منتخب کردہ کالم

فاروق ستار کی تشویش! (سچ یہ ہے) الیاس شاکر

ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی پاکستان کی روایتی سیاست میں قدم رکھ دیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک مشاورتی نشست انہوں نے اخباری ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں کے ساتھ منعقد کی۔ سیاست پر باتیں ہوئیں۔ حالِ دل سنایا۔ مشورے لئے۔ اور اپنا مقدمہ سلیقے اور قرینے سے پیش کیا۔ اس ملاقات میں باتیں بھی اچھی ہوئیں اور کھانا بھی اچھا تھا۔ بہت سی وہ باتیں بھی سامنے آئیں جن کا پہلے کسی کو علم نہیں تھا۔ فاروق ستار نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ وہ اپنے سابق ساتھیوں اور بانی لیڈر کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے‘ کیونکہ اب نہ اس کی ضرورت باقی رہی اور نہ ہی اُن کا کوئی ایسا منفی سیاسی ایجنڈا ہے‘ جس کے ذریعے کیچڑ ہی اچھالا جاتا رہے۔
فاروق ستار نے یہ ”بیٹھک‘‘ اس لئے رکھی تھی کہ وہ مردم شماری کے حوالے سے دیہی اور شہری سندھ کی آبادی میں بڑھائے جانے والے فرق اور ”ایڈوانس دھاندلی‘‘ پر اپنی بے چینی کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ کئی ثبوتوں کے ساتھ ایک روز قبل ہی سپریم کورٹ بھی پہنچ گئے تھے۔ سینئر صحافیوں کا پلیٹ فارم بھی انہوں نے اچھے طریقے سے استعمال کیا۔ سچ یہ ہے کہ فاروق ستار سندھ کی شہری سیاست میں وہ پہلے شخص ہیں جس نے آبادی کے اس ”گورکھ دھندے‘‘ کو دگنا اور تگنا کرنے کے خفیہ کھیل کو بروقت پکڑ لیا‘ اور ثبوتوں کے ساتھ بات کی‘ کہ کراچی کے مقابلے میں گھوٹکی اور شکار پورکی آبادی کو چار گنا بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے۔ فاروق ستار کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ سندھ میں یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے۔ انہیں یہ خدشات بھی تھے کہ ماضی کی مردم شماریاں بھی ایسی ہی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی اموات سب سے زیادہ دیہی سندھ میں ہوتی ہیں‘ لیکن حیرت انگیز طور پر دیہی سندھ کی آبادی چار گنا بڑھ رہی ہے‘ اور وسائل کے اعتبار سے نسبتاً بہتر شہری علاقوں کی آبادی نہیں بڑھ رہی۔ تحریکِ انصاف کراچی میں ووٹ لینے کی دعوے دار ہے تو جماعت اسلامی بھی کراچی پر اپنا حق سمجھتی ہے‘ لیکن سندھ میں مردم شماری کے عمل پر اب تک کوئی سیاسی جماعت آگے نہیں آئی… اور نہ ہی کسی نے اس موضوع پر ”ہوم ورک‘‘ کیا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کے سیاستدانوں نے اس سے پہلے کبھی ایسی سیاست نہیں کی کہ آبادی میں ”نقب‘‘ لگانے والوں کو پکڑ لیں‘ لیکن اب شاید ایسا نہ ہو پائے اور پاک فوج اُن نقب زنوں پر بھی ہاتھ ڈال سکتی ہے۔
فاروق ستار نے مردم شماری سے پہلے ”منظم دھاندلی‘‘ کے خلاف کئی تجاویز پیش کیں‘ اور یہ انکشاف بھی کیا کہ ابتدائی بلاکس بنا کر ظاہر کیا گیا ہے کہ دیہی سندھ میں بلاکس کی تعداد 21381 (اکیس ہزار تین سو اکیاسی) ہے جبکہ شہری سندھ (کراچی‘ حیدر آباد‘ سکھر) میں سترہ چار سو چھیانوے بلاکس بنائے گئے ہیں۔ فاروق ستار خوف زدہ ہیں کہ جس مردم شماری کا آغاز ہی غلط ہے تو انجام کیسا ہو گا؟ اور نتائج کیا نکلیں گے؟
لگتا ہے کہ سندھ میں مردم شماری کا کھیل گزشتہ مردم شماری کی طرح جعلسازی کے ساتھ نہیں ہو پائے گا۔ فوج کی نگرانی میں ہونے والی حالیہ مردم شماری میں یہ مشکل ہو گا کہ مردم شماری آبادی کے بجائے خواہشات کی بنا پر کی جائے۔ فاروق ستار کے خدشات اگر درست ہیں تو وفاق اور فوج کو ان کی بات سننا پڑے گی۔ وہ اپنی شکایات اس لئے سپریم کورٹ نہیں لے کر گئے کہ کوئی حکم امتناعی آ جائے اور مردم شماری کا عمل رک جائے‘ بلکہ آبادی کے درست اعداد و شمار منظر عام پر لانا ان کا مقصد اور مشن لگتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی مانگا ہی نہیں۔ سندھ کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور مردم شماری واحد ذریعہ ہے جس سے سندھ میں درست حلقہ بندیاں ہو سکتی ہیں‘ جس کے بعد ہونے والے الیکشن سے ہی اصل جمہوری حکومت سامنے آ سکتی ہے۔ فاروق ستار بہت ٹھنڈے اور دھیمے لہجے میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مردم شماری کا کام انتہائی ایمانداری کے ساتھ کیا جائے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کوئی گروہ‘ آبادی یا پارٹی اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور عوام کے حق پر ڈاکہ نہ مارے۔
فاروق ستار ایک طرف اپنی ہی پارٹی کے دو گروپوں سے لڑ رہے ہیں‘ انہیں لندن کی سیاست کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے‘ تو دوسری جانب انہوں نے نام لئے بغیر مصطفی کمال کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ان کی پارٹی بھی رکاوٹیں ڈال رہی ہے‘ لیکن ان کی مسکراہٹ کہہ رہی تھی کہ ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ایک سوال کے جواب میں فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 22 اگست سے پہلے والی ایم کیو ایم کے ستر فیصد کارکن ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں ان کو متحرک کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے‘ لیکن چونکہ تیس سے پینتیس سال تک ہم ایک ہی شخص کے گن گاتے رہے… ان کی شخصیت سازی کرتے رہے… اس لئے کچھ لوگوں کو اس سحر سے نکلنے میں وقت لگ رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب انتخاب کا مرحلہ آئے گا تو ایم کیو ایم پاکستان بہت متحرک و منظم ہو چکی ہو گی… اور اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے قابل بھی ہو جائے گی۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اگر ہمیں نائن زیرو نہیں دے رہے تو نہ دیں کم از کم ایم پی اے ہاسٹل ہی دے دیں۔ بہادر آباد اور گلشن اقبال کے مسمار نہ کئے جانے والے دفاتر بھی دے دیے جائیں تاکہ ہم کھل کر کام کر سکیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ فاروق ستار نے اس طرح کھل کر بات کی۔ دیگر سیاسی جماعتیں جس طرح مشاورت اور گفتگو کرتی ہیں‘ اس سے سوچ کو ایک وسعت ملتی ہے اور کسی نئے اقدام سے پہلے ہی غلطیوں کی روک تھام ہو جاتی ہے۔ فاروق ستار کو ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا انہیں چاہیے کہ وہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی پریس کانفرنس کریں‘ ملکی سیاست کریں اور قومی لیڈر بنیں‘ صرف کراچی کی بات کرنے سے وہ قومی دھارے میں شامل نہیں ہو سکتے اور قومی دھارے میں شامل ہوئے بغیر وہ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔