فریش سٹارٹ…بابر اعوان
پہلی اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر تھی۔ دوسری چیف ایگزیکٹیو کے کمرے میں اور تیسری انڈہ نما میز پر ۔
یہ تینوںتصویریں امریکا کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کے تازہ دورہ اسلام آباد کی مکمل عکسی کہانی بیان کرتی ہیں۔ وہی کہانی جس کو یو ایس اے کے وزیر خارجہ نے بجا طور پر فریش سٹارٹ کا نام دیا ہے۔ اس سے پہلے ساڑھے 19سال تک امریکہ کا چھوٹے سے چھوٹا اہلکار بھی ہمارے شہر اقتدار میں وائسرائے کی طرح لینڈ کرتا رہا۔ امریکن سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے بارے میں جو کہانیاں سن رکھی ہوں گی‘ خاص طور پر اپنے سابق ہم منصبوں کے منہ سے‘ ان کی وجہ سے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو صاحب بہادر اپنے استقبالی منظر نامے کو پنجابی کے اس فلمی گانے کی دھن میںسوچتے آئے ہوں گے۔
سیوّنی میرا ماہی میرے بھاگ جگاونڑ آگیا
انج لگدا اے جیویں رانجھن مینوں ہیر بناونڑ آگیا
ریڈ کارپٹ تو چھوٹی بات تھی۔ بزعم خودوائسرائے نے خیال ہی خیال میں پنجابی لڈی‘ خٹک ڈانس‘ سرائیکی جھومر ‘ بلوچی لیواکی دھنوں پر ناچنے والی ٹیموں کی قطاریں اور نہ جانے اور کیا کیا دیکھا۔ مگر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر امریکی وزیر خارجہ کا استقبال تبدیلی نے کیا۔ تبدیل شدہ پاکستانی نظام کی نمائندگی کے لیے وزارت خارجہ کے ایک عمومی اہلکار کی قسمت میں یہ تاریخی لمحہ لکھا گیا۔ اس طرح پاکستان کی سرزمین پر عالمی آقائوں میں سے ایک کے صرف ہوائی جہاز نے ہی لینڈ نہیں کیا‘بلکہ گئے دنوں کا پروٹوکول بھی ساتھ ہی لینڈ کرگیا۔
بطور ریاست پاکستان کی توقیر کی بحالی والی تصویری کہانی کا دوسرا حصہ سرکاری دفتر میں عکس بند ہوا۔ جہاں روزانہ والی شلوار قمیض پہنے حکومت کے کپتان نے انٹری ڈالی ۔ آگے امریکی وفد کے ارکان لائن بنا کر کھڑے تھے۔پاکستان کے وزیر اعظم نے مصنوعی تپاک اور وارفتگی کے بجائے مہمانوں سے ہاتھ ملایا ۔ پھر اپنی کرسی پر جا بیٹھے ۔ تیسری تصویر اس میز کی ہے جہاں پر تبدیلی زبان ِ حال سے خود بول رہی تھی۔ایک طرف امریکی جنرل ڈنفورڈ دوسری طرف پاکستانی سپاہ کا سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ۔ امریکی وفد کی جانب سے امریکی سیکرٹری خارجہ آئے ۔ وزیراعظم کی معاونت کے لیے پاکستانی ہم منصب وزیر خارجہ ۔ ہیڈ چیئر پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹیو ۔اس تصویر کے اندر دوعدد منظر نامے دعوت ِ نظارہ دے رہے ہیں۔ پہلے نمبرپر پاکستان کے ازلی دشمن زلمے خلیل زاد کی موجودگی ہے ۔ جسے امریکی وفد میں شامل کرکے ساتھ لانے کا مقصد پاکستان کو پیغام دینا تھا کہ آپ کا علاقائی دشمن بطور گواہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
ایسے گواہ کے بارے میں عالمی قوانین میں پہلی اصطلاح Interested Witnessکی استعمال ہوتی ہے۔ جس کا مطلب ہے ایسا گواہ جو اس لیے بے اعتبارا ہے کہ اُسے سچ سے غرض نہیں‘ وہ شکم پُری کے سمندر میںغلطاںرہتا ہے اور یہ ہی دلچسپی اُسے جھوٹ بولنے پر ہر وقت آمادہ و ایستادہ رکھتی ہے۔ دوسری اصطلاحStock Witnessکی ہے جس کا مطلب ہے جھوٹ کے گودام میں پڑا ہوا ایسا خام مال جو ہر وقت دروغ بیانی اور کذب گوئی کے لیے سٹاک میںتیار رکھا رہتا ہے۔ اس میٹنگ کی جو تفصیلات میرے پاس ہیں اُن کے مطابق امریکی وفد کے ساتھ کروفر سے آنے والا زلمے خلیل زاد منہ لٹکا کر واپس گیا۔ فٹے منہ‘ چونکہ غیر پارلیمانی اور غیر سفارتی الفاظ ہیں اس لیے زلمے خلیل زادکی حالت پر میں ان کے استعمال سے اعتراض برت رہاہوں۔
اس تصویر کا دوسرا منظر نامہ شغلیہ دورِحکومت کی پانچ سالوں کی یاد دلاتا ہے‘جب پراپرٹی ڈیلروں اور کمیشن ایجنٹو ںکی پسندیدہ گھومنے والی چیئر پر بیٹھاآزاد اور خود مختیاروزیر اعظم سامنے بڑی سی خالی بے مقصد آفس ٹیبل جس پر کاغذ ایک طرف ویٹ پیپربھی رکھا ہوا نظر نہ آیا‘ اُس کے سامنے چھوٹی سی لکڑی کی کرسی پر دراز قد اور فراخ سینے والا آرمی چیف بٹھا کر فوٹو بنائی جاتی تھی۔ پھر وزیر اعظم ہائوس میں سرکاری خرچ پر چلنے والا سوشل میڈ یاسیل بھاری خرچے پر یہ فوٹو ریلیز کرنے کا اہتمام کرتا۔ جس پر یہ کیپشن لگائی جاتی”پس ثابت ہوا ملک میں حکمران خاندان کی بالا دستی کا راج ہے ‘‘۔ لیکن عمران خان کے دور میں اس تصویرکا منظر نامہ بھی تبدیلی کا شکار ہوگیا۔ اب جنرل باجوہ اور عمران خان محمود و ایاز کی طرح ایک جیسی کرسیوں پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ گھومنے والی چیئر ہے نہ بندہ و آقا کی تمیز کا نشان ڈیڑھ مرلے والا آفس ٹیبل ۔
وکالت نامہ یہاں تک پہنچا تو مجھے نیند آگئی۔ تقریباً 40منٹ بعد عبدالرحمٰن نے بتایا وزیر اعظم صاحب بات کرنا چاہتے ہیں‘ اُن سے بات ہوئی‘ انہوں نے فوراً ملنے کا کہااور ہم دونوں 15منٹ بعد وزیر اعظم صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کچھ سیاسی منظر نامے پر باتیں ہوتی رہیں۔ 3‘4قانونی گتھیاں سلجھانے کے بعد وزیر اعظم صاحب نے امریکی وفد سے ملاقات کا احوال بتانا شروع کردیا ۔ میں نے کچھ سوال پوچھے ۔ تفصیل سننے کے بعد میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہم بحیثیت قوم ایک بار پھر قومی آبرو مندی کے سفر پر گامزن ہوگئے ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اس راہ کے دوسرے مسافر تھے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کا نمبر شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد آتا ہے۔ میں نے وزیر اعظم عمران خان سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں فریش سٹارٹ کا بھی پوچھا ۔اس کا نقطۂ آغاز شدت پسندی کے خلاف وطن عزیز کے شہریوں اور سپاہ کی لازوال قربانیوں کے اعتراف سے ہورہا ہے۔قوموں کی زندگی میں افراد کی طرح اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ پاکستان کی مخلوط حکومت شدید بحرانوں کے طوفان کے عین درمیان پی ٹی آئی اور عمران خان کے حصے میں آئی ۔کہتے ہیں ایکسٹرا آرڈنری کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات ایکسٹرا آرڈنری لوگوں کی ڈیوٹی لگاتی ہے۔ ایکسٹرا آرڈنری کسی خاص حلیے ‘ کسی خاص خاندان یا علاقے میں پیدا نہیں ہوتے ۔ یہ مالکِ ارض وسما کی تقسیم ہے۔ جس کے بارے میں فارسی زبان میں حتمی سچائی کو یوں بیان کیا ۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
صبح سویرے کام میںجت جانے والا وزیر اعظم بہت خوش نظر آیا ۔ خوشی کی وجہ 6ستمبر کا دن نکلا ۔ وزیر اعظم خود ہی بتانے لگے آج مجھے وطن کے شہیدوں کو ان کے وارثوں کے درمیان کھڑے ہوکر خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ ساتھ کہا تھوڑی دیر میں GHQجارہا ہوں۔ قومی ادارے ایک پیج پر نہیں بلکہ قومی تعمیر نو کے ایک ہی راستے پر چل نکلے۔
تھوڑی دیر بعد عمران خان نے GHQکے لیے نکلنا تھا۔ گفتگو کا موضوع ایک بار پھر امریکی وزیر خارجہ کے دورے کی طرف لوٹ آیا۔ اس حوالے سے اہم باتیں ایک پورے کالم کا تقاضا کرتی ہیں۔وزیر اعظم اس بات پر اطمینان سے سرشارتھے کہ ان کے دور میں آنے والے مہمان کے سامنے امداد کی بھیک مانگنے کا کوئی سوال نہ اُٹھا۔ اسی لیے آج کے عالمی اخبارات نے امریکہ کے وفد کی بجائے عمران خان کی وفد سے گفتگو کی کھوج لگائی اور خبریں چلائیں۔
یہ سب سن کر میں بھی وزیر اعظم کی سرشاری میں شریک ہو گیا۔ 25دسمبر 1992ء کے دن پروین فنا سید پر بھی یہ لمحہ اترا تھا۔ جب سید زادی نے نذرِ قائد اعظم تخلیق کی ۔
میرے قائد
تیرا احسان کہ توُ نے مجھ کو
میری پہچان سے آگاہ کیا!
تو نے سمجھایا
کہ ہم میں کوئی سندھی ہے‘ مہاجر ہے نہ پنجابی ہے
ایک ہی سوچ کی تسبیح کے دھاگے میں پروئے ہوئے دانوں کی طرح
ایک پرچم کے تلے جینا ہے
اپنے آنگن کی حفاظت کے لیے مرنا ہے