فریب ِ نفس…ہارون الرشید
جذبات سے مغلوب آدمی خود کو دھوکہ دیتا ہے اور دوسروں کو بھی ۔ انصاف کہاں ہے ؟ کہیں بھی نہیں ۔ ہم سب ایک بے نتیجہ، بے ثمر جنگ میں الجھے خود کو رائیگاں کر رہے ہیں ، فریبِ نفس، فریبِ نفس!
کبھی دور دراز کے سوالات میں بھی رشتہ و پیوند ہوتا ہے ۔ دو بالکل ہی مختلف الجھنیں تھیں ۔ ایک کا تعلق فاروقِ اعظمؓ کے اندازِ فکر سے تھا اور ایک یکسر دوسرا معاملہ ۔ برسوں یہ استفسار ذہن میں ابھرتا ، ڈوبتا رہا کہ خطاب کا جلیل القدر فرزند جب کسی پیچیدہ مسئلے کا سراغ نہ پاتا تو مشاورت کے لیے، آخر کار اصحابِ بدرؓ کا انتخاب کیوں کرتا ؟ کیا وہ سب کے سب گرہ کشا تھے ؟ پھر یہ کہ سائنسی اندازِ فکر کیا ہے اور کیونکر ایک مسلمان اس پہ قادر ہو سکتا ہے ۔ آج فرصت میسر آئی… اور ایک اور سوال فکر کے سلسلے سے جڑ گیا : غور و فکر کرنے والا اگر خود اپنے تضادات کا شعور نہیں رکھتا ۔ اگر ان تضادات سے نجات پانے کی آرزو نہیں رکھتا تو سائنسی اور اصولی انداز اختیار کیسے کر سکتا ہے ؟
طالبِ علم کا گمان یہ ہے کہ آخر کار ایک درست نتیجہ اس نے اخذ کر لیا ہے ۔ اگر وہ اس پر قائم رہے تو کم از کم سوچ بچار کے انداز میں ارتقا ممکن ہے ۔ اگر خود کو وہ رعایت نہ دے۔ قدرتِ کاملہ سے رہنمائی کا طلب گار رہے ۔
اصحابِ بدر ؓ؟ مکمل طور پر صاف ستھری ، کھری اور دو ٹوک رائے وہی دے سکتا ہے ، جو خود سے رہائی پا چکا ہو۔ اپنے مفادات ہی نہیں ، اپنے تعصبات سے بھی اوپر اٹھ جائے ۔ ذاتی طور پر ہی فائدے اور نقصان کی سطح سے اوپر اٹھ کر عدل کا تہیہ نہ کرے بلکہ اظہارِ صداقت کے باب میں اپنے خاندان ، قبیلے اور گروہ کی پروا بھی نہ کرے ۔
ظاہر ہے کہ یہ سہل نہیں ۔ درویش سے پوچھا گیا کہ کیا تسبیح و مناجات اور دعا و استغفار سے صراطِ مستقیم آدمی پا سکتا ہے ؟ ”نہیں‘‘ اس نے جواب دیا ” بلکہ توجہات سے‘‘۔ اپنی ذات پر ، اپنی خامیوں پر ، توجہ مبذول کرنے اور کرتے رہنے سے ۔ اپنی خامیوں کا شعور حاصل کرنے اور بتدریج ان میں سے ایک ایک سے نجات پانے کے پختہ عزم سے۔
ایک عشرہ ہوتا ہے ، امریکہ سے ایک نوجوان نے فون کیا : بد قسمتی سے میں غلط بیانی کا عادی ہو چکا ہوں ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی گاہے غلط بیانی کا ارتکاب کرتا ہوں ۔ کیا عارف میری مدد کر سکتا ہے؟ مجھے شبہ تھا ، میرا خیال تھا کہ یہ مشکل ہو گا ۔ جھوٹ اگر فطرتِ ثانیہ بن جائے ۔ آدمی کو خود سے اگر محبت ہو جائے۔ ہر حال میں اپنا دفاع کرنے پر اگر وہ تلا رہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی خرابی سے نجات پا لے۔ گریز کیا اور کہا کہ بات کرنے کے بعد بتائوں گا۔
یا للعجب ، عارف نے کہا : کیوں نہیں؟ ہر خرابی اور ہر برائی سے چھٹکارا ممکن ہے ۔ آدمی اگر تہیہ کر لے ۔ اگر وہ رحمتِ پروردگار کا آرزو مند ہو ۔ پھر ایک عجیب بات کہی : جوانی میں ہم نے بہت جھوٹ بولے ۔ پھر انہوں نے اس کے لیے دعا تعلیم کی۔ ظاہر ہے کہ اپنے اندر کے ابلیس سے اجنبی کو خود لڑنا تھا ۔ شیطان ایک کاشتکار ہے ، جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے ۔ رمضان المبارک میں شیطان قید کر دیے جاتے ہیں تو پاپی زاہد نہیں ہو جاتے؛ اگرچہ بہت سوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ برقرار کم ہی رہتی ہیں ۔ آدمی کی اصل جنگ تو اس کے ساتھ ہے ۔ اتنی شیطان کے ساتھ نہیں ، جتنی اپنے ساتھ۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ مسجد کے دروازے پر پہنچے تو ان کے بقول ابلیس نے ان سے کہا : عبدالقادر! اللہ کی دوستی نے تجھے کیا دیا ۔ فرمایا: اپنے آپ سے میں نے یہ کہا : اچھا تو اس قدر تُو بگڑا ہوا ہے کہ ایسے خیالات بھی تیرے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ وہیں مسجد کی سیڑھیوں پر ہی میں نے نفل کی نیت باندھ لی اور ریاضت کرتا رہا؛ تا آنکہ خود کو تھکا دیا۔
صوفی کے لفظ سے لوگ اگر چڑتے ہیں یا مغالطے کا شکار ہوتے ہیں تو مومن کہہ لیجیے ۔ رحمۃ اللعالمینؐ کی صحبت میں اہلِ ایمان کا اندازِ فکر بتدریج اتنا نکھر گیا کہ کسی کی ذات اس کے راستے میں حائل نہ رہی ۔ اپنا قبیلہ اور گروہ تو کیا ، وہ خود بھی اپنے طرف دار نہ رہے ۔ قرآنِ کریم کی وہ آیت ان پہ صادق آنے لگی : مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ گوئٹے اور فوئٹے کو چھوڑیے ، یہی قرآنِ کریم کے اوراق میں بسر کرنے والے اقبال کا مردِ مومن ہے ۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں‘ کار کشا‘ کار ساز
یہی سائنسی اندازِ فکر ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مغرب نے چرچ سے نجات پائی تو اصولی اور منطقی اندازِ فکر کی طرف مائل ہوا ۔ مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ اس کی کتاب مسخ شدہ نہیں ۔ صرف قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے بلکہ احادیثِ رسولؐ اور سیرتِ مبارکہ بھی ۔ اصحابِ رسولؓ اور اہلِ بیتؓ کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں اور اولیائے کرام کی بھی ۔ اولیا سے اگر کسی کو چڑ ہے تو انہیں اہلِ عمل کہہ لے ، اہلِ ایمان کہے ، علماء ہی قرار دے ڈالے۔ بس چند ایک چھوٹی سی شرائط کہ فرقہ پرستی کے مارے نہ ہوں ۔ انسانوں کے خیر خواہ ہوں ۔ دھڑے باز اور گروہ بند واقع نہ ہوئے ہوں ۔ خبطِ عظمت کے مارے نہ ہوں ۔ بعض تو ایسے ہیں کہ اگر بس چلے تو خود اپنی ہی تصویر کو سجدہ کر دیں ۔ مستقل طور پر ایک مسلمان شیعہ ، سنی ، وہابی یا بریلوی کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہمیشہ ہر حال میں اپنی پارٹی اور اپنے گروہ کا پشت پناہ اور دوسرے کا مخالف کیسے ؟ کیا اپنی پارٹی ہمیشہ درست ہوتی ہے ۔ اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیاں اور لیڈر تو بہرحال نہیں ہو سکتے ۔ پھر ان کی حمایت یا مخالفت میں ہم تلوار کیوں تانے رکھتے ہیں ۔ کسی خاص ادارے یا لیڈر کی تحسین یا مذمت کے درپے کیوں رہتے ہیں ؟
1995ء سے اب تک کتنی ہی بار عارف نے اس ناچیز سے کہا کہ فلاں لیڈر کے باب میں اس کا روّیہ غیر متوازن ہے ۔ اس کی خامیوں سے صرفِ نظر اور ایک جذباتی رویے کے ساتھ اس کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کا شعار ۔ جیسا کہ صوفیوں کا دستور ہے ، نرمی اور خیر خواہی سے ، اشارے سے مگر واضح اشارے سے۔ تنقید اور مذمت نہیں بلکہ احساس دلانے کے لیے ، شعور اجاگر کرنے کے لیے ۔
کیا نام ہے اس آدمی کا… زلفی؟ خصوصی جہاز میں کپتان کے ساتھ عمرہ کرنے جو روانہ ہوا۔ سوشل میڈیا پر آٹھ عدد پیغامات اس موضوع پر خاکسار نے لکھے ۔ جب یہ نکتہ آشکار ہوا تو سب کے سب حذف کر دیے۔ کپتان کے خلاف مہم چلانے والے اخبار نویسوں کا رویّہ متوازن نہیں ۔ بجائے خود مہم چلانا ہی شاید غلط ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ مسئلہ اتنا بڑا ہے نہیں ، جیسا کہ بنا دیا گیا ۔ اخبار نویسوں کی اپنی انا ان کے آڑے ہے ۔ مگر دوسرا موقف، قانون سے انحراف کرنے والے لیڈر کے حامیوں کا ؟ جو الزامات دونوں اخبار نویسوں پہ انہوں نے لگائے ہیں ، سرے سے غلط ہیں ۔ سفید جھوٹ ۔ کسی کے وہ کارندے نہیں روپے پیسے کے لیے وہ بروئے کار نہیں آتے ۔
جذبات سے مغلوب آدمی خود کو دھوکہ دیتا ہے اور دوسروں کو بھی ۔ انصاف کہاں ہے ؟ کہیں بھی نہیں ۔ ہم سب ایک بے نتیجہ، بے ثمر جنگ میں الجھے خود کو رائیگاں کر رہے ہیں ، فریبِ نفس، فریبِ نفس