فریدا خالق خلق میں…ڈاکٹر منظوراعجاز
فرید الدین مسعود گنج شکر المعروف بابا فرید کے ایک دوہے کا پہلا مصرع ہے کہ ’’فریدا خالق خلق میں‘‘ یعنی کہ خدا اپنی خلقت میں آشکار ہوتا ہے۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے بابا فرید نے وہ نظریاتی راستہ اختیار کیا جو کہ خلق خدا کی آواز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان، ہندو ، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے گرویدہ چلے آتے ہیں۔ تاریخ میں یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے کہ جو شخصیت یا گروہ خلق خدا کی آواز بن جاتا ہے وہ آنے والے زمانوں پر اپنا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی ایسی شخصیت سامنے نہیں آئی جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے عوام کی آواز بن کر، ان پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے ،سیاست کے مروجہ طریقوں کی نفی کردی ہو۔ آج کی سیاست میں تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں یا تو قابل انتخاب (Electables) افراد کو ڈھونڈرہی ہیں اور یا پھر ایسے نعرے لگا رہی ہیں جو کہ جامع انداز میں عوام کے دلی جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ جب انہوں نے عوام پر مکمل اعتماد کیا تو ان کو عروج ملا اور جب انہوں نے نظریاتی پسپائی اختیار کرتے ہوئے اس زمانے کے نام نہاد قابل انتخاب جاگیرداروں اور حکمران طبقے کے ہاتھ میں اپنی پارٹی کی باگ ڈور دے دی تو ان کا زوال شروع ہو گیا۔ اگرچہ
ان کی شخصیت کا سحر کئی دہائیوں تک قائم رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انہوں نے اپنے ہی نظریات کی نفی کرنا شروع کردی تو ان کا ستارہ ڈوبنے لگا۔ اپنی آزادانہ سیاست کا 1967میں آغاز کرتے ہوئے بھٹو نے اپنے نعروں اور اپنے عوامی انداز سے عوام کے دل جیت لئے۔ انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی بنیاد جمہوریت، اسلامی سوشلزم اور اسلام پر رکھی۔ لیکن ان کا عوامی انداز ایسا تھا کہ پاکستان میں ہر مذہب اور ہر عوامی طبقے کو ایسے لگا کہ ’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا امتحان 1970ءکا الیکشن تھا ۔ اس الیکشن میں ان کے پاس دو راستے تھے کہ یا تو وہ قابل انتخاب شخصیات ڈھونڈیں اور یا پھر درمیانے طبقے کے عوامی نمائندوں پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔ بھٹو نے پنجاب کی حد تک درمیانے طبقے کے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دئیے جن کی عوام میں ساکھ تھی۔ عوام نے برتر شعور کا مظاہرہ کیا: انہوں نے مذہب، فرقہ پرستی اورذات برادری کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ایسی پارٹی کو ووٹ دئیے جو ان کے خیال میں ان کی زندگی کو تبدیل کرنے والی تھی۔ بھٹو نے عوام پر اعتماد کر کے جس سیاسی جرات کا اظہار کیا اس کے ثمرات بھی ان کو مل گئے ۔ یہ برصغیر کی تاریخ میں نادر مثال تھی جس میں عوام نے ہر طرح کی روایتی حد بندیوں کی نفی کرتے ہوئے ایک ترقی پسند پارٹی کا انتخاب کیا:ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی بھی مختلف علاقوں میں ٹکٹیں دیتے ہوئے ذات برادری کے تقاضے پوری کرتی رہی ہے۔
آج بھی پاکستان اور بالخصوص پنجاب کے عوام ایک ایسے رہنما یا پارٹی کے منتظر ہیں جو انسانیت کی علمبردار ہو اور ان کو حاوی غیر منصفانہ نظام سے نجات دلاسکے ۔ غالباً عوام عمران خان کو یہ موقع دینا چاہتے تھے لیکن عمران خان کو عوام کی طاقت پر اعتماد نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غلط روش اختیار کرتے ہوئے عجلت میں قابل انتخاب امیدوار ڈھونڈنا شروع کر دئیے: انہوں نے عوامی بھٹو بننے سے پہلے ہی وہ غلطی کر لی جو بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ عمران خان کوئی ایسا نیا نظریہ بھی پیش نہیں کر سکے جس میں عوام اپنی نجات کا راستہ دیکھ سکیں۔ بلکہ انہوں نے شروع سے ہی ایسے نظریات کا ساتھ دیا ہے جو کہ عوامی شعور کی نفی کرتے تھے۔ مثلاً ان کا طالبان کے بارے میں ہمدردانہ رویہ یا مذہبی پارٹیوں کو نوازنے کا عمل عوامی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتا تھا۔ ان کے پورے نظریاتی ڈھانچے کو غور سے دیکھا جائے تو وہ کسی بھی طرح نئے معاشرے کی بنیادیں استوار کرتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ وہ فکری اعتبار سے روایت پرست ہیں۔ ان کا بد عنوانی کے خلاف نعرہ عوام کیلئے بہت زیادہ پر کشش نہیں ہے کیونکہ عوام کی نظر میں پورا حکمران طبقہ بد عنوان ہے۔ عمران خان کے معاشی، سیاسی اور سماجی ایجنڈے میں کچھ بھی نیا نہیں ہے لہٰذا ان میں ستر کے بھٹو جیسی جرات بھی نہیں ہے۔اسی طرح سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھی اتنا جامع نہیں ہے کہ عوام نظام کی تبدیلی کا خواب دیکھ سکیں۔ تمام عنوان بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اسی پروگرام پر گامزن ہوگی جس پر وہ پچھلی کئی دہائیوں سے عمل کر رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی معاشی، سیاسی اور سماجی تبدیلی کا کوئی خاکہ پیش نہیں کر رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسب سابق پراگندہ قسم کا سرمایہ داری نظام جاری رہے گا جس میں امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھتا جائے گا۔ تاریخ کے اس دور میں شاید کوئی بھی سوشلزم جیسے نظریے کے نفاذ کا نعرہ نہیں لگا سکتا، لیکن چالو سرمایہ داری نظام کو فلاحی نظام میں تو بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس کیلئے امیر طبقے پر ٹیکس لگانا ہوں گے جس کیلئے حکمران پارٹی تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پروگرام میں بھی کچھ نیا نہیں ہے لہٰذا اسکا انحصار بھی قابل انتخاب شخصیتوں پر ہوگا۔ غرضیکہ کوئی بھی بابا فرید کی روایت پر چلتے ہوئے خالق کو خلق میں نہیں دیکھ رہااور جو کچھ بھی ہوگا وہ سماجی بحران کے حل کیلئے ناکافی ہوگا۔