فیصلہ ضمیر کا…!…..علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی پانچ سال کے بعدقومی اور صوبائی اسمبلی کی قیادت کے چناؤ کے لیے انتخابات ہوتے ہیں‘ جن میں بالعموم ووٹ مفاد ‘ دباؤ‘ برادری اور پارٹی کی بنیاد پر ڈالا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ جس شخص کو ووٹ ڈال رہے ہیں‘ وہ ان کے ذاتی‘ انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے کام انجام دے گا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں ووٹر ز کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنی برادری سے وابستہ امیدوار کو ووٹ ڈالتی ہے‘ خواہ اس میں قیادت کی صلاحیتیں موجود ہوں یا نہ ہوــں‘ اسی طرح بڑے شہروں میں لوگ اپنی پسندیدہ پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں‘ خواہ اس کے کردار میں کتنے ہی سقم کیوں نہ ہوں۔ یقینا کسی پارٹی کے اچھے منشور کو ووٹ ڈالتے ہوئے اہمیت دینی چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے حلقے میں انتخابات لڑنے والے امیدوار کے رویے اور کردار پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا مطالعہ ہمیں یہ بات بتلاتا ہے کہ قیادت میں درج ذیل اوصاف کاپایا جانا ازحد ضروری ہے:
1۔ للہیت : قرآن مجید نے بہت سے نیک حکمرانوں کا ذکر کیا‘ جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام بھی شامل تھے‘ جنہوں نے زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے لیے زبردست کاوشیں کیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب ان کے علم میںیہ بات آئی کہ سباء کی بستی کے لوگ اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کو سجدہ کر رہے ہیں‘ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فوراً سے پہلے اس بستی کے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینے کے لیے منصوبہ بندی کی اور اس بستی کی ملکہ کو دلائل کے ذریعے توحید کی دعوت دے کر حلقہ بگوش اسلام کر دیا۔
2۔ علم اور طاقت : قرآن مجید میں حضرت شموئیل علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے کہ ان کی قوم کے لوگوں نے کفار سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک بادشاہ کا مطالبہ کیا‘تو آپ نے اس موقع پر حضرت طالوت کی تقرری کا حکم دیا‘ تو بنی اسرائیل کے لوگوں نے کہا کہ ان کو تو مال میںو سعت نہیں دی گئی تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو چن لیا ہے اور ان کو علم اور طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے۔ قرآن مجید کے اس واقعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قائد صاحب مال ہو یا نہ ہو‘ لیکن اس میں علم اور طاقت ہونی چاہیے۔ علم اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے ضروری ہے۔ قوانین کی تنفیذ اور ملک وقوم کے دفاع کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بہادر اور طاقت ور لوگ اپنا مورال بلند رکھتے ہیں اور اپنی قوم کے دفاع کے لیے بھی اچھے طریقے سے کردار ادا کرتے ہیں۔
3۔ سرکاری اموال کی حفاظت:قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو سرکاری اموال کی حفاظت کے لیے امانت داری اور قابلیت کا ـمظاہرہ کرنا چاہیے۔ امانت اور قابلیت میں سے کوئی صلاحیت اگر مفقود ہو تو سرکاری خزانے کو زبردست نقصان ہو سکتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب مصر کے وزیر خزانہ تھے ‘تو آپ نے سات برس تک غلے کی اس انداز میں تدوین کی کہ جب عالمی قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی امانت داری اور تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اہل مصر کی غذائی ضروریات پوری ہوتی رہیں‘ بلکہ دنیا بھر کہ وہ علاقے جو قحط سالی کی لپیٹ میں آئے تھے‘ ان علاقوں کے لوگ بھی اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر سے رجوع کرتے رہے۔
4۔ خدمت خلق: ایک اچھے حکمران کو جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہونا چاہیے؛ چنانچہ تمام صالح بادشاہ اور حکمران صحیح انداز میں اپنی رعایاکی خدمت کرتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کے دل میں خشیت ِالٰہی ہو وہ کبھی بھی رعایاکے ساتھ ظلم کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہو سکتا۔ اللہ سے ڈرنے والے لوگ بالعموم جذبہ خدمت ِخلق سے بھی سرشار ہوتے ہیں؛ چنانچہ جب ہم خلفاء راشدین کے کردار پر غور کرتے ہیں‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں پر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی احسن طریقے سے عبادت کرنے والے تھے‘ وہیں پر وہ رعایا کی خدمت کا بھی بھرپور انداز میں انتظام کرنے والے تھے۔ صدیق وفاروق‘ عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دو ر خدمت ِخلق کے اعتبار سے مثالی رہا۔ ان چاروں خلفاء نے انتہائی سادہ زندگی گزاری اور سرکاری اموال سے مکمل طور پر مستغنی رہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سماجی خدمت کا ایک ایسا نظام متعارف کروایا‘ جس سے نہ صرف یہ کہ بلادِ اسلامیہ کے بوڑھے‘ بچے‘ضعیف اور عورتیں استفادہ کرتی رہیں‘بلکہ مغربی ممالک نے بھی سماجی خدمت کے اس نظام کو حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سیرت وکردار سے اخذ کیا اور آج یورپ میں جہاں جہاں سوشل سیکورٹی سسٹم موجود ہے‘ اس کی اصل حضرت عمر فاروقؓ کے نظام میں موجود ہے۔
5۔ فتنہ وفساد کا قلع قمع: قرآن مجید کا مطالعہ ہمیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ صالح بادشاہ لوگوں کے درمیان زمین پر موجود فسادی عناصر کا احسن طریقے سے قلع قمع کرتے رہے؛ چنانچہ حضرت طالوت نے جالوت کا قلع قمع کیا اور حضرت ذوالقرنین نے یاجوج وماجوج کے فتنے سے قوم کو بچانے کے لیے ایک فولادی دیوار کو کھڑا کیا‘ جس کے نتیجے میں یاجوج وماجوج سے متصل بستی کے لوگ اور پوری انسانیت یاجوج وماجوج کے فتنے سے محفوظ ہو گئی۔
6۔ عدل وانصاف: حکمرانوں کو معاشرے میں عدل وانصاف کا بھی بھرپور طریقے سے اہتمام کرناچاہیے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت ِمبارکہ میں اس حوالے سے بہت عمدہ رہنمائی موجود ہے کہ جب بنو مخزوم کی ایک صاحب ِاثر عورت نے چوری کی اور اسامہ ابن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سفارش لے کر آئے ‘تو ایسے عالم میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے ‘تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد اس بات کو واضح کرتا ہے کہ آپ کا عطا کردہ نظام ہر شخص کے لیے برابر تھااور اس میں کسی بڑے چھوٹے کے درمیان تفریق نہیں کی جاتی تھی۔ بعدازاں خلفاء راشدین نے بھی آپ کی اقتداء کرتے ہوئے‘ عدل وانصاف کے نظام کو قائم رکھا۔
حکمرانوں میں مندرجہ بالا اوصاف کا پایاجانا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے کے لوگ حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی اور اپنے اپنے حلقے کی سطح پر ہم لالچ ‘مفاد‘ دباؤ اور برادری ازم کے تحت وو ٹ کاسٹ کرتے ہیں ‘جبکہ ووٹ کو ضمیر کی بنیاد پر کاسٹ کرنا چاہیے اور جو شخص حقیقت میں ووٹ کا اہل ہو ‘اسی کو ووٹ دینا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ دیانت دار اور امانت دار شخص کو اس لیے ووٹ کاسٹ نہیں کرنا کہ اس کی پوزیشن مستحکم نہیں‘ یہ استدلال بھی باطل ہے۔ اس لیے کہ اگر لوگ بحیثیت مجموعی امانت دار ‘ دیانت دار اور درمند انسان کو ووٹ دینا شروع کر دیں‘ تو خود بخود ان امید واران کی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی‘ جو اللہ سے ڈرنے والے اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے ہیں۔
آج ملک میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں اس موقع پر ہم تمام لوگوں کو اپنے گردوپیش میں نگاہ ڈالتے ہوئے ایسے امیدواران کو ووٹ دینا چاہیے‘ جن میں مندرجہ بالا اوصاف پائے جاتے ہوں۔ اس کے مدمقابل ظلم وبربریت کرنے والے ‘ لوگو ں کا مال اور خون چوسنے والے‘ ان کو ہراساں کرنے والے اور ان کا استحصال کرنے والے امیدواران‘ پارٹیوں اور قیادتوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو بہتر قیادت عطا فرمائے۔( آمین)