منتخب کردہ کالم

فیصلے بولتے ہیں …رئوف طاہر

فیصلے بولتے ہیں …رئوف طاہر
ناقدین اس حقیقت کو نظرانداز نہ کریں کہ منصفیں سے زیادہ کون اس ”اصول‘‘ سے واقف ہو گا کہ منصف خود نہیں بولتے‘ ان کے فیصلے بولتے ہیں‘ اور یہ بھی کہ کسی عدالتی فیصلے پر ”فیئر کمنٹ‘‘ کا حق بھی تسلیم شدہ ہے۔ نواب محمد احمد خاں قتل کیس میں بھٹو کی سزائے موت پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے اہم ترین فیصلوں میں ایک فیصلہ تھا اور اتنا ہی متنازعہ بھی (کہنے والے اِسے اب بھی ”عدالتی قتل‘‘ کہتے ہیں)۔ چیف جسٹس شیخ انوار الحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے (چار‘ تین سے) لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی تھی۔ ”عدالتی قتل‘‘ والے کمنٹ پر چیف جسٹس سے سوال کیا جاتا تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے کہ ”ہمیں جو کہنا تھا‘ اپنے فیصلے میں کہہ دیا۔‘‘ نواب محمد احمد خاں کا قتل بھٹو صاحب کے اپنے ہاتھوں نہیں ہوا تھا‘ ایف آئی آر کے مطابق ان پر Abettment (اعانتِ جرم) کا کیس بنتا تھا‘ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 کے تحت جس میں سزائے موت نہیں‘ قید کی سزا ہے‘ اس سے پہلے قتل کے کسی مقدمے میں Abetter کو سزائے موت نہیں سنائی گئی تھی‘ پھر ذوالفقار علی بھٹو اس کے مستحق کیوں قرار پائے؟ فیصلے میں اس کی وضاحت بھی موجود تھی اور یہ بھی کہ آئندہ قتل کے کسی مقدمے میں اسے ”نظیر‘‘ (Precedent) نہیں بنایا جائے گا۔
کسی بھی ادارے کے سربراہ کا اپنے ادارے کی عزت‘ وقار اور اعتبار کے بارے میں حساس ہونا فطری ہے لیکن عدلیہ کا معاملہ تو حساس ترین ہوتا ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کے تحت جو اقدامات کئے وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں مٹایا جا سکتا ہے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے۔
مملکتِ خداداد میں عدلیہ کی تاریخ شاندار روایات کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خاں والٹن میں مہاجر کیمپوں کے دورے کے لیے لاہور آئے تو فیڈرل کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس سرعبدالرشید کو شام کی چائے کے لیے دعوت بھجوائی۔ جسٹس صاحب کی طرف سے معذرت پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس وقت نہیں تو میں خود ان کے ہاں آ جائوں گا‘ جسٹس صاحب اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ وزیراعظم کے اصرار پر جناب جسٹس کا جواب تھا کہ ان کی عدالت میں کچھ کیس زیرِ سماعت ہیں جن میں حکومت کی حیثیت ایک فریق کی ہے‘ ایسے میں وزیراعظم سے ان کی ملاقات مختلف چہ میگوئیوں اور غلط فہمیوں کا باعث بن سکتی ہے‘ جو عدلیہ کے علاوہ خود حکومت کے بھی مفاد میں نہیں ہو گی۔
جسٹس سرعبدالرشید کے حوالے سے ایک اور روایت بھی پڑھنے میں آئی (قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کے معاملات کے محققِ خاص ڈاکٹر صفدر محمود اس کی صحت یا عدم صحت پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔) یہ مملکت خداداد کے اولین گورنر جنرل کی حلف وفاداری کی تقریب تھی‘ قائداعظمؒ کسی معمولی سے قاعدے اور ضابطے کی پابندی بھی لازم سمجھتے۔ لیکن پاکستان کے قیام کی خوشی ایسی بیکراں تھی کہ تشریف لائے اور سیدھے گورنر جنرل کی نشست کا رُخ کیا۔ اس پر جسٹس سرعبدالرشید نے توجہ دلائی کہ ابھی آپ نے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف نہیں لیا۔ جناب قائد نے معذرت کی اور پہلی قطار میں اس نشست پر جا بیٹھے جو گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ان کے لیے ریزرو تھی۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا‘خدا کا شکر ہے‘ پاکستان میں وہ جج موجود ہیں‘ جنہیں قائداعظم کو روکنے ٹوکنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہوتا۔
پھر اسی مملکت خداداد میں ہم نے چیف جسٹس منیر کا ”نظریۂ ضرورت‘‘ بھی دیکھا اوربھگتا اور پھر ”دو سو کیس‘‘ میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کا عدالتی جواز بھی…جسٹس حمود الرحمن نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کو غاصبانہ اقدام قرار دیا لیکن تب ملک ٹوٹ چکا تھا اور یحییٰ خاں کا مارشل لاء ذوالفقار علی بھٹو کو ٹرانسفر ہو گیا تھا (جنہیں تاریخ کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کا ”اعزاز‘‘ حاصل ہوا) اور پھر بھٹو صاحب نے 1973ء کے آئین میں پے در پے یکطرفہ ترامیم کے ذریعے عدلیہ کو جس طرح بے بال و پر کیا‘ وہ سول آمریت کی تاریخ کا ایک اور المناک باب ہے۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عددی لحاظ سے ننھی منی حزب اختلاف کو اظہار خیال کی اجازت بھی نہ دی گئی اور مفتی محمود سمیت تمام اپوزیشن ارکان کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھا کر ایوان سے باہر پھینک دیا گیا۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) نے اپنی خودنوشت ”اپنا گریباں چاک‘‘ میں عدلیہ کے حوالے سے بعض دلچسپ واقعات بھی بیان کئے ہیں‘ مثلاً جسٹس کرم الہٰی چوہان (مرحوم) نے ایک روز ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ جن مقدمات میں حکومت فریق ہو‘ ان میں وہ دو (مختلف) فیصلے لکھتے ہیں‘ اور حالات کے مطابق جو فیصلہ مناسب ہو‘ سنا دیتے ہیں۔
لیکن اسی ملک میں جہاں نظریۂ ضرورت کے تحت آئین شکن طالع آزمائی کو جواز بخشا گیا‘ ایسے جج بھی تھے‘ جنہوںنے ڈکٹیٹر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی بجائے‘ عزت کے ساتھ گھر چلے جانا مناسب سمجھا۔ جنرل ضیاء الحق کے 1981ء کے پی سی او کے تحت حلف سے انکار کرنے والے سپریم کورٹ کے تین ججوں میں چیف جسٹس انوارالحق بھی تھے (اور دلچسپ بات یہ کہ بھٹو کی سزائے موت سے اختلاف کرنے والے جسٹس حلیم‘ جنرل ضیاء کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس بن گئے۔ اور بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمیٰ تک اس منصب پر فائز رہے)۔
سابق صدر پرویزمشرف کے پہلے پی سی او( 2000ئ) کا چیف جسٹس جناب سعید الزماں صدیقی (مرحوم) سمیت عدالت عظمی کے 6 ججوں نے انکار کیا اور اس کے دوسرے پی سی او (3 نومبر 2007ئ) کو مسترد کرنے والوں کی تو طویل قطار تھی۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے تقریباً 60 جج تھے، ”انکار‘‘ پر جو نہ صرف برطرف ہوئے بلکہ انہیں ان کے گھروں پر نظربند بھی کر دیا گیا۔
پئیں نہ رِندیہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو‘ چار‘ دس کی بات نہیں
لیکن اب فرق یہ تھا کہ انہوں نے اپنی برطرفی کا حکم مسترد کرتے ہوئے‘ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور خود کو اصلی اور آئینی جج قرار دے رہے تھے۔ ڈکٹیٹر کی رخصتی کے بعد صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت بھی 2 نومبر (2007ئ) والی عدلیہ کی بحالی پر آمادہ نہ تھی‘ وہ تو میاں نوازشریف کا 15 اپریل 2009ء کا لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ تھا‘ جو ابھی گوجرانوالہ بھی نہیں پہنچا تھا کہ وزیراعظم گیلانی نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سبھی ججوں کی بحالی کا اعلان کر دیا۔