منتخب کردہ کالم

’’فلائنگ برڈ آف ایشیاء‘‘ (ترازو) محمد بلال غوری

وہ قومیں زندہ نہیں رہتیں جو اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتیں۔ (سابق امریکی صدر،ابراہم لنکن)
آپ مجھے کسی بھی ہیرو سے ملوائیں اور اس کی دکھ بھری داستان مجھ سے وصول پائیں۔(ناول نگار ،ایف سکاٹ فٹز گیرالڈ)
چکوال پاکستان کا واحد ضلع ہے جس نے افواج پاکستان کو سب سے زیادہ جرنیل اور سپاہی فراہم کئے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ چکوال کی مائیں لفٹین پیدا کرتی ہیں ۔یہاں شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا کوئی جوان عساکر پاکستان سے تعلق نہ رکھتا ہو۔میں آج جس گمنام ہیرو سے آپ کو متعارف کروانا چاہتا ہوں اس کا تعلق بھی ضلع چکوال کے ایک گائوں جنڈ اعوان سے ہے۔ اس گائوں کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک مرحوم کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔عبدالمجید ملک واحد جرنیل ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کامیاب سیاست کی اور پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ۔ اب ان کے داماد میجر (ر) طاہر اقبال یہاں سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔بریگیڈیئر سی ایچ بی رودھم پاک فوج کے اسپورٹس بورڈ کے سربراہ تھے۔ ایک دن انہوں نے چکوال کے نوجوان عبدالخالق کو کبڈی کھیلتے دیکھا اور اس کے کھیل سے متاثر ہو کر اسے افواج پاکستان میں بھرتی ہونے کی پیشکش کی۔دوران تربیت یہ بھید کھلا کہ عبدالخالق کی ٹانگوں میں بجلیاں بھری ہیں اور وہ کبڈی پہلوان کے بجائے ایتھلیٹ بن کر دوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس نوجوان نے قومی کھیلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد عالمی مقابلہ جات میں قدم رکھا تو پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔1954ء اور 1958ء میں ہونے والی ایشین گیمز میں پاکستان کا نام روشن کیا ،1956ء میں ہونے والی میلبورن اولمپکس اور 1960ء میں ہونے والی روم اولمپکس میں سبز ہلالی پرچم لہرایا۔یہ وہ دور تھا جب عالمی سطح پر پاکستان کی کوئی پہچان نہ تھی۔جب فن لینڈ کے دارالحکومت ہی لنسکی میں ہونے والے مقابلہ جات میں عبدالخالق نے نئے ریکارڈ قائم کئے تو کمنٹری کرنے والے نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”ویلڈن مسٹر پاکستان‘‘ بعد ازاں میڈل وصول کرتے ہوئے عبدالخالق نے وضاحت کی کہ میرا نام عبدالخالق ہے اور پاکستان میرے ملک کا نام ہے۔
لیوی پنٹو پہلے بھارتی ایتھلیٹ تھے جنہوں نے عالمی مقابلہ جات میں اپنے ملک کے لئے پہلا گولڈ میڈل جیتا اور 100میٹر کا فاصلہ 10.8سیکنڈ میں طے کرکے عالمی ریکارڈ بنایا۔پاکستانی ایتھلیٹ صوبیدار عبدالخالق نے جب یہ ریکارڈ توڑا تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے عبدالخالق کو ”فلائنگ برڈ آف ایشیاء‘‘ کا خطاب دیا۔1971ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو دیگرپاکستانی فوجیوں کی طرح عبدالخالق بھی جنگی قیدی بنا لئے گئے۔جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو معلوم ہوا کہ جنگی قیدیوں میں ایک پاکستانی ہیرو بھی شامل ہے تو اس نے عبدالخالق کو رہا کرنے کا حکم دیا لیکن صوبیدار عبدالخالق نے اپنے ساتھیوں کے بغیر رہا ہونے سے انکار کر دیا اور تب ہی پاکستان لوٹے جب شملہ معاہدے کے بعد تمام فوجیوں کو رہائی ملی۔یہ قومی ہیرو 10مارچ 1988ء کو انتقال کر گیا اور ہم نے حسب عادت و حسب روایت اس عظیم انسان کو فراموش کر دیا۔
آج اگر مجھ سمیت بعض افراد اس سپر اسٹار سے واقف ہیں تو اس کا کریڈٹ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو جاتا ہے جس نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو ایتھلیٹ ملکھا سنگھ سے روشناس کروانے کے لئے ”بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی۔اس فلم میں جہاں روائتی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو منفی انداز میں پیش کیا گیا وہاں ہماری قوم کوپہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی دعوت پر 1960ء میں بھارتی کھلاڑیوں کاوفد لاہور آیا اور قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہونے والی 200میٹر ریس میں بھارتی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ نے عبدالخالق کو ہرا دیا۔اس فلم میں عبدالخالق کی ایک ہار کا تذکرہ تو ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نے عالمی مقابلوں میں کیسی فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کیں اور ہوتا بھی کیسے ،یہ فلم تو انہوں نے اپنے ہیرو ملکھا سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بنائی۔حقیقت یہ ہے کہ عبدالخالق بھارتی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کے مقابلے میں بہت بڑے سپر اسٹار تھے۔بھارتی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ نے عالمی مقابلوں میں 5گولڈ میڈل جیتے اور بھارت میں اس کی زندگی کے سفر پر مشتمل کتاب ”دا ریس آف مائی لائف‘‘ لکھی گئی۔اسے پدما شری ایوارڈ دیا گیا،اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے پنجاب اسپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا،کئی اسٹیڈیم ملکھا سنگھ سے منسوب کئے گئے اور اس کے کارنامے منظر عام پر لانے کے لئے فلم بنائی گئی۔مگر فوجی ملکھا سنگھ کے مقابلے میں صوبیدار عبدالخالق کی کامیابیوں کی اننگز بہت طویل اور شاندار ہے۔عبدالخالق نے عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں 36گولڈ میڈل جیتے، 15سلور میڈل حاصل کئے اور 12برونز میڈل پاکستان لیکر آئے لیکن اس قوم کے سپوت پر نہ تو کسی نے کتاب لکھی ،نہ کسی نے فلم بنائی اور نہ ہی کسی اسٹیڈیم کا نام عبدالخالق کے نام پر رکھا گیا۔لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کانام تو ابھی تک لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر القذافی کے نام پر چلا آرہا ہے۔ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم اس اسٹیڈیم کا نام ہی تبدیل کرکے عبدالخالق اسٹیڈیم رکھ دیا جائے۔ملکھا سنگھ اور عبدالخالق دونوں پنجاب کے فرزند ہیں دونوں نے اسی پنجاب میں جنم لیا جو آج پاکستان کا حصہ ہے۔ملکھا سنگھ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادوسے ہے مگر وہ تقسیم ہند کے بعد بھارت چلے گئے۔عبدالخالق کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا تعلق تقسیم ہند کے بعد بھی پنجاب کے اسی حصے سے رہا جو پاکستان میں شامل ہے۔میرا خیال تھاکہ بھارتی فلم ”بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ کے بعد ٹھہرے ہوئے پانی میںہلچل ہو گی اور ایتھلیٹ صوبیدار عبدالخالق مرحوم کی گمنامی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔کسی کو تو خیال آئے گا کہ وہ عظیم قومی ہیرو جس نے عالمی سطح پرپاکستان کو نئی پہچان عطا کی ،اس کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کیا جائے۔یہ بھارتی فلم 2013ء میں ریلیز ہوئی مگر آج چار سال بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں ۔نہ حکومت پاکستان کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ افواج پاکستان کو یہ خیال آیا کہ اس بہادر سپاہی اور عظیم کھلاڑی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور نوجوان نسل سے متعارف کروانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔عبدالخالق کو کچھ ملا بھی تو بھارتی حکومت سے،بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اسے ”فلائنگ برڈ آف ایشیاء‘‘ کا خطاب دیا تو بھارتی فلم ”بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ نے عبدالخالق کو پھر سے زندہ کر دیا۔ گاہے یوں لگتا ہے جیسے ہم وہ احسان فراموش قوم ہیں جو اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتی اس لئے دنیا میں کہیں ہماری قدر نہیں کی جاتی۔