فکر کی اصلاح…علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
انسان کو اللہ نے مشاہدے کی صلاحیت سے نوازا ہے‘ اسی طرح اشیاء پر غوروفکر کرکے ان کی حقیقت اور اصل کو پہچاننے کی استعداد بھی عطا کی ہے؛ چنانچہ جب ذہین انسان کسی خوبصورت بلڈنگ‘ عمارت یا تعمیراتی ڈھانچے کو دیکھتا ہے ‘تو عمارت کی خوبصورتی پر غوروفکر کرنے کے دوران اس کے ذہن میں نقشہ نویس‘ معمار اور انجینئرز کی فنی اور پیشہ وارانہ مہارت کے بارے میں بھی تخیلات اُبھرتے ہیں‘ لیکن بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ اس وسیع وعریض کائنات کو دیکھنے کے باوجود بھی انسانوں کی اکثریت کے ذہن میں اپنے خالق ومالک کی ذات کے بارے میں جو تصورات ابھرنے چاہئیں وہ اجاگر نہیں ہوتے اور انسانوں کی اکثریت کی نگاہیں فقط اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی خوبصورتی پر ہی ٹھہر جاتی ہیں اور وہ کائنات کی تخلیق پر غوروفکرکرنے کے بعد اللہ احکم الحاکمین کی ذات کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی ایسے انسانوں کا ذکر کیا‘ جو باری تعالیٰ کی تخلیق کو دیکھنے کے بعد کائنات اور اپنی حقیقت پر غوروفکر نہیں کرتے اورخالق کائنات اللہ احکم الحاکمین کی ذات کو پہچاننے کی جستجو نہیں کرتے۔ سورہ کی آیت نمبر 3 سے لے کر 5تک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :”اور وہی ہے‘ جس نے بچھایا زمین کو اور بنائے اس میں پہاڑ اور نہریں اور تمام پھلوں میں سے بنائے اس میں جوڑے دو دو (قسم کے) وہ ڈھانپتا ہے ‘رات سے دن کو بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے (جو) غوروفکرکرتے ہیں‘ اور زمین میں ٹکڑے ہیں‘ ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باغات ہیں انگوروں سے اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں‘ زیادہ تنوں والے( اور جڑایک) اور زیادہ تنوں کے بغیر(یعنی ایک تنے والے) انہیں سیراب کیا جاتا ہے ایک پانی سے اور ہم فضیلت دیتے ہیں ‘ان میں سے بعض کو بعض پر (پھلوں کے) ذائقے میں بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں ‘ان لوگوں کے لیے (جو) سمجھتے ہیں‘ اور اگر آپ تعجب کریں تو عجیب ہے ‘ان کی (یہ) بات (کہ) کیا جب ہم ہو جائیں گے مٹی (تو) کیا یقینا ہم واقعی نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے کفر کیا اپنے ر ب کے ساتھ اور یہی لوگ ہیں (کہ) طوق ہوں گے‘ ان کی گردنوں میں اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ ‘‘
سو رہ یسٰین میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کرکے اس کی کوتاہ بینی کا ذکر کیا کہ اگر وہ اپنی تخلیق پر غوروفکر کرے تو اس حقیقت کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں کہ اس کو بنانے والی کون سی ذات ہے؟ لیکن انسان اپنی پیدائش کو نظر انداز کرکے اللہ اور یوم حساب کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سو رہ یسٰین کی آیت نمبر 77سے 83 تک ارشاد فرماتے ہیں: ”اور (بھلا) کیا انسان نے نہیں دیکھا (غورکیا) کہ بے شک ہم نے اسے پیدا کیا ہے ایک قطرے سے تو اچانک وہ صریح جھگڑالو (بن بیٹھا) ہے اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا‘ اُس نے کہا(کہ) کون زندہ کرے گاہڈیوں کو‘ جبکہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آپ کہہ دیجئے (کہ) زندہ کرے گا‘ ان کو (وہی اللہ) جس نے پیدا کیا‘ انہیں پہلی مرتبہ اور وہ ہر طرح کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔ جس نے بنا دیے تمہارے لیے سر سبز درخت سے آگ ‘پھر یکایک تم اس سے آگ جلاتے ہو۔ اور (بھلا) کیا نہیں ہے ‘وہ جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو قادر اس بات پر کہ وہ پیدا کرے‘ ان جیسے (اور انسان) ہاں کیوں نہیں اور وہی خوب پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے۔ بے شک صرف اس کا حکم جب وہ ارادہ کرتا ہے‘ کسی چیز کا (یہ ہوتا ہے) کہ وہ کہتا ہے اس کو ہو جا‘ تو وہ ہو جاتا ہے۔ سو پاک ہے (وہ ذات)جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور اس کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
قرآن مجید کے بعض دیگر مقامات پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ‘انسانوں کی توجہ اپنی عبادت اور بندگی کی طرف مبذول کروائی۔غوروفکر رکھنے والے انسان کلام اللہ کی ان آیات کی تلاوت کرنے کے بعد جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘ تو اس کا دل ودماغ خود بخود اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ سورہ انعام کی آیت نمبر95 سے 101 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ”بے شک اللہ پھاڑنے والے ہے دانے اور گٹھلی کو وہ نکالتا ہے زندہ کو مردے سے اور وہ نکالنے والا ہے‘ مردے کو زندہ سے یہی اللہ ہے‘ تو کہاں تم پھیرے جاتے ہو۔ پھاڑ نکالنے والا ہے‘ صبح کی روشنی(رات کے اندھیرے سے) اور بنایا اس نے رات کو سکون (کے لیے)اور سورج اور چاند کو حساب کرنے کے لیے وہ اندازہ ہے غالب‘ خوب علم رکھنے والے کا اور وہی ہے ‘جس نے بنائے تمہارے لیے ستارے ‘تاکہ تم راہ پاؤ‘ ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں یقینا ہم نے کھول کھول کر بیان کر دی ہیں آیتیں ‘اس قوم کے لیے (جو) جانتے ہیںاور وہی ہے‘ جس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے‘ پھر (تمہارے) ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سونپے جانے کی یقینا ہم نے کھول کھول کر بیان کر دی ہیں آیتیں ‘اس قوم کے لیے جو سمجھتے ہیں۔ ا ور وہی ہے ‘جس نے اتارا آسمان سے پانی تو ہم نے نکالا اس کے ذریعے ہر قسم کی نباتات پھر ہم نے نکال دی اس سے سبز(شاخ) (پھر) ہم نکالتے ہیں اس سے دانے‘ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور کھجور کے درختوں سے اس کے گابھے سے گچھے ہیں جھکے ہوئے اور باغات ہیں انگوروں سے اور زیتون اور انار (جو) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اور نہیں (بھی) ملتے جلتے‘ دیکھو اس کے پھل کی طرف جب وہ پھل دیتا ہے اور اس کے پکنے (کی طرف) ‘ بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے (جو) ایمان رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے بنائے اللہ کے شریک جنوں کو؛حالانکہ اس نے پیدا کیا ان کو اور انہوں نے گھڑرکھے ہیں اس کے بیٹے اور بیٹیاں بغیر علم کے‘ (حالانکہ) وہ پاک ہے اور بلند ہے ان (باتوں) سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ موجد ہے آسمانوں اور زمین کا کیسے ہو سکتی ہے اس کی اولاد‘ حالانکہ نہیں ہے اس کی بیوی‘ اور اس نے پیدا کی ہر چیز اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘۔
ان آیات پر غوروفکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نشانیاں ہیں اور ان نشانیوں پر غوروفکر کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو پہچاننے کے بعد اللہ کی عبادت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اسی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190‘191 میں یوں فرماتے ہیں: ”بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے ۔‘‘
ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان ذی شعور لوگوں کا ذکر کیا‘ جو تخلیق ارض وسماوات میں غور کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل ہوتے ہیں اور زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرنے کے بعد اس حقیقت کو بھانپ جاتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے ‘بلا مقصد پیدا نہیں کیا اور اس کے بعد وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ زمین وآسمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کو دیکھ کر ہمیں اپنے خالق ومالک کی معرفت کو حاصل کرنا چاہیے اور اس کی ذات کا انکار اور اس سے اعراض کرنے کی بجائے اس کی ذات کی معرفت اور اس کی بندگی والے راستے کو اختیار کر کے کامیابی کی سمت سفر کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری سوچ وفکر کے زاویے کو درست فرمائے اور ہمیں صحیح سمت میں سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)