں یا مریم نواز کے حوالے کریں مگر کوئی تو فیصلہ کریں۔ ادھر اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ عید سے دو دن پہلے سارے خاندان کو لندن اکٹھا کرنے کا مقصد کچھ اور ہے اور اب رائیونڈ میں بیٹھنے کا معاملہ بھی وہی ہے جس کے لیے سب لندن میں جمع ہوئے تھے۔ یہ خاندان کی ولی عہدی کا معاملہ ہے۔ پہلے یہ
طے تھا کہ میاں نوازشریف پر تیسری ٹرم کے لیے آئینی پابندی کی صورت میں شہبازشریف ان کے جانشین کے طور پر وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے امیدوار ہوں گے مگر اٹھارہویں ترمیم نے جیسے ہی دوبارہ وزیراعظم بننے کی شرط ختم کی ‘میاں نوازشریف تیسری بار بھی وزیراعظم بن گئے اور اب چوتھی‘ پانچویں یا چھٹی بار وزیراعظم بننے پر بھی کوئی پابندی باقی نہیں۔ تاہم اب اصل وجہ تنازع یہ ہے کہ میاں صاحب نے اپنا ولی عہد بدل لیا ہے۔ بالکل اردن کے شاہ حسین کی طرح۔ ساری عمر اس نے اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ حسن کو اپنا ولی عہد بنائے رکھا اور آخر میں امریکی ہدایت پر اپنے بیٹے شہزادہ عبداللہ کو ولی عہد نامزد کیا اور خود اگلے جہان رخصت ہو گیا۔ اب شہزادے حسن کا پتہ نہیں کہ کہاں ہے‘ البتہ عبداللہ سلطنت ہاشمیہ اردن کا بادشاہ ہے۔ شریف خاندان میں ولی عہدی کا مسئلہ خاصا گرم ہے اور متنازع بھی۔ اس پر تفصیل کبھی پھر سہی‘ فی الحال تو میاں صاحب کی صحت کا معاملہ درپیش ہے۔
آئین کہتا ہے کہ جسمانی یا ذہنی معذوری کی صورت میں صدر کا مواخذہ تک ہو سکتاہے۔ وزارت عظمیٰ کے معاملے پر مواخذے کی ضرورت نہیں۔ پارلیمانی پارٹی نیا وزیراعظم منتخب کر سکتی ہے۔ وزیراعظم تقریباً دس بار صرف صحت کے مسئلے پر ولایت تشریف لے جا چکے ہیں۔ قوم کو صحت مند اور مستعد وزیراعظم کی ضرورت ہے۔ ملک ہر طرف سے خطرے میں ہے۔ چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار ہے۔ امریکہ بہادر ایک طرف تسلیاں دے رہا ہے دوسری طرف دھمکا رہا ہے۔ سڑکوں پر کھمبوں پر بینر لگ رہے ہیں۔ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا معاملہ بظاہر سیریس نہیں لگتا مگر اب واقعی سیریس ہو چکا ہے۔ معاملہ صرف ایک سال اور تین سال کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ دینے والے ایک سال اور لینے والے تین سال پر اڑے ہوئے ہیں۔ ایسے سٹریس میں بھلا علیل وزیراعظم کیا کر سکتا ہے؟ بلکہ یہ چیز علالت مزید نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔
میں نے کہا ملک تم ایک دوسرے سے متضاد باتیں کر رہے ہو۔ کبھی بیماری کو تسلیم نہیں کرتے اور کبھی علالت کا ذکر کرتے ہو۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ ملک کہنے لگا وزیراعظم علیل تو ہیں مگر علالت وہ نہیں جو بتائی جا رہی ہے۔ وہ سٹریس میں ہیں اور دو طرفہ سٹریس میں ہیں۔ باہر سے بھی اور اندر سے بھی‘ کوئی ایک ہوتی تو بھگتا لیتے۔