منتخب کردہ کالم

فیصلے کا مقدر

افراد سے لے کر اداروں تک اور تنظیموں سے لے کر ملکوں تک ہر جگہ بروقت اور درست فیصلے کی بہت اہمیت ہوتی ہے، فیصلہ درست ہوتو افراد، ادارے، تنظیمیں اور ملک آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، لیکن اگر غلط فیصلہ اور وہ بھی غلط وقت پر کرلیا جائے تو شکست و ریخت، شرمندگی، خجالت، ذلت اور ناکامی اُن افراد،اداروں، تنظیموں اور ملکوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر تین برس پہلے کے کراچی کو لیں تو قتل و غارت، ٹاگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں نے ”شہروں کی اس دلہن‘‘ کی مانگ اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک درست فیصلہ کیا اور کراچی میں بدامنی پر ازخود نوٹس لے کر بدامنی کی وجوہ جاننے کیلئے باقاعدہ سماعت شروع کردی۔ اس سماعت کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس سے جو چشم کشا حقائق سامنے آئے، ان تلخ حقائق نے ریاست کے ہر شہری کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ تلخ حقائق یہ تھے کہ کہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں نے کراچی میں اپنے عسکری ونگز بنارکھے تھے، یعنی ”اِس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے‘‘ والا معاملہ تھا۔ کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہوئی تو عدالت کے احکامات کی روشنی میں کراچی میں آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔ آپریشن کے دوران شرپسندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو کراچی کو رکھ کا ڈھیر بنانے والوں میں بڑے بڑے نام سامنے آنے لگے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے سندھ میں گورنر راج نافذ کیے بغیر سندھ حکومت کو اعتماد میں لے کر آپریشن شروع کرنا وفاقی حکومت کا ایک درست اور صائب فیصلہ تھا اور اِس فیصلے کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے اور کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی ہونے لگی لیکن ایک جانب کراچی میں رینجرز کو ملنے والے خصوصی اختیارات کے مثبت نتائج سامنے آرہے تھے تو دوسری جانب آپریشن ضرب عضب اور بالخصوص وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سندھ میں فعال بہت سی سیاسی جماعتوں کو بالکل بھی پسند نہ آیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپریشن ضرب اور نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب بنانے کیلئے سندھ کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش نظر آتی لیکن اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کی بجائے مختلف اقدامات کے ذریعے سندھ حکومت نے امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کردیں۔ چونکہ رینجرز جن اختیارات کے تحت سندھ میں کارروائیاں کررہے تھے، اُن اختیارات کی مدت مکمل ہونے کے بعد سندھ حکومت کو توسیع دینا پڑتی ہے، اِس لیے یہی ایک ایسا پتہ تھا جسے سندھ حکومت ہر بار توسیع دیتے ہوئے اپنے مطلب اور مقصد کیلئے استعمال کرتی رہی۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ اختیارات دینے کے عوض سندھ حکومت نے اس حد تک لیت و لعل سے کام لیا کہ اُس کا الٹا نقصان ہونے لگا۔سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع تو کرتی رہی، لیکن انداز اور طریقہ ہمیشہ وہی رہا کہ ”بکری نے دودھ تو دیا لیکن مینگنیاں ڈال کردیا‘‘۔ سندھ حکومت نے اپنی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی اور ماڈل ایان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر کئی مرتبہ سودے بازی کرنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ لٹکائے رکھا گیا۔ رینجرز کے اختیارات کا معاملہ لٹکا کر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر عاصم کیس اور ماڈل ایان کیس میں سودے بازی کرنے کی خواہش اور کوشش تو یقینا کامیاب نہ ہوسکی، لیکن اختیارات کی مدت میں توسیع میں تاخیر ایک مرتبہ تو سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی قیمتی جانوں کا بھی نقصان ضرور کرگئی۔
ابھی سال پہلے کراچی شہر کے مصروف علاقے صدر میں فوج
کی ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں دو فوجی جوانوں لانس نائیک عبدالرزاق اور سپاہی خادم حسین کی شہادت کو کون بھول سکتا ہے۔فوجی جوانوں پر حملوں اور شہادتوں کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا لیکن اعدادوشمار نے ثابت کیا کہ اس طرح کے بیشتر واقعات عموماً اُس وقت ہوئے، جب رینجرز کے اختیارات میں توسیع دینے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا اور اختیارات ختم ہونے پر سکیورٹی اداروں نے اپنی چیک پوسٹیں خالی کرنا شروع کی تو دہشت گرد بے خوف ہوکر دوبارہ اپنی کارروائیاںکرنے پر اُتر آئے۔رینجرز کو اختیارات دینے میں لیت و لعل سے کام لیے جانے کے دوران اِس حقیقت کو یکسر نظرانداز کردیا گیا کہ یہ ”حرکت‘‘ دراصل دہشت گردوں اور ”ہدف کش قاتلوں‘‘ کی مدد کرنے کے ہی مترادف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملے لٹکانے جیسے غلط فیصلوں نے صوبے اور کراچی شہر کے امن کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ رینجرز کو سنگین نوعیت کے چار جرائم دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کے لیے جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف کراچی تک محدود ہیں اورباقی سندھ کے لیے نہیں ہیں۔ سندھ کی قیادت تبدیل ہوئی تو نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کے ارکان نے بھی وہی پرانا راگ الاپنا شروع کردیا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات صرف اور صرف کراچی کیلئے ہیں۔ یہ راگ الاپنے کا مطلب اور مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ رینجرز کو کراچی میں محدود رکھ کر سندھ میں پھیلے ”اسد کھرلوں‘‘ کی جانب بڑھنے سے روکا جائے۔
قارئین کرام!! پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ تکنیک اور حکمت عملی کراچی کو امن کا گہوارابنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کے راستے میں ایسی رکاوٹ تو نہ بن سکی، جسے ہٹایا نہ جاسکے، البتہ پی پی پی کی کہ یہ ”کوششیں‘‘ جیالوں کیلئے جگ ہنسائی کا سبب اور مایوسی کا سامان ضرور بن گئیں۔ گزرے برسوں میں المیہ یہ بھی ہوا کہ چاروں صوبوں سے ”زنجیر‘‘ لپیٹے جانے کے بعد اس زنجیر کی کڑیاں اب جب سندھ میں بھی ٹوٹ کر بکھرنے کو تیار دکھائی دیتی ہیں تو ایسے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کیلئے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی سوچ، رویہ اور کردار تبدیل نہ کیا تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا یہ فیصلہ سندھ یا ملک کا مقدر تبدیل کردے گا۔یقینا کچھ فیصلے افراد، اداروں، تنظیموں یا ملکوں کا مقدر تبدیل کردیتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے اِس فیصلے کا اپنا مقدر کیا بنتا ہے؟