منتخب کردہ کالم

فیصلہ کن سیاسی محاذآرائی کا سال؛ ڈاکٹر منصور نورانی

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ پاکستانی سیاست میں ہر آنے والے نئے سال کو اپنی آرزؤں اور تمناؤں کا مسکن بنانے والوں کے لیے شاید یہ لمحہ کچھ زیادہ دل پذیر نہیں ہو گا کہ 2016ء بھی اپنے اسلام آباد کے ایوانوں میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ہی اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے۔ ہر نئے سال کی ابتدا پر خوش گمانیوں اور توقعات کا شیش محل بنانے والوں کے لیے یہ خبر شاید کوئی اتنی دل نشیں نہیں رہی کہ سابقہ سال پرامن گزر گیا۔

عیدالفطر کے بعد دمادم مست قلندر اور عیدالاضحیٰ کے بعد بڑی قربانی کا سوچنے اور اہتمام کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ 29 نومبر کی شام ان کے لیے کم مایوس کن نہ تھی جب بلا کسی انہونی کارروائی کے ہماری عسکری قیادت کی تبدیلی کا سارا عمل آئینی و دستوری طریقوں اور انتہائی پروقار انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔ خود اپنی صلاحیت اور کارکردگی کے بل بوتے پر وہ اگر کچھ کرجاتے تو پھر ممکن ہے انھیں اتنی ناکامیوں کا سامنا نہ ہوتا۔ وہ اب پاکستان کے کسی ادارے پر بھروسہ اور اعتبار کرنے کے روادار نہیں رہے۔ انھیں الیکشن کمیشن پر بھی اعتراض ہے اور نیب اور ایف آئی اے سے بھی شکوہ ہے۔

عدلیہ باقی رہ گئی تھی مگر وہ اب اس سے بھی اپنی مایوسیوں کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کی اب صرف یہی کوشش ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو نئے آنے والے سال یعنی 2017ء کے اختتام سے پہلے پہلے چلتا کردیں اور 2018ء تک انھیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دیں۔ شاید اسی طرح وہ اپنے لوگوں کے سامنے کچھ سرخرو ہوپائیں گے۔ ورنہ میاں صاحب کو اگلے انتخابات میں شکست دینا ان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوجائے گا۔ وہ پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ہوسکتا ہے وہ اس نئے سال میں 365 دن ہی سڑکوں پر گزار دیں۔

سپریم کورٹ میں ان کی پٹیشن کی سماعت اب نئے سرے سے ہونے والی ہے جس کے لیے انتہائی تحمل اور صبر کی ضرورت ہے۔ اگر انھوں نے بے صبری اور بے چینی کا مظاہرہ کیا تو ہوسکتا ہے یہ کیس کسی فیصلے یا نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی داخل دفتر کردیا جائے۔ ایسی صورت میں وہ لوگ جو اس معاملے کو اگلے الیکشن تک لے جانا چاہتے ہیں، ان کے لیے اس سے بہتر کوئی ایشو ہاتھ آہی نہیں سکتا کہ وہ اسے اگلے انتخابات میں بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست کے جوہر دکھائیں۔

2017ء سیاسی اعتبار سے ایک ہنگامہ خیز سال ہوسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنی ساکھ کو بچانے اور اسے بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسے مکمل فعال اور متحرک ہونا ہوگا۔ اس بار یہ بہانہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوپائے گا کہ دہشتگردوں کی جانب سے اسے انجانے خطرات لاحق ہیں اور وہ کھل کر سیاست نہیں کرپائی ہے۔

اگلا الیکشن ہمارے خیال میں الزامات کی سیاست سے زیادہ اہلیت اور کارکردگی کے بنیادوں پر لڑا جائے گا۔ جس پارٹی نے جہاں جہاں اسے مینڈیٹ ملا ہے، اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے، یہ سوال یقیناً ووٹروں کے ذہن میں بھی ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہو گی کہ سیاسی اور انتخابی دنگل صرف اسی ایک ایشو پر لڑا جائے، جب کہ دیگر پارٹیاں کارکردگی کے برعکس ’’پانامہ لیکس‘‘ ہی کو اپنا اصل ایشو بنائیں گی۔ اسی لیے ان کی کوشش یہی ہوسکتی ہے کہ یہ معاملہ جوں کا توں چلتا رہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ معاملہ جتنا طول پکڑے گا، سیاست کا بازار اتنا ہی مشتعل اور گرم رہے گا۔

پی ٹی آئی کے عمران خان کے لیے جو گزشتہ بیس سال سے اس ملک میں سیاست کررہے ہیں اور وزارت عظمیٰ کا منصب پانا ان کی اولین و آخری حسین خواہشوں میں سے ایک ہے، یہ سال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اگر اگلے الیکشن کے بعد بھی یہ منصب حاصل نہ کرپائے تو پھر شاید ہی یہ موقع ان کی زندگی میں دوبارہ آپائے۔ اسی لیے وہ اس بار جان کی بازی لگا کر اور تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر یہ موقع ضرور حاصل کرنا چاہیں گے۔ ان کے اردگرد موجود صاحب ثروت افراد کی بھی یہ آخری کوشش ہوگی کہ وہ کسی طرح اس بار یہ بازی جیت جائیں۔

ادھر بلاول بھٹو زرداری کے اپنے لیے بھی یہ سال اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ انھیں اب پاکستان پیپلز پارٹی کو لے کر آگے جانا ہے۔ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ان پر اب ایک بہت بڑی ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ کس طرح پارٹی کو ایک بار پھر ملک کی سب سے مقبول پارٹی بنا پاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی سیاسی کمک اور مدد کے لیے ان کے والد محترم بھی اب پاکستان تشریف لاچکے ہیں۔

بلاول بھٹو کی مشکل یہ ہے کہ ان کی پارٹی پر گزشتہ دور میں کی گئی کرپشن کے بہت زیادہ الزامات ہیں، جنھیں وہ ابھی تک دور نہیں کرپائے ہیں۔ وہ اگر موجودہ حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش و سعی کرتے ہیں تو خود ان کی پارٹی کا حساب کتاب کھل کر سامنے آجاتا ہے اور جسے شاید اس ملک کے عوام ابھی تک بھلا نہیں پائے ہیں۔ صوبہ سندھ میں بھی ان کی کارکردگی ابھی تک اتنی اچھی نہیں رہی ہے جس کے بل بوتے پر وہ ملک کے دیگر علاقے کے لوگوں سے ووٹ مانگ سکیں۔

2017ء مردم شماری کا سال بھی قرار پایا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں صوبوں کے درمیان آپس میں نفاق و نفرت کی ایک بڑی خلیج حائل ہے، جس کی وجہ سے قومی خدمت کا ہر کام شکوک و شبہات کی نذر ہو جاتا ہے، مردم شماری کا یہ عمل بھی اسی ابہام و خلفشار کا شکار ہوتا آیا ہے۔ یہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اس کام کے لیے بھی فوجی عملے کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ ہر کسی ملک میں یہ کام سول اداروں کی مدد ہی سے بطریقِ احسن انجام پذیر ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ ہمیں اپنے سول اداروں اور ایڈمنسٹریشن پر اعتماد ہی نہیں ہے، لہذا اس انتہائی اہم قومی فریضے کی ادائیگی کے لیے بھی ہمارے یہاں افواج پاکستان کو طلب کیا جاتا ہے۔

1998ء میں آخری بار مردم شماری ہوپائی تھی۔ اس کے بعد اسے 2008ء میں ہونا چاہیے تھا، مگر امن وامان کی خراب صورتحال اور سابقہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ بروقت نہیں ہوپائی۔ موجودہ دور میں بھی یہ اب تک تعطل کا شکار ہوتی رہی، مگر اب سپریم کورٹ کی مداخلت اور وارننگ کے بعد اس کا اعلان کردیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس کی صاف ستھری انجام دہی میں ہمارے مختلف سیاسی گروپوں کی جانب سے ایک بار پھر روڑے اٹکائے جائیں گے۔

یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کسی بھی بڑے کام یا بڑے منصوبے کی تعمیر یا تکمیل میں غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی ہماری اسی تنگ نظری اور صوبائی منافرت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ بھی ہماری اسی تنگ دلی، نفرت اور چپقلش کی نذر ہوجاتا اگر اس کی پشت پر ہماری افواج کا ہاتھ نہ ہوتا۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف کی ذاتی دلچسپیوں اور کوششوں سے یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرپایا ہے، ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ قوم کی قسمت بدل دینے والا یہ انتہائی اہم منصوبہ بھی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر صرف کاغذوں اور فائلوں تک ہی محدود رہ جاتا۔ 2017 کے گرما گرم سیاسی ماحول اور نفرت و تعصب کے اس دور میں غیر جانبدارانہ اور صاف شفاف مردم شماری کروانا ہماری سول اور عسکری اداروں کے لیے ایک بہت بڑے اور کٹھن امتحان سے کم نہ ہوگا۔ یہ اب ان کی اہلیت و صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس قومی فریضہ کی ادائیگی میں کس طرح کامیاب و سرخرو ہوپاتے ہیں۔