منتخب کردہ کالم

قائداعظمؒ اور ان کا ٹائپ رائٹر (آتش فشاں) منیر احمد منیر

قائد اعظمؒ

قائداعظمؒ کے حوالے سے یہ جملہ اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے:”پاکستان میں نے، میرے ٹائپ رائٹر اور میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے بنایا‘‘۔ آج تک کوئی اس کا سورس نہیں بتا سکا، قائداعظمؒ نے کب، کہاں اور کس سیاق و سباق میں اس قدر اہم بات کہہ دی۔ایک معاصر اخبار میں ،11 مارچ 2017ء، جسٹس عبدالمجید ملک نے قائداعظمؒ کے ایک پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید پر اپنے مضمون میں لکھا ہے:”تحریکِ پاکستان کا پس منظر اور قیامِ پاکستان میں کامیابی بیان کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا:آپ کو بتاؤں پاکستان کس نے بنایا ہے؟ میں نے، میرے سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر نے‘‘۔ مضمون نگار نے اپنے بیان کی ثقاہت میں یہ بھی لکھا ہے کہ قائداعظمؒ نے یہ بیان یکم نومبر 1947ء کو یونیورسٹی گراؤنڈ لاہور میں بہت بڑے جلسے میں دیا تھا۔
اول تو یہ بہت بڑا جلسہ یکم نومبر 1947ء کو نہیں 30 اکتوبر کو ہوا تھا، دوسرے ریکارڈ موجود ہے قائداعظمؒ نے یہ قطعاً نہیں کہا تھا کہ پاکستان انہوں نے، ان کے سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ اور باتوں کے علاوہ اس تقریر میں قائداعظمؒ نے یہ بھی کہا تھا:”بعض لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ 3 جون کا منصوبہ قبول کرنا مسلم لیگ کی ایک غلطی تھی‘‘۔ پھر تو قائداعظمؒ کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ بعض لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ 3 جون کا منصوبہ قبول کرنا ان کی، ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر کی غلطی تھی۔ اگر پاکستان وہ، ان کا پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کا ٹائپ رائٹر بنا رہے تھے تو قیامِ پاکستان کے لیے قائداعظمؒ نے خواہ مخواہ اپنی ذہنی، جسمانی اور فکری توانائی کا آخری اونس تک صرف کر ڈالا۔ اور وہ یہ نہ کہتے:”…محنت سے میں نے جو کما رکھا ہے وہ اس لحاظ سے تو کافی ہے کہ میں باقی ماندہ زندگی آسودگی سے گزار سکوں۔ اتنی محنت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنا اگرچہ میرا حق بھی ہے لیکن اس کے باوجود میں نے ریٹائر ہونا پسند نہیں کیا۔ مال و دولت کی فراوانی اور عزت و شہرت کی معراج کوئی حیثیت نہیں رکھتی،اگر میں غلام قوم کا ایک فرد ہوں۔ یہی خیال مجھے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ یہ وقت میرے آرام کرنے کا تھا، لیکن میں قریہ قریہ گھوم رہا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے، جس کے سامنے دنیاوی آسائش اور عزت و شہرت کا ہر مقام ہیچ رہ جاتا ہے‘‘۔
کہاں گیا پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کا ٹائپ رائٹر!
قائداعظمؒ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو پارلیمنٹ آف دی نیشن کہا کرتے تھے۔ وہ اس قدر جمہوری اور اصولی آدمی تھے کہ قوم کے مستقبل کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اسے اس پارلیمنٹ آف دی نیشن میں پیش کرتے۔ جہاں ہر کوئی اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرتا۔ 30 جولائی 1944ء کو برکت علی محمڈن ہال لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی اجازت اور منظوری سے گاندھی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ 3 جون 1947ء کے منصوبۂ تقسیمِ ہند کی قبولیت کو کونسل کی منظوری سے مشروط کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اتنے زیادہ ترددکرنے کی کیا ضرورت تھی، وہ، ان کا پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کا ٹائپ رائٹر جب موجود تھا۔ انہیں لے کر دہلی کے 10 اورنگزیب روڈاور بمبئی کی مالا بار ہل کے جناح ہاؤس میں بیٹھ جاتے، پاکستان ان کی جھولی میں آگرتا۔
لیکن آزادی جھولی میں نہیں گرا کرتی ۔ اس کے لیے کٹھنائیوںاور قربانیوں کا ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً، 9 اپریل 1946ء، اینگلو عربک کالج دہلی، آل انڈیا مسلم لیگ کنوینشن میں مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان نے شرکت کی۔ وزیراعظم بنگال حسین شہید سہروردیؒ نے اپنی تقریر میں کہا:”قائداعظم! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہمارا امتحان لیں۔ ہم مسلمانانِ بنگال پاکستان کے حصول اور فتح کے لیے آپ کے حکم پر ہر قربانی کرنے کے لیے تیارہیں‘‘۔
اسی اجلاس میں قائداعظمؒ نے ارکانِ اسمبلیز سے حلف لیا جس کا آغاز اس قرآنی آیت سے تھا۔ترجمہ:-”کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
ہر رکن اسمبلی نے بلکہ وہاں موجود ہر مسلمان نے اس عہد نامے کے ذریعے قائداعظمؒ کو یقین دلایا:”…پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے جو تحریک بھی روبہ عمل لائی جائے گی اور اس سلسلہ میں جو ہدایات اور احکام جاری کیے جائیں گے، میں بلاپس و پیش کمال رضامندی کے ساتھ ان کی پوری تعمیل کروں گا…‘‘
حلف کا اختتام اس قرآنی دعا کے ساتھ ہوا۔ترجمہ:”اے پروردگار ہمیں صبرواستقامت عطا فرما۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور قومِ کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔آمین۔‘‘
حلف نامے پر قائداعظمؒ اور لیاقت علی خاںؒ نے بھی دستخط کیے۔ بعض ارکان نے اپنے لہو سے دستخط کیے۔
اگر پاکستان قائداعظمؒ صرف اپنے پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر کی مدد سے بنا رہے تھے تو اس قدر کڑی مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔
قائداعظمؒ نے کبھی اور کہیں نہیں کہا کہ پاکستان انہوں نے، ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ یہ سراسر مسلم قوم کی توہین تھی جس نے ان کے بھروسے پر، ان کی قیادت میں قیامِ پاکستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔جب بھی موقع ملا قائداعظمؒ نے پاکستان بنانے کا کریڈٹ مسلمان قوم کو دیا۔ مثلاً، اسی یونیورسٹی گراؤنڈ کے جلسۂ عام میں انہوں نے کہا:”بلاشبہ ہم نے کوشش کی اور پاکستان حاصل کر لیا۔ اور وہ بھی بغیر کسی خونی جنگ کے، اخلاقی اور ذہنی طاقت کے زور پر پُرامن طریقہ سے اور قلم کی زور آوری کے ساتھ، جس کی قوت تلوار سے کسی طور کم نہیں۔ یوں ہمارا حق پر مبنی موَقِف کامیاب رہا‘‘۔
قائداعظمؒ نے یہاں میں، سیکرٹری اور ٹائپ رائٹر نہیں کہا۔”ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ یعنی مسلمان قوم۔ اسی طرح 14 اگست 1947ء کراچی، آزادی کی ایک تقریب میں غیرملکی اخبار نویسوں نے قائداعظمؒ سے پوچھا:”آپ نے ایک معجزہ کر دکھایا ہے۔ آپ نے ایک مملکت قائم کر دی ہے۔ اس عظیم کارنامے پر آپ کے احساسات کیا ہے‘‘؟ قائداعظمؒ نے جواب دیا:”میرے جذبات یہ ہیں کہ میں خدائے بزرگ و برتر کے حضور عجز و انکسار سے شکریہ بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ عظیم دن دیکھنے کے لیے زندہ رکھا۔ لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ میں نے پاکستان بنایا تو آپ میری خدمات کے بارے میں مبالغے سے کام لیتے ہیں‘‘۔ اس پر ایک صحافی نے سوال کیا:”مسٹر جناح، پھر پاکستان کس نے بنایا؟‘‘ قائداعظمؒ کا جواب تھا:”ہر مسلمان نے‘‘۔
اور اسی پاکستان کو منصہ شہود پر لانے کی خاطر انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے بکھرے ہوئے غول کو قوم کا روپ دینے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ جب یہ بکھرا ہوا غول ایک قوم کا روپ دھار گیا تو پاکستان وجود میں آگیا۔ اور سٹینلے والپرٹ یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا:”چند افراد ہی تاریخ کا دھارا نمایاں طور پر تبدیل کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم ابھی تک دنیا کے نقشے میں ترمیم کر سکے ہیں۔ شاذ و نادر ہی کسی کو ایک قومی مملکت کی تشکیل کا اعزاز دیا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناحؒ نے یہ تینوں کام کر ڈالے‘‘۔
قائداعظمؒ نے یہ تینوں کام کر نے سے پہلے دنیا کی توجہ اس اٹل حقیقت کی طرف دلائی کہ ”پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جب اس برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا‘‘۔ اس لیے کہ فکری، نظریاتی، تاریخی اور فطری ملک پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کے ٹائپ رائٹر سے نہیں،طویل دشوار گزار اور دشوار گیر راہوں کی سختیاں جھیل کر وجود میں آتے ہیں۔