منتخب کردہ کالم

قائد اعظم اور اقلیتیں….حسنین جمال

قائد اعظم اور اقلیتیں….حسنین جمال

طبیعت کے لحاظ سے وہ ایک مہم جو انسان تھے، پیشہ وکالت کا تھا، بول چال اور حلیہ سیکولر لوگوں جیسا تھا، تقریروں میں مسلم نیشنلزم اور جمہوریت کی بات ہوتی تھی۔ یہ سب چیزیں اگر ہم ذہن میں رکھیں تو ہمیں قائد اعظم کی سیاست میں اقلیتوں کی حیثیت جاننے کے لیے صرف گیارہ اگست والی تقریر کے پیچھے نہیں بھاگنا پڑے گا۔ وہ ایک باشعور سیاست دان تھے جنہیں یہ علم تھا کہ ریاست میں اقلیتوں کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور مہذب ممالک اپنے ملک کی اقلیتوں سے کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اقلیتی فرقہ دراصل ایک پیمانہ ہوتا ہے جس سے یہ جانچنے میں سہولت رہتی ہے کہ وہ ملک جہاں وہ رہتے ہیں وہاں جمہوری اقدار کس قدر خوبی سے نبھائی جا رہی ہیں۔
تقسیم کے دنوں میں جتنے بڑے پیمانے پہ لوگ ادھر سے ادھر ہوئے‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ خود قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل کتنے پریشر میں ہوں گے۔ سوچئے آپ ایک علاقے میں صدیوں سے آباد ہیں۔ آپ کے باپ، دادا، پردادا، لکڑ دادا، سگڑ دادا سبھی کے سب وہاں کے رہنے والے ہیں، آپ کا راج ہے، آپ کا نام چلتا ہے، آپ کے بچوں کو سب پرکھوں کے ریفرنس سے جانتے ہیں، آپ کی بہو بیٹیاں پورے علاقے کی مائیں بہنیں سمجھی جاتی ہیں، آپ کی زمینیں ہیں، جائیدادیں ہیں، فیکٹریاں ہیں، دکانیں ہیں، کاروبار ہیں، رشتے، ناتے، شادی، غمی، تیوہار، رسمیں سب کچھ ادھر دور دور تک جڑیں پھیلائے ہوئے ہیں اور اچانک آپ کو حکم ملتا ہے کہ بھیا، اب یہ دیس اپنا نہیں رہا، سامان بھی نہیں باندھنا، فٹا فٹ بھاگو اور پہلی فرصت میں بارڈر پار کر جاؤ ورنہ کیا تم کیا تمہارے بچے، سبھی پیل دئیے جائیں گے۔ تلواریں اور بندوقیں عمر کا فرق نہیں دیکھتی، نہ فسادیوں کی آنکھ میں ماں بہن کا احترام ملتا ہے، بعد میں شکایت مت کرنا، یہ دو دن کا نوٹس ہے، السلام علیکم! آپ کیا کریں گے؟ کس دل سے وہ جگہ چھوڑیں گے، کیا حکام سے کوئی یقین دہانیاں‘ کوئی گارنٹی نہیں لیں گے؟ حکومتوں سے جوڑ توڑ کر کے اسی جگہ رہنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ اگر بھاگیں گے تو کیا سوچ کے بھاگیں گے اور اگر رہ جاتے ہیں تو کس دل سے رہیں گے؟ اور حکام جس قدر مرضی کٹھور دل ہوں کیا انہیں آپ کی تکلیف کا احساس نہیں ہو گا؟ کیا انہیں بین الاقوامی طور پہ بھی فیس سیونگ نہیں کرنی ہو گی؟
ہندو قوم پورے متحدہ ہندوستان میں اکثریت سے تھی۔ سینتالیس کے بعد پنجاب اور بلوچستان میں کتنے ہندو باقی ملتے ہیں؟ جو تھوڑے بہت ہیں ان کی اکثریت سندھ میں اور تھوڑے بہت کے پی میں دوردراز علاقوں کے رہائشی ہیں۔ یعنی وہ پاکستان میں اقلیت ہو گئے۔ تو جو باقی رہے کیا وہ قائد اعظم یا دیگر ارباب اختیار کی طرف سے دی گئی کسی ضمانت یا دلاسے کے بغیر ٹکے رہ گئے ہوں گے؟ مسلمان جو برصغیر کی دوسری بڑی اکثریت تھے، وہ پارٹیشن کے بعد انڈیا میں تھوڑے رہ گئے۔ وہ ادھر کی اقلیت قرار پائے۔ کیا جو مسلمان پاکستان کی طرف نہیں بھاگے انہیں ابوالکلام آزاد یا گاندھی کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں تھی؟ اسی طرح پارسی، بہائی، مسیحی، سکھ، بدھ اور چند یہودی دونوں ملکوں میں تقسیم ہو گئے یہ سب ان دونوں ملکوں میں تیسرے نمبر پہ آ گئے، ان سب کی حفاظت اور ان سے برابری کے سلوک کے دعوے بھی ہمیں قائد اعظم اور گاندھی جی کی تقریروں میں ملتے ہیں۔ اور یہ نرے دعوے نہیں تھے۔ قائد اعظم کے بہت سے اقدامات ان کے ارادوں کی عملی پیش گوئی تھے۔
سینتالیس کے بعد اہم سٹیک ہولڈر دو تھے، مسلمان اور ہندو، دونوں طرف کی حکومتوں نے کیا ایک دوسرے کو دکھانے کے لیے ہی سہی، قانون سازی نہیں کی ہو گی کہ تم ہمارے بندوں کا خیال رکھنا، ہم تمہارے بندوں کا رکھیں گے؟ انڈیا کچھ عرصے بعد 1950 میں آئین بنا کے اس میں اقلیتوں کے حقوق کا واضح اعلان کر گیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ہمارے لیے حالات سازگار نہیں رہے لیکن ان کی زندگی پر بات کی جائے تو انہوں نے سینتالیس سے اڑتالیس تک کے عرصے میں 11 اگست کے علاوہ بے شمار مقامات پہ تقریروں کے درمیان عندیہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کریں گے۔
قائد اعظم آخری دم تک اصولوں پہ ڈٹے رہنے والے انسان تھے، وکیل تھے، جمہوری سوچ رکھتے تھے، انہوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ پاکستان بنتے ہی 17 اگست کو جو پہلا اتوار آیا، اس دن کراچی کے ایک چرچ کی دعوت پہ وہاں گئے، تھینکس گونگ کی تقریب میں شرکت کی، فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں، وہاں انہوں نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ پاکستان میں مسلم غیر مسلم کی تفریق ہرگز نہیں ہو گی۔ سب کے لیے برابری کا اشارہ دیا اور واپس آ گئے۔ اس موقعے پہ کیا انہیں یہ پتہ نہیں ہو گا کہ علما حضرات ان کے چرچ جانے کا برا منائیں گے؟ وہ کٹر اور جوش والے مسلمان جو بات بات پہ جلوس نکالتے ہیں کیا وہ قائد اعظم کی اس بات کا نوٹس نہیں لیں گے کہ ملک بنا اور تیسرے دن وہ چرچ میں بھی حاضری دے آئے؟ وہ جانتے تھے۔ وہ ایک انصاف پسند قانون دان تھے! انہوں نے یہ جیسچر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے دیا تاکہ اکثریت کے دل میں کوئی غلط فہمی نہ رہ جائے۔ دستور ساز اسمبلی بنائی تو جوگندر ناتھ منڈل کو سربراہ بناتے ہوئے پندرہ مزید ہندو اراکین اس میں شامل کر دئیے، سوچنے کی بات ہے 73 کا آئین بنتے وقت تک کتنے اقلیتی نمائندے موجود تھے؟ خیر، تو قائد اعظم بتانا چاہتے تھے کہ ایکشن سپیکس لاؤڈر دین ورڈز۔ قول سے زیادہ عمل نظر آتا ہے اور ان کے باعمل ہونے کی عادت ہی تھی جس نے پاکستان جیسے نتیجے پر پہنچ کے دم لیا۔
اس سے پہلے بھی 02 نومبر 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں، 15 جنوری 1945 کو احمد آباد مسلم سٹوڈنٹس یونین کے جلسے میں، 11 اپریل 1946 کو مسلم لیگ دہلی کنونشن میں اور بارہا دیگر جگہوں پہ انہوں نے یہ باتیں اپنی تقریروں میں کہیں کہ اقلیتیں ریاست کی معزز شہری بن کے رہیں گی، ہندو، سکھ، مسیحی سب کو پاکستان میں برابر کے حقوق ملیں گے لیکن قائد اعظم کی عمر نے بہرحال وفا نہیں کی۔ ان کے آخری دنوں میں ان کے سامنے ہی اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کے معاملے شروع ہو چکے تھے۔ اپریل 1948 میں صوبہ سرحد کے دورے کے دوران انہیں یہ شکایت کی گئی کہ فرنٹئیر پاکستان کرسچین لیگ ملک کی مکمل وفادار ہونے کے باوجود لوگوں کے بلاجواز نفرت انگیز رویوں سے پریشان ہو چکی ہے۔ ادھر مشرقی پاکستان اور سندھ کے ہندو قائد اعظم کی کوششوں سے حالات پرامن ہونے کے بعد واپس آنا شروع ہوئے تو مفاد پرست ٹولوں کا الگ ایک غل مچ گیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کی واپسی پہ پابندی لگائی جائے، یہ لوگ وسائل پہ بوجھ بن رہے ہیں۔ پھر 06 جنوری 1948 کے منحوس دن قائد اعظم کی زندگی میں ہی کراچی کے فسادات شروع ہوئے۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے، سب جھگڑے ہندوؤں کی زمین جائیداد ہتھیانے کے تھے۔ نارائن شاہانی کے مطابق (احمد سلیم؛ پاکستان اور اقلیتیں) اسی رات جمشید نسروانجی قائد اعظم سے ملنے گئے۔ قائد اعظم اس قدر صدمے کا شکار تھے کہ وہ چلا رہے تھے۔ قائد اعظم ہندوؤں کے جان و مال کے ضامن تھے، وہ انہیں تحفظ کی زبان دے چکے تھے۔ اقلیتوں سے انہوں نے وعدے کیے تھے، وہ اس سب کو روکنے کے لیے ڈی جے کالج کے کمپاؤنڈ میں پہنچے تو ہجوم نے انہیں بھی آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔
اس کے بعد گاندھی مسلمانوں کی سائیڈ لینے پہ قتل ہوئے، قائد اعظم اقلیتوں کا دکھ لیے رخصت ہوئے، کہانیاں سننے کو ہم آپ رہ گئے ہیں، آج ہم کل تمہاری باری ہے