منتخب کردہ کالم

فرسٹریشن …؟‘‘ .. کالم رئوف طاہر

فرسٹریشن …؟‘‘ .. کالم رئوف طاہر

”اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ ملی ہوئی ہے‘‘ خواجہ سعد رفیق یہ کہہ کر ٹال گئے کہ وہ کسی سیاسی جوکر کے بیان پر تبصرہ نہیں کریں گے‘ لیکن میڈیا کو تبصروں اور تجزیوں کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہاتھ آ گیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999ء والے ڈکٹیٹر کی برسوں کی رفاقت اور خدمت کا اعزاز رکھنے والے ایک ریٹائرڈ عسکری دانشور بھی فرزند لال حویلی کی اس درفنطنی کو اس کی فرسٹریشن قرار دیئے بغیر نہ رہے۔ اور یہ فرسٹریشن سمجھ میں بھی آتی ہے۔ خواہشات اور توقعات‘ خواب اور خیال بننے لگیں۔ شاعر کے بقول ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سنا افسانہ تھا
اندازے غلط نکلیں اور موصولہ ”اطلاعات‘‘ بھی درست ثابت نہ ہو رہی ہوں تو فرسٹریشن کا غلبہ ہو ہی جاتا ہے اور ساتھ ہی ہذیان کی کیفیت بھی… مذکورہ بالا ”انکشاف‘‘ کے بعد شیخ نے نواز شریف کے متعلق جو الفاظ کہے‘ وہ ہذیان کی کیفیت کے غماز تھے۔
شیخ کی شوخیاں اور شیخیاں آج سے نہیں‘ برسوں سے ہیں۔ تب بھی سیاسی مخالفین کے خلاف ان کی اپنی ”ڈکشن‘‘ تھی‘ ان کی اپنی ”لفظیات‘‘ جو اسی کی ایجاد تھی اور اسی کو ”زیبا‘‘، لاہور کے موچی دروازے اور پنڈی کے لیاقت باغ کے در و دیوار تو اس کے عادی ہو ہی چکے تھے۔ یہ بے نظیر کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور تھا‘ جب وہ پیلے رنگ کے لباس میں پارلیمنٹ ہائوس آئیں اور شیخ نے وہ فقرہ کس دیا کہ ایوان میں سناٹا چھا گیا‘ اس کے اپنے ساتھیوں کو بھی حیرت نے آ لیا تھا۔ تب محترمہ کے پیمانۂ صبر لبالب ہو گیا۔ لال حویلی سے بغیر لائسنس کلاشنکوف برآمد ہو گئی اور اسے سات سال قید بامشقت کے ساتھ بہاولپور جیل پہنچا دیا گیا۔ شیخ نے ابھی آدھی جیل بھی نہیں کاٹی تھی کہ فاروق لغاری کے پریذیڈنٹ ہائوس سے محترمہ کی وزیر اعظم ہائوس سے رخصتی کا حکم نامہ جاری ہو گیا۔ چند روز بعد بہاولپور جیل سے شیخ کی آزادی کا پروانہ بھی آ گیا۔ اس دوران وہ ”فرزند پاکستان‘‘ کے نام سے اپنی سرگزشت لکھ چکا تھا‘ جس میں اس نے اپنے قائد نواز شریف کی تعریف و تحسین میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔
حضرت علیؓ کا قول ہے: ”اس شخص سے ڈرو جو تمہاری تعریف میں وہ ”خوبیاں‘‘ بھی ڈھونڈ نکالتا ہے‘ جو تم میں نہیں کہ کل وہ تمہاری مذمت میں وہ ”برائیاں‘‘ بھی ڈھونڈ نکالے گا جو تم میں نہیں‘‘۔
مسئلہ ایک اور ہے‘ نہایت سنگین مسئلہ۔ 28 جولائی کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو پرائم منسٹر ہائوس سے تو بے دخل کر دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ قومی سیاست سے ان کی بے دخلی کی جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ چپکے سے جاتی اُمرا چلے آنے کے بجائے وہ جی ٹی روڈ پر نکل کھڑا ہوا۔ چار‘ ساڑھے چار گھنٹے کا سفر چار دن لے گیا‘ اور اس دوران ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا سوال اس کی شخصیت کے تاثر کو مزید گہرا کرتا چلا گیا۔ لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں ”نااہل‘‘ وزیر اعظم کی سیاست کو گہرا دفن کر دینے کی امیدیں بھی بر نہ آئیں… حالانکہ اس کے لیے ملی مسلم لیگ اور تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کو میدان میں اتارنے‘ چالیس کے لگ بھگ امیدواروں والا بیلٹ پیپر اور پولنگ کے عمل میں ”go slow‘‘ ٹیکنیک کے باوجود بیگم کلثوم نواز 14 ہزار ووٹوں سے جیت گئیں۔ ان کی شکست کا فول پروف بندوبست بھی کام نہ آیا۔ خان ایسے ہی تو اس ضمنی الیکشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے لیے ریفرنڈم نہیں دے رہا تھا۔ وزیر اعظم کی نااہلی کے ساتھ برسر اقتدار جماعت میں سے ایک اور جماعت نکل آنے کی توقعات بھی نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں۔ 37 ارکان اسمبلی کی فہرست والا ڈرامہ بھی آخرکار ناکام ہو گیا۔ ان ارکان کے ”لیڈر‘‘ ریاض حسین پیرزادہ نے بھی اس دستاویز کا جعلی ہونا تسلیم کر لیا (اور اس کا ایوان میں اعلان بھی کر دیا) ایک ظفراللہ جمالی ہیں‘ بلوچستان کے بزرگ سیاستدان‘ جن کے بارے میں خبر آئی ہے کہ سامان سمیٹ کر ڈیرہ جمالی تشریف لے گئے ہیں۔ ان چار سالوں میں قومی اسمبلی میں شاید یہ ان کی پہلی (اور آخری تقریر) تھی جس میں وہ یہ خواہش (اور دعا بھی) کر رہے تھے کہ ان کی موت سے پہلے اس اسمبلی کو موت آ جائے۔ مرنجاں مرنج جمالی اکتوبر 2007ء کے الیکشن میں ڈکٹیٹر کی نظرِ کرم سے ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم ”منتخب‘‘ ہو گئے تھے۔ اس کے لیے بھی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز میں سے کوئی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ”پیٹریاٹ‘‘ تخلیق کرنے پڑے… ایک ووٹ سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق کا بھی تھا۔ جناب جمالی ڈکٹیٹر کو اپنا ”باس‘‘ قرار دیتے تھے‘ اس کے باوجود اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ دو اڑھائی سال بعد ڈکٹیٹر کے حکم پر استعفیٰ دے کر شوکت عزیز کے لیے پرائم منسٹر کی کرسی خالی کر دی۔ اس دوٍران کوئی ڈیڑھ ماہ کے لیے گجرات کے بڑے چودھری صاحب وزیر اعظم کے طور پر اس منصب پر فائز رہے۔
وزارتِ عظمیٰ (قومی اسمبلی کی رکنیت) سے نااہلی کے ساتھ نواز شریف پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار پائے تھے۔ یہ ڈکٹیٹر کا 2002ء کا قانون تھا۔ 2014ء کے وسط سے انتخابی اصلاحات کے بل پر کام ہو رہا تھا۔ اس میں ڈکٹیٹر کے دور کی اس شق کا خاتمہ بھی شامل تھا‘ جو اس نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے تخلیق کی تھی۔ قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات کا یہ بل نواز شریف کے خلاف 28 جولائی کے فیصلے سے پہلے ہی منظور ہو چکا تھا۔ اس کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود‘ یہاں سے بھی منظور ہو گیا۔ ڈکٹیٹر کے دور کی پیدا کردہ رکاوٹ ختم ہو گئی۔
نئے قانون نے نواز شریف کے لیے مسلم لیگ (ن) کی صدارت کا دروازہ پھر کھول دیا تھا۔ معزول وزیر اعظم آج بھی قومی سیاست میں ایک قدآور لیڈر کے طور پر موجود ہیں۔ چٹان کی طرح ایک ٹھوس سیاسی حقیقت۔ وہ جو کراچی کے رئیس فروغ نے کہا تھا؎
حُسن کو حُسن بنانے میں میرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
اور اس فرسٹریشن کا ہمارے بعض ارباب دانش کو بھی سامنا ہے۔ نواز شریف وزیراعظم نہیں رہے لیکن ان کا جانشین ان سے بے وفائی پر آمادہ نہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا کہ اس کی حکومت معزول وزیر اعظم ہی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ وہ نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ نون کی حکومت کی چار سالہ کارکردگی کا ذکر بھی بڑے فخر سے کرتا ہے۔ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے بھی وہ اپنے لیڈر کا ذکر کرنا نہیں بھولتا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں چھوٹے بھائی کی حکومت اسی جوش و خروش سے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے اور ”بڑے بھائی‘‘سے بے وفائی کا تاثر دینے کو بھی تیار نہیں۔ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بھی نواز شریف کو دوبارہ صدر منتخب کرنے والے اجلاس میں موجود تھا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر والے بھی ”راہ راست‘‘ پر آنے کو آمادہ نہیں۔ ایک تحریک انصاف کے سوا ملک کی کوئی قابل ذکر جماعت نئے انتخابات کا مطالبہ نہیں کرتی۔ (خان کے اتحادی سراج الحق صاحب کی جماعت اسلامی بھی قبل از وقت انتخابات کی مخالف ہے) ملک کا نظام حسب معمول چل رہا ہے۔ نواز شریف کی برطرفی کے بعد‘ (اور پاناما سماعت کے دوران بھی) ملکی معیشت جس صورت حال سے دوچار ہوئی وہ ایک الگ کہانی ہے تشویشناک کہانی۔ لیکن وہ ”بحران‘‘ کہاں ہے جس کا رونا روتے ہوئے ہمارے بعض دانشور اس کے حل کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ اور انہوں نے اس کا حل بھی تجویز کر دیا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کا آئینی طریقہ یہی ہے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی اور وزراء اعلیٰ اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آمادہ ہو جائیں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کو دوسری طرح سمجھایا جائے۔ لیکن کیا یہ طریقہ آئین کی روح کے مطابق ہے؟اور کیا ”کٹھ پتلی‘‘ وزیر اعظم اس پر آمادہ ہو جائیں گے‘ ماضی میں اپنے لیڈر کے ساتھ جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر رہی ہے؟۔