کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاںآگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کیفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہائوسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤ نظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحمت کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا اور پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ فاروق ستار نے اتنا بڑا ایکشن بہت آسانی سے لے لیا جو کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آیا اورکچھ لوگوں نے سمجھا کہ معاملہ بہتر ہوگیا، لیکن پاک سرزمین پارٹی نے تبصرے اور تنقید کا پہلا پتھر پھینکا اور کہا کہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے؛ جو نظر آ رہا ہے وہ صحیح نہیں، یہ ایک چال ہے۔ فاروق ستار معصوم آدمی ہیں، انہوں نے صرف پریس کانفرنس کی ہے، پارٹی کے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور نہ ہی طاقتور عہدہ حاصل کیا ہے، اِن نمائشی اقدامات سے اس قدر بڑے سانحے کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ منٹوں بعد ہی فاروق ستار کے اقتدار کے چمکتے سورج پر نکتہ چینی شروع کردی گئی۔ فاروق ستار کو بڑا کردار ادا کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہوں نے ایسی کوئی کوشش کی۔ فاروق ستار کو جن اقدامات کا اعلان کرنا چاہیے تھاوہ نہیں ہوئے۔ فاروق ستار اس معاملے میں خاموش رہے۔
فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے بعد ٹی وی چینلز پر ”پرائم ٹائم‘‘ کا آغاز ہوا۔اینکرزسوالات کی چھریاں اورتنقید کے خنجر لے کر تیار بیٹھے تھے۔ ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے لند ن سے مصطفی عزیز آبادی اور کراچی سے ڈاکٹر عامر لیاقت کو اپنے پروگرام میںشریک کیا۔ بس پھر کیا تھا، کم ہوتا درجہ حرارت اچانک بڑھنا شروع ہوگیا اور پھر اِسی پروگرام میں ایم کیو ایم کی ترجمانی کرنے والے عامر لیاقت نے ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے پروگرام کے دوران یہ بھی انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے کنٹرول نہیں ہوگی اورفاروق ستار نے لندن کی رابطہ کمیٹی کی مشاورت کے بعد پریس کانفرنس کی ہے۔ ان باتوں کے بعد فاروق ستار کی پریس کانفرنس پر اٹھنے والے سوالات کے جواب بھی آنے لگے اورمعاملہ پھر گرم ہونا شروع ہوگیا۔
سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹرفاروق ستار ایم کیو ایم کے کنوینر بھی نہیں ہیں، وہ تو ڈپٹی کنوینر ہیں۔پاک سرزمین پارٹی کے رہنما رضا ہارون نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایم کیو ایم کے آئین میں آج بھی موجود ہے کہ ایم کیو ایم کے سپریم لیڈر الطاف حسین ہیں۔ ویٹو پاور بھی الطاف حسین کے پاس ہے۔ الطاف حسین اول و آخر ہیں، مطلب یہ کہ سکے کو سیدھا کرو تو ایم کیو ایم اور الٹا کرو تو الطاف حسین۔ ایم کیو ایم کے تمام لوگ الطاف حسین کے حکم پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔
بعض نقاد کہتے ہیںکہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو بھی معطل نہیں کیا جو کسی بھی وقت انہیں معطل کر سکتی ہے۔ انہوں نے نہ لندن کی رابطہ کمیٹی کے خاتمے کا کوئی اعلان کیا نہ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے کا کوئی حکم سنایا اورنہ ہی اپنی کوئی رابطہ کمیٹی بنائی۔ انہیں پارٹی آئین میں ترامیم کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اپنی نہیں ”پاکستان زندہ باد‘‘ کی حامی رابطہ کمیٹی کا اعلان کرنا چاہیے تھا اور سب سے پہلے اپنے تنظیمی عہدے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ یہ سب کچھ تو میر تقی میرؔ کے اس شعر کی طرح ہوا ؎
فقیرانہ آئے ‘ صدا کر چلے
میاں خوش رہو ‘ ہم دعا کر چلے
ڈاکٹرفاروق ستار جب گھر سے نکلے تو 15دن کے لئے کپڑے‘ ٹائیاں‘ سوٹ ودیگر سامان ان کی گاڑی میں تھا جو ہوٹل کے بعد کہیں نظر نہیں آیا اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان سے پریس کانفرنس میں کسی صحافی نے بھی یہ سوال نہیں کیا۔ باخبر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”بغاوت‘‘ کا یہ معاملہ 15دن کا ہی ہوگا۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد سے اعلان لاتعلقی کیا گیا ہو۔ ماضی میں ایسے اعلانات ایم کیو ایم کی جانب سے کارکنوں کے لئے ”ہینڈ آئوٹ‘‘کی صورت میں فیکس اور ای میل پر آتے تھے۔
فاروق ستار کی بغاوت کو ”دوستانہ بغاوت‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ بعض لوگ اسے پلانٹڈ کارروائی سے تشبیہ دے رہے ہیں اور کچھ دانشوروں نے اسے ایم کیو ایم بچانے کا ”مفاہمتی فارمولا‘‘ قرار دیا ہے۔ ترکی کی بغاوت دیکھنے والے اِسے بغاوت کا وہ ”بچہ‘‘ بھی کہہ رہے ہیں جو شکم سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعض انگریزی دان اسے ”لاسٹ آپشن‘‘ بھی گردانتے ہیں۔
کراچی میں قانون کی عجیب و غریب تصویر بھی نظر آئی جب ایک ہی مقدمے میں ایم کیو ایم کے تین رہنمائوں کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جا رہا تھا اسی دوران اس مقدمے کے دیگر ملزمان پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن پہلی بار ”اندھا قانون‘‘ دیکھتا بھی نصیب ہوا۔
لگتا ہے کہ کراچی میں ایسے کئی ”فائول پلے‘‘ ہوں گے جن میں یا تو مطلوبہ مقصد حاصل ہو جائے گا یا اصل ٹارگٹ ہی گم ہو جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور رینجرز یہ فیصلہ کرلیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ اسے متحرک رہنے دینا ہے یا اسے جامد کرنا ہے ؟ لیکن آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی چھوڑنی پڑے گی۔ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے والے فاروق ستار کے سامنے کئی مسائل ہوں گے۔ اتنی بڑی پارٹی کو چلانے کے لئے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ کیونکہ نائن زیرو کے تمام دفاتر سیل ہو چکے ہیںاور اسٹیشنری تک اندر رہ گئی ہے۔ جن یونٹ آفسز سے روزانہ کے اخراجات کے لئے چندہ آتا تھا وہ بھی بندہوگئے ہیں۔ دو‘ تین دن کے اندر فاروق ستارکی ٹیم کو سمجھ آجائے گی کہ اتنے بڑے سیٹ اپ کو چلانے کے لئے کتنے وسائل درکار ہوں گے اور یہ کہاں سے آئیں گے؟
کراچی یورپ کے دس پندرہ ممالک سے بڑا شہر ہے۔ اس کی سڑکیں ساڑھے پانچ ہزارمیل تک پھیلی ہوئی ہیں جس کے لئے مواصلات کا مضبوط نظام چاہیے اور کیا ایم کیو ایم لندن ‘ پاک سرزمین پارٹی‘ تحریک انصاف‘جماعت اسلامی اور جہادی تنظیمیں فاروق ستار کو آسانی سے سیاست کرنے دیں گی؟ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کے لئے بہت ساری مشکلات منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ انہیں ایم کیو ایم کی بکھری ہوئی طاقت کو مجتمع کرنا ہے تاکہ ایم کیو ایم جس بحران کا شکار ہوئی ہے اس کے ”مال غنیمت‘‘ کو حاسدین اور دشمن لوٹ کر نہ لے جائیں۔ ایم کیو ایم ایک اچانک تھونپے جانے والے امتحان میں مبتلا ہوئی ہے اور اس امتحان میں انہیں سرخرو ہونا ہے جس میں غلطی کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لئے کہ ایم کیو ایم پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ کئی لشکروں سے مل کربننے والا ایک لشکر ہے جس کو کنٹرول میں رکھنا اور اس کی طاقت سے مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنا ہی اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری ہوگی۔ ایم کیو ایم کافلسفہ تھا کہ ”منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ لیکن اب فاروق ستار نے رہنما سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، اعلان لاتعلقی کردیا ہے اور منزل کے بارے میں کچھ بتایا بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں لگتا ہے کہ کہیں اندھیروںمیں گم نہ ہوجائے کاررواں اپنا۔ فاروق ستار کو اس وقت ایم کیو ایم کو بھی بچانا ہے اور ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو بھی بچانا ہے۔ ایم کیو ایم کی اصل طاقت اس کا ووٹ بینک ہے، دیکھنا یہ ہے کہ متحد رہ پاتا ہے یا بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔