منتخب کردہ کالم

قائد اعظم، ختم نبوتؐ اور عید میلاد النبیﷺ…ڈاکٹر صفدر محمود

قائد اعظم، ختم نبوتؐ اور عید میلاد النبیﷺ…ڈاکٹر صفدر محمود
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانان پاک و ہند صدیوں سے عید میلاد النبی ﷺ نہایت عقیدت اور جذبے سے مناتے رہے ہیں۔ انگریزوں کی غلامی کے دور میں عید میلاد النبیؐ کی تقریبات بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہات تک منعقد کی جاتی تھیں جن میں درود و سلام اور نعتیں پیش کی جاتی تھیں اور اسوۂ حسنہ اور اسلامی تعلیمات پر تقریریں کی جاتی تھیں۔ عید میلاد النبیؐ اور ختم نبوتؐ کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور مسلمانوں نے ختم نبوتؐ سے عشق کے تقاضے ہمیشہ نہایت خلوص اور عقیدت سے نبھائے ہیں اور اس حوالے سے کبھی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ نہ جانے کس دشمن ایمان اور دشمن حکومت نے حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کی آڑ میں اس حوالے سے ڈیکلریشن میں تبدیلی کی جسارت کریں۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھ سے کئی پڑھے لکھے حضرات نے پوچھا کہ قائد اعظم کا اس ضمن میں کیا مؤقف تھا؟ انہوں نے خاص طور پر سر ظفر اللہ خان کے وزیر خارجہ بنائے جانے کا بھی معنی خیز انداز میں ذکر کیا۔
نفس موضوع کی طرف آنے سے پہلے اتنا لکھا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی نبی کریمﷺ سے بے پناہ عقیدت کے واقعات تاریخ میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان کے سوانح نگاروں نے اس پہلو کو کبھی ا جاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے سیکولر اور لبرل روشن خیال طبقے ایسے مذہبی تہواروں کو رجعت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سمجھتے ہیں جبکہ ختم نبوت اور عشق رسولﷺ ہمارے ایمان اور عقیدے کا جزو لاینفک یا ناگزیر حصہ ہیں۔ اسوۂ حسنہ ﷺ امن ، پاکیزگی، عشق الٰہی، حسن سلوک، روا داری، انسان دوستی، راست گوئی، انصاف اور عدل وغیرہ کا بہترین اور کامل نمونہ ہے جسے سچا مسلمان اپنی منزل سمجھتا ہے۔
قائد اعظم بیس برس کی عمر میں 1896میں انگلستان سے بمبئی پہنچے۔ وہ کئی برس انگلستان کی ہمہ جہت آزاد فضا میں گزار کر آئے تھے لیکن بمبئی پہنچتے ہی انہوں نے سب سے پہلے جس تقریب میں شرکت کی وہ تھی عید میلاد النبیؐ کی تقریب جس کی نواب محسن الملک نے صدارت کی۔ دو ڈھائی گھنٹوں کی یہ تقریب درود و سلام کے علاوہ اسوۂ حسنہ پر تقاریر اور نعت خوانی پر مشتمل تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تقریب 14اگست 1896کو منعقد کی گئی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ 14اگست ہماری تاریخ کا اہم ترین سنگ میل بن جائے گا۔ 1896میں ہندوستان آمد سے لے کر اپنی زندگی کے آخری سال 1948تک قائد اعظم تواتر سے عید میلاد النبیؐ کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے جس سے ا ندازہ ہوتا ہے کہ ان کے قلب میں عشق رسول ﷺ کی کرن روشن تھی اگرچہ بظاہر وہ مذہبی شخصیت نہیں تھے ، البتہ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی جب روشن خیالی کے علمبردار حضرات ایسے مواقع پر ’’مولوی محمد علی جناح‘‘ کی پھبتی کستے ہیں کیونکہ یہ حضرات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حُب رسول ﷺ صرف ’’مولویوں‘‘ کا خاصا نہیں بلکہ مسلمانی کا اولین تقاضا ہے اور ہر مسلمان کے قلب و روح حُب رسول کی شمع سے روشن ہوتے ہیں۔
قائد اعظم مذہبی رواداری، انسانی برابری، معاشرتی عدل اور قومی اتحاد کے قائل تھے اس لئے وہ ہمیشہ مسلکی تفریق اور فرقہ بندی سے نہ صرف پرہیز کرتے رہے بلکہ اس سوچ کی عملی طور پر حوصلہ شکنی بھی کرتے رہے۔ بے شمار مواقع پر مسلمانوں کے اتحاد میں مسلک ا ور مذہبی فرقہ بندی کی بنا پر تفریق پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن قائد اعظم نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا اور ہمیشہ ایسی سازشوں کا توڑ اسوۂ حسنہ ﷺ سے کیا۔ احمدیوں کے حوالے سے ان کا موقف واضح تھا جس کی روشن جھلک ان کے ایک بیان میں ملتی ہے جو انہوں نے سری نگر سے 10جون 1944کو جاری کیا(حوالے کے لئے دیکھیں
Speeches and statements of Quaid-E-Azam, Vol III P-1904-5, by Khurshid Ahmad Yousfi Bazam-i-Iqbal Lahore.
ہوا یوں کہ پیر اکبر علی ایم ایل اے(رکن لیجسلیٹو اسمبلی) نے قائد ا عظم کا انٹرویو کیا جس سے تاثر پیدا کیا کہ قائد اعظم احمدیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت دلانے کے لئے رولز میں تبدیلی کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کی نفی کرتے ہوئے قائد اعظم نے اپنے اس بیان میں واضح کیا کہ مسلم لیگ کی رکنیت کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے اور ان سے یہ منسوب کرنا کہ وہ آئین سے بالاتر کسی اقدام کا سوچ رہے ہیں بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس بیان میں قائد اعظم نے واضح کیا کہ وہ قادیان کے ناظم امور کے خط کے جواب میں پانچ مئی کو یہ پوزیشن واضح کرچکے ہیں۔ مطلب یہ کہ احمدی مسلم لیگ کے رکن نہیں بن سکتے کیونکہ وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہیں، چنانچہ اس پس منظر میں کوئی کنفیوژن نہیں ہونا چاہئے کہ سر ظفر اللہ خان کو ان کی قابلیت کی بنا پر اور اقلیتوں کو ریاستی ڈھانچے میں احساس شرکت دینے کے لئے دسمبر 1947میں وزیر خارجہ بنادیا گیا تھا، جس طرح ہندو رکن اسمبلی جوگندرناتھ منڈل کو وزیر قانون مقرر کیا گیا تھا۔ مقصد اقلیتوں کو احساس تحفظ، اعتماد اور سیاسی برابری کا پیغام دینا تھا جو اسلامی معاشرے کے روشن اصول ہیں۔ خود سر ظفر اللہ خان بھی اس حقیقت کو خوب سمجھتے تھے، چنانچہ انہوں نے بارہ ستمبر 1948کو قائد اعظم کے جنازے میں تو شرکت کی لیکن نماز جنازہ کے وقت ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔
زندگی کے ا ٓخری سال میں بھی جسمانی کمزوری اور بیماری کے باوجود قائد اعظم نے عید میلاد النبیؐ کی تقریب میں شرکت کی اور کچھ دل کی باتیں کیں۔ عید میلاد النبیؐ کی اس تقریب کا اہتمام کراچی بار ایسوسی ایشن نے کیا تھا جس میں گورنر جنرل پاکستان کو مدعو کیا گیا تھا۔ قائد اعظم کی تقریر مع تصویر پاکستان کے تمام اخبارات میں 27اور 28جنوری 1948کو شائع ہوئی۔ یہ تقریر خورشید احمد یوسفی کی کتاب جلد چہار میں صفحہ نمبر 1054پر پڑھی جاسکتی ہے لیکن میرے سامنے اس وقت 28جنوری 1948کے روزنامہ انقلاب کی فوٹو کاپی پڑی ہے جس میں تقریر بھی موجود ہے اور قائد اعظم بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے بھی دکھائے گئے ہیں۔ اس تقریب میں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے ایک اہم پہلو سے خلاف معمول پردہ اٹھایا۔ ذراپڑھئیے ہیکٹر بولتھو قائد اعظم کا اولین سوانح نگار کیا لکھتا ہے۔ میں نے بار ایٹ لاء کرنا چاہا تو مجھے بہت سی انز (Inns)دکھائی گئیں لیکن ’’میں نے لنکز ان کو اس لئے ترجیح دی کہ اس کے دروازے پر دنیا کے بڑے بڑے قانون سازوں(Law givers)میں پیغمبر اسلام ﷺ کا اسم مبارک بھی شامل تھا۔‘‘
اس سے اپنے نبیؐ سے ان کی گہری عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے کہا’’ایک طبقہ جان بوجھ کر شرارت کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت اسلامیہ کے اصولوں پر نہیں ہوگا۔ شریعت کے اصول بے نظیر ہیں۔ ان کا اطلاق انسانی زندگی پر آج بھی اسی طرح ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتا تھا۔ قانون شریعت سے غیر مسلموں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسلام نظریہ جمہوریت کا معلم ہے، اسلام مساوات وانصاف اور سب کے ساتھ حسن سلوک سکھاتا ہے۔ اسلام صرف رسم و روایات اور روحانی تعلیمات کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور یکساں شہری ہیں‘‘۔ سیکولر اور دین بیزار دانشوروں نے گیارہ اگست 47والی تقریر کو اپنی مرضی کا پیرہن پہنادیا ہے اور صرف اسی تقریر کا ڈھول پیٹتے ہیں حالانکہ اس تقریر اور 11اگست والی تقریر میں بہت سی باتیں مشترک ہیں لیکن وہ کبھی اس تقریر کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ شریعت کے ذکر سے ان کی آرزوئوں کا پانی مرتا ہے اور خوابوں کا فریب ٹوٹتا ہے۔ میں نے جو لکھا وہ شائع شدہ مواد پر مبنی ہے جس سے ا نکار نہیں کیا جاسکتا۔