میری آپ کی اور ہم سب کی فاطمہ بجیا بھی اپنی مقرر کردہ سانسیں پوری کرنے کے بعد اب اس منطقے میں داخل ہو گئی ہیں جس میں ہمارے بڑے اور پیارے ہماری آمد اور شمولیت کے منتظر ہیں کہ رب کریم نے یہ سلسلہ اسی طرح سے طے فرمایا ہے۔ بجیا کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جسے اگر ’’ہمہ خانہ آفتاب‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
مجھے اس خانوادے کے کچھ بزرگوں سے بھی ملنے کا موقع ملا ہے جن میں علی مقصود حمیدی صاحب کا نام سرفہرست ہے کہ احمد ندیم قاسمی مرحوم کی معرفت لاہور میں ان سے رابطہ رہا اور سچی بات یہ ہے کہ یوپی کے جس کلچر کا ذکر سنتے پڑھتے اور فلموں وغیرہ میں دیکھتے آئے تھے اس کی عملی شکل پہلی بار حمیدی صاحب ہی کی شکل میں دیکھی جو بلاشبہ ایک بہت خوشگوار اور دلچسپ تجربہ تھا۔
ستر کی دہائی کے وسط میں برادرم انور مقصود ان کے بیوروکریٹ بھائی احمد مقصود حمیدی، زہرہ آپا (زہرہ نگاہ) اور فاطمہ ثریا بجیا سے ذاتی تعارف ہوا جو بتدریج ایک قریبی اور گہرے تعلق میں ڈھلتا چلا گیا۔ یہ زمانہ ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے بجیا کے عروج اور انتہائی مصروفیت کا زمانہ تھا کہ ان دنوں وہ اس وقت کے مقبول معاشرتی نوعیت کے ناولوں کو ڈرامے کا روپ دے رہی تھیں اور یوں ٹی وی اسکرین پر بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی کا مسلم معاشرہ اپنی تمام اچھائیوں اور خامیوں سمیت ایسی مہارت اور باریک جزئیات کے ساتھ پیش ہوا جو اپنی مثال آپ ہے اور اس کا سارا کریڈٹ فاطمہ ثریا بجیا ہی کو جاتا ہے۔
ان سے ملاقات سے قبل ان کے نام سے منسلک ’’بجیا‘‘ کا لاحقہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ان کا تخلص ہے خاندان یا ذات برادری کے حوالے سے نام کا حصہ ہے یا کچھ اور لیکن جس محبت اور شفقت سے مجھ سمیت وہ اپنے تمام جونیئرز سے مل رہی تھیں اس نے بغیر کسی کی مدد لیے یہ معمہ حل کر دیا کہ وہ سر تا پا ایک بڑی بہن کا روپ تھیں اور یہ بجیا بڑی بہنوں کے لیے استعمال ہونے والے تخاطب ’’باجی‘‘ ہی کا ایک روپ تھا۔
جس محبت سے وہ اپنے سے چھوٹوں سے ملتیں اور ان کے صدقے واری جاتیں وہ منظر دیدنی ہوتا تھا۔ اسی طرح ان کی اپنے ڈراموں کے کرداروں، سیٹ ڈیزائن اور ملبوسات کے انتخاب سے وہ غیر معمولی دلچسپی بھی تھی جس کا ذکر اکثر و بیشتر سننے میں آتا تھا کہ وہ لڑکیوں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خود جا کر ڈرامے کے کرداروں کی مناسبت سے ان کا انتخاب کرتیں انھیں اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے وہ طریقے سمجھاتیں جو ان کے ڈرامے کی تہذیبی فضا کا حصہ تھے۔
سیٹ ڈیزائنگ اور متعلقہ پراپس (Props) میں مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ خود کئی ایسی پراپس مہیا کرتیں جو اب بازار میں دستیاب نہیں تھیں اور اپنی نگرانی میں تمام ملبوسات تیار کرواتیں کہ ڈرامہ نگاری Profession سے زیادہ ان کا Passion تھا۔
زرق برق ملبوسات اور شادی بیاہ کے رسم و رواج کی تفصیلات کے حوالے سے بجیا کے ڈراموں پر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ ان کی وجہ سے ہمارے معاشرے بالخصوص مڈل اور اپر کلاس میں کئی کئی دنوں پر پھیلی ہوئی تقریبات کا فیشن چل پڑا جس نے آگے چل کر غریب اور کم وسیلہ والدین کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کر دیے لیکن میرے خیال میں یہ الزام صحیح نہیں کہ اس میں جزوی صداقت تو ہو سکتی ہے مگر اس نمود و نمائش کی اصل وجہ وہ ناجائز یا کم محنت سے کمائی ہوئی ضرورت سے زیادہ دولت تھی جس نے اپنے اظہار کے لیے یہ رستہ نکال لیا۔
بجیا کے ڈراموں کے کردار اور ان کے اسکرین پلے اپنے موضوع اور تہذیبی پس منظر سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور طرز تحریر سادہ اور رواں دواں تھا۔ وہ بڑے چست مکالمے لکھتی تھیں جن کی وجہ سے ان کے بیشتر کردار عوامی سطح پر بھی بہت مقبول ہوئے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے وہ بھی کئی دوسرے سینئر لکھنے والوں کی طرح کم لکھ رہی تھیں کہ اب ان کی بات سمجھنے اور قدر پہچاننے والے لوگ الیکٹرانک میڈیا میں تیزی سے کم ہو رہے تھے لیکن جتنا کچھ بھی انھوں نے لکھا اور جس معیار کا لکھا وہ اس بات کی ضمانت ہے کہ ان کے نام اور کام کو بہت دنوں تک یاد رکھا جائے گا اور ٹی وی ڈرامے کی تاریخ میں ان کی جگہ قائم اور مستحکم رہے گی۔
آج صبح کے اخبار میں ان کی تدفین کی خبر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احسن اختر ناز کی رحلت کی چند سطری خبر بھی نظر سے گزری تو غم کے دریا میں ایک اور موج کا اضافہ ہو گیا۔ احسن اختر ناز پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے معروف استاد تھے کافی عرصے تک صدر شعبہ بھی رہے۔
بہت دلچسپ، زندہ دل اور محبتی استاد اور انسان تھے۔ گزشتہ کچھ ملاقاتوں میں وہ یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض رویوں سے شاکی اور ناخوش تو نظر آئے مگر ان کے مزاج کی شگفتگی اسی طرح تھی۔ رب کریم ان کی روح پر اپنا کرم فرمائے۔جہاں تک فاطمہ ثریا بجیا کی رحلت کا تعلق ہے تو میرے نزدیک یہ ایک ذاتی نقصان کے ساتھ ساتھ معاشرتی نقصان بھی ہے کہ ایسے اہل ہنر اور باکمال لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے