منتخب کردہ کالم

فریادی بنام ٹرمپ صاحب بہادر!! سہیل وڑائچ

فریادی بنام ٹرمپ صاحب بہادر!!

از ولسن پور‘ گھوڑی پال مربع نمبر11
بتاریخ 29 جون 2017ء
بحضور فیضِ گنجور‘ عالم پناہ حاکمِ امریکہ‘ یورپ و بلادِ عرب و خراسان‘ طول عمرہ‘ سلمہ اللہ تعالیٰ!!
جناب عالی!
مودّبانہ گزارش ہے کہ فدوی‘ فریادی نسل در نسل اور پشت در پشت جناب والا تبار اور جناب کے اجداد کا وفادار اور جانثار رہا ہے۔ 1857ء میں غدر ہوا تو میرے پڑدادا حوالدار حیات خان‘ سکاٹ لینڈ کے لمبے تڑنگے اور بہادر جرنیل‘ جنرل نکلسن کے دستے میں شامل تھے۔ جب جنرل نکلسن نے دلی کا محاصرہ کیا تو میرے پڑدادا پیش پیش تھے۔ جب جنرل نکلسن زخمی ہوا تو اسے دلی کی گلیوں سے نکال کر لانے والوں میں بھی میرے پڑدادا شامل تھے۔ یہی وہ تمغہ ہے جو میرے خاندان نے صدیوں سے اپنے سینوں پر سجا رکھا ہے۔ ہم نے تو اپنے گائوں کا نام بھی میجر ولسن کے نام پر رکھا ہے جو ہمارے دادا کے کمانڈر رہے تھے۔ غدر میں ہمارے خاندان کی خدمات کے پیشِ نظر ولسن پور میں 900 ایکڑ اراضی بطور علی الدوام جاگیر مستقل کے طور پر عطا کی گئی۔ خلعت‘ دربار میں کرسی اور دوسری مراعات اس کے علاوہ تھیں۔
ہزہائی نس!
میں اپنے خاندان کے بارے میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کو رخصت کرنے کے لیے پنجاب سے وفد بھیجا گیا‘ تو میرے دادا بھی اس میں شامل تھے۔ میرے دادا نہیں چاہتے تھے کہ سرکارِ انگلشیہ کا سایہ کبھی بھی ہمارے سر سے اُٹھے‘ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ سرکارِ انگریزی کو یہاں سے جانا پڑ گیا۔ وقتِ رخصت ہمارا پورا خاندان گورنر فرانسس موڈی سے ملا اور پوچھا: آپ تو ہمیں یتیم کرکے جا رہے ہیں‘ اب ہماری سرپرستی کون کرے گا؟ تو موڈی نے ہمیں نصیحتاً کہا کہ ہمارے بعد اب آپ امریکہ بہادر کی بیعت کر لیں کیونکہ برطانیہ عظمیٰ نے عالمی امور سے ریٹائرمنٹ لے کر اپنی ذمہ داری سپر پاور امریکہ کو دے دی ہے۔ ہمارے خاندان نے یہ نصیحت پلّے باندھ لی اور تب سے اب تک ہم امریکہ بہادر کے وفادار اور نمک خوار ہیں۔ اس نمک حلالی کی مکمل تفصیل آپ کو امریکی سفارت خانے سے مل سکتی ہے کہ کس کس طرح ہم نے خدمت کو فرض سمجھ کر سرانجام دیا ہے۔
حضورِ والا!
بقول اسد اللہ خان غالب ”فتنہ گھاٹ میں تھا اور ستارہ گردش میں‘‘ اسی لیے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جب سے آپ اور مودی نے سرعام ”پنجابی جپھیاں‘‘ ڈالی ہیں ہم پریشان ہیں کہ آپ شاید ہمیں اور ہماری وفاداری کو بھول گئے ہیں‘ اسی لیے آپ کی ساری توجہ ہندو بنیے کی طرف ہو گئی ہے جو ایک دن آپ کو دھوکہ دے گا۔ آپ نے مودی کو ڈرون دینے کا اعلان کیا ہے‘ یہ انتہائی غلط اقدام ہے کیونکہ کل کو مودی یہی ڈرون ہم پر مارے گا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے آپ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو بنایا‘ آپ کو روس کے خلاف بڈابیر کا اڈا دیا اور پھر جنرل مشرف کے زمانے میں طالبان کے خلاف بلوچستان اور سندھ میں فوجی اڈے دیئے۔ افغانستان کی پہلی اور دوسری جنگ‘ دونوں میں بھرپور انداز میں آپ کا ساتھ دیا حالانکہ ہمیں اس جنگ سے ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی بیماریاں ملیں‘ جنہوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ یہ درست ہے کہ اچھے اور برے طالبان کے حوالے سے ہم سے غلطی ہوئی مگر اس کا مطلب یہ تھوڑا ہے کہ آپ ہمارے دشمن بھارت سے ہی جا ملیں۔
جنابِ عالی!
جب آپ کو خادم الحرمین الشریفین جلالۃ الملک سلمان بن عبدالعزیز نے اسلامی اُمہ کے معاملات پر غور و فکر کے لیے سعودی عرب بلایا اور آپ کو ”شیخ الاسلام‘‘ جتنا پروٹوکول دیا تو ہمارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور ہم مطمئن ہو گئے تھے کہ اب جہاں عالم اسلام کی قسمت سنورے گی وہاں ہمارے تجربہ کار وزیر اعظم نواز شریف سے آپ کی ملاقات مسئلہ افغانستان اور مسئلہ کشمیر کے حل میں ممد و معاون ثابت ہو گی‘ مگر آپ وہاں ایران کے خلاف محاذ بنانے میں اس قدر مصروف تھے کہ آپ نے اپنے پرانے وفادار پاکستانیوں سے الگ سے ملاقات تک نہ کی۔ خیر یہ بھی کوئی ایسی بات نہ تھی‘ آپ مصروف ہوں گے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ آپ پرانی دوستی‘ وفاداری اور افغانستان کے خون بہا کے طور پاکستان اور بھارت کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کریں گے اور بھارت کو مجبور کریں گے کہ وہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کر دے مگر آپ نے تو حد کر دی اور اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ پرانے نمک خواروں کو توجہ کے قابل تک نہ سمجھا۔ آپ کی یہ بے نیازی مناسب نہیں ہے‘ کل کو دنیا میں کہیں دوبارہ ویت نام اور افغانستان جیسی جنگ ہوئی تو پھر ہم وفادار ہی کام آئیں گے‘ بھارتی بنیا تو بھاگ جائے گا۔
میرے آقا!!
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں اور وہ ہے پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال۔ میں پہلے بھی اس حوالے سے امریکی سفارتخانے کو ایک تفصیلی رپورٹ بھجوا چکا ہوں۔ ماضی میں پاکستان کی ہر سیاسی تبدیلی کے پیچھے سی آئی اے ہوتی تھی اور آج کل یہ کام اسٹیبلشمنٹ نے سنبھال لیا ہے اور پہلے سے بہتر طور پر یہ کام سرانجام دیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ The Party is Over ایسے میں ضروری تھا کہ یا تو امریکہ کی طرف سے وزیر اعظم کے احتساب پر مہر تصدیق ثبت کی جاتی یا پھر احتساب کے طریق کار پر اعتراض کیا جاتا‘ امریکہ اور آپ کی اس حوالے سے خاموشی معنی خیز ہے‘ کہیں آپ پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے‘ بدلے میں افغانستان میں امن کی ڈیل تو نہیں کر چکے‘ اگر ایسا کیا ہے تو اپنے وفاداروں کو اعتماد میں ضرور لے لیں کیونکہ ہم تو ہر صورت میں آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر تو یو ٹرن کا فیصلہ ہو چکا تو بہت اچھا ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہی ملک و ملت کے لیے بہتر ہو گا۔ بس مہربانی کرکے فرصت ملتے ہی سفیر کے ذریعے سے ہمیں آگاہ کر دیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے؟ پشت در پشت ہم جس طرح سے آپ کے اشاروں تک کی تعمیل کرتے آئے ہیں یہ جاری رہے گی۔
صاحب بہادر!
گو یہ فدوی آپ سے ملا نہیں مگر آپ کے کارناموں اور آپ کے خاندان سے پوری واقفیت رکھتا ہے۔ آپ نے ہائوسنگ کے شعبے میں جس طرح نام کمایا‘ جگہ جگہ ٹرمپ ٹاور بنائے‘ تاج محل جیسا شاندار جوا خانہ بنایا اور ”ڈویلپر‘‘ کے شعبے کو جس طرح باوقار اور باعزت بنایا اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ پاکستان میں بھی آپ جیسا ویژنری ٹائون پر ٹائون بنا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ پاکستانی عوام بھی مقامی ٹرمپ کو اقتدار کی منزل تک لے جائیں‘ یہی وہ دن ہو گا جب آپ بنفس نفیس دورہ پاکستان کرکے کئی نئی ہائوسنگ کالونیاں بنانے کا اعلان کریں گے اور بے گھر افراد کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیں گے۔
صاحب بہادر!
آخر میں التجا ہے کہ صدیوں کے ساتھیوں کو اس طرح تنہا نہ چھوڑیں‘ سی پیک کا یہ مطلب تھوڑا ہے کہ آپ کی نعمتوں سے محروم ہوا جائے‘ براہ کرم ہماری امداد بحال کریں اور ہمیں اسی طرح سمجھیں جیسے پہلے سمجھا کرتے تھے۔ افغانستان میں ہماری شرارتیں یا بھارت کے اندر کارروائیاں سب الزامات ہیں‘ ہم سے جب آپ خفیہ میٹنگ کریں گے تو ہم آپ کو سارا معاملہ سمجھا دیں گے‘ ہم افغانستان میں شرطیہ امن لا سکتے ہیں‘ اپنے جہادی اثاثے بھی قربان کر سکتے ہیں‘ مگر اس بار ہم سے ڈیل اچھی کریں۔ ماضی کی طرح ہمیں ٹرخا نہ دیں‘ مہنگائی کا زمانہ ہے اب جاگیریں کافی نہیں نقد رقم کی ضرورت بھی ہو گی۔ دعاگو
خاکپائے امریکہ بہادر
ہیچمدان جاگیردار نوازش ولد مجید ولد غازی حیات آف ولسن پور