قائد حزب اختلاف…؟…خورشید ندیم
انتخابی عمل نے سیاست کا حقیقی بیانیہ تبدیل نہیں کیا، اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ آج بھی سیاست کا اصل بیانیہ ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اس کا علم اٹھا لے۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج تحریکِ انصاف اور ق لیگ کے علاوہ، یہ پوری قوم کا بیانیہ ہے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے: قائد حزبِ اختلاف وہی ہو سکتا ہے جو اس بیانیے کو جان و دل سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔ جو اس کا قائل نہ ہو۔ جو اس باب میں متذبذب ہو۔ جس کا نقشِ قدم یوں بھی ہو اور یوں بھی، وہ اس کا سزاوار نہیں کہ اس منصب پر بٹھایا جائے۔ حکمتِ عملی کے حوالے سے دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن فکری سطح پر تو یک سوئی ہو۔
شہباز شریف صاحب اس بیانیے کے کبھی قائل نہیں رہے۔ ان کا موقف وہی ہے جسے چوہدری نثار علی خان صاحب بہتر انداز میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کا خلاصہ ہے: ‘طاقت کے مراکز سے بنا کر رکھی جائے‘۔ چوہدری صاحب کا اصرار ہے کہ اگر بنا کر رکھی جاتی تو نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ جملہ ایک متبادل بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کو ماننے والا قائدِ حزب اختلاف کیسے ہو سکتا ہے؟
قومی اسمبلی میں وہی قائدِ حزبِ اختلا ف ہو سکتا ہے‘ جو نواز شریف کے بیانیے کو پورے شعور اور صمیمِ قلب کے ساتھ مانتا ہو۔ جو عزیمت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو۔ جس کی سیاست رات کی تاریکی میں نہیں، دن کے اجالے میں آگے بڑھے۔ جو چند دن کے اقتدار کے لیے ‘بنا کر رکھنے‘ کا قائل نہ ہو۔ جو تصادم کے راستے کا مسافر نہ ہو‘ مگر ووٹ کے تقدس کی حفاظت کے لیے یکسو ہو۔ شہباز شریف اس پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ ایک اچھے منتظم کے طور پر، میرے دل میں ان کی بہت قدر ہے۔ پنجاب میں انہوں نے بہت کام کیا جس کا اعتراف عوام نے انہیں ووٹ دے کر کیا۔ اب مگر جو سفر درپیش ہے، اس کے مطالبات کچھ اور ہیں۔
گزشتہ ایک سال کی سیاست یہ بتاتی ہے کہ نواز شریف کی عصبیت شہباز شریف صاحب کو منتقل نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ قابلِ فہم ہے۔ وہ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ اپنی وابستگی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ جس ‘خلائی مخلوق‘ کو نواز شریف مسائل کا سبب بتا رہے تھے، وہ انہیں کہیں دکھائی نہ دی۔ انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر وہ ‘پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ‘ کے مصداق، واضح موقف اختیار نہ کر سکے۔ اگر وہ انتخابی مہم میں نواز شریف کے بیانیے کو لے کر نہیں چل سکے تو قومی اسمبلی میں کیسے اس کے علم بردار بن سکتے ہیں؟
نواز شریف صاحب کو قدرت نے ایک بار پھر یہ موقع دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنائیں۔ پانچ سال انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔ جیل میں بیٹھ کر یقیناً ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ یہ ذمہ داری نبھا سکیں مگر وہ یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ پارٹی میں تنظیمِ نو کی حو صلہ افزائی کریں‘ اور ان لوگوں کو سامنے لائیں‘ جنہوں نے گزشتہ ماہ و سال میں اپنے سیاسی شعور اور بلوغت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ یہی نہیں، مشکل وقت میں استقامت دکھائی اور صاحبِ کردار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
مشرف دور میں قیادت جاوید ہاشمی کو سونپی گئی تو انہوں نے اس کا حق ادا کیا۔ محترمہ کلثوم نواز اور جاوید ہاشمی ہی نے مسلم لیگ کے کارکنوں کو حوصلہ دیا اور آمادۂ جدوجہد رکھا۔ جب حالات قدرے بہتر ہوئے اور اسمبلیاں وجود میں آئیں تو قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی صاحب کو قائد حزبِ اختلاف بنا دیا گیا۔ انہوں نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی مگر میرٹ پر یہ حق جاوید ہاشمی ہی کا تھا۔ ایک بار پھر یہ لڑائی اسمبلی کے ایوان میں لڑی جانی ہے۔ اس کے لیے بیانیے سے غیر مشروط وابستگی ہی نہیں، قدرتِ کلام اور جرأتِ اظہار کی بھی ضرورت ہو گی۔
میرے نزدیک اس منصب کے لیے خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ اور احسن اقبال میں سے کسی کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ اگر خواجہ سعد رفیق اسمبلی تک پہنچ سکتے تو میں ان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کرتا۔ ان سب نے نواز شریف صاحب کے بیانیے کے ساتھ اپنی وابستگی کے عملی ثبوت فراہم کیے ہیں۔ مشرف دور میں بھی انہوں نے عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ شہباز شریف صاحب کی صحت بھی اب اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ موسمِ سیاست کی گرمی سردی برداشت کر سکے۔
نواز شریف اگر آج میرٹ پر فیصلہ کریں تو اس سے مسلم لیگ کے کارکنوں میں بھی اعتماد پیدا ہو گا۔ انہیں بھی یہ احساس ہو گا کہ شریف خاندان کے باہر سے بھی کوئی آدمی اہم منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب کی عصبیت تو، آثار یہی ہیں کہ مریم نواز کو منتقل ہو چکی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ان کی صاحب زادی ہیں۔ یہ ان کا حوصلہ اور غیر معمولی جرأت ہے جس نے مخالفین کو بھی ششدر کر دیا ہے۔ مریم نے اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کیا ہے وہ اس کی مستحق تھیں۔ جو اپنا استحقاق ثابت نہیں کر سکا، اسے محض اس بنا پر کوئی منصب دینا کہ اس کا تعلق شریف خاندان سے ہے، مناسب نہیں ہو گا۔
بدھ سے اپوزیشن کے احتجاج کا باضابطہ آغاز ہو گیا ہے۔ ابھی تحریکِ انصاف کی حکومت وجود میں نہیں آئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس احتجاج کا ہدف تحریکِ انصاف نہیں، کوئی اور ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت احتجاج کے متاثرین میں سے ہو گی۔ میری خواہش ہو گی کہ اپوزیشن اس فرق کو اپنے احتجاج میں بھی ملحوظ رکھے۔ حزبِ اختلاف کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ ملک کو کسی اضطراب میں مبتلا کیے بغیر اپنے احتجاج کو موثر بنائے۔
اپوزیشن کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ انصاف کی طلب میں اداروں سے رجوع کرے۔ اس میں مگر ایک مشکل ہے۔ اگر اپوزیشن انہی کو فریق قرار دیتی ہو تو پھر وہ کس کے پاس جائے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے: عوام۔ عوام دو طرح اپوزیشن کی تائید کر سکتے ہیں۔ ایک ووٹ دے کر‘ اور دوسرے سڑکوں پہ نکل کر۔ ووٹ وہ دے چکے اور اپوزیشن اس عمل کو ناقابلِ اعتبار کہہ رہی ہے۔ دوسری صورت کا لازمی نتیجہ سماجی و سیاسی اضطراب ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے؟
میرے نزدیک اس عقدے کی چابی عمران خان کے پاس ہے۔ وہ اس معاملے میں محض فریق بننے کے بجائے، ثالث بن جائیں۔ وہ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیں اور یہ اعلان کریں کہ وہ ملک کو کسی اضطراب سے بچانے کے لیے اپوزیشن کی ہر جائز شکایت کے ازالے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپوزیشن سے یہ تحریری وعدہ کریں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد، وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر انتخابی عمل کی جانچ پڑتال اور اداروں کی تشکیلِ نو کریں گے۔ عمران خان اعلان کریں کہ اگر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ثبوت ملتے ہیں تو وہ نہ صرف ذمہ دار افراد اور اداروں کے خلاف اقدام کریں گے بلکہ، اگر ضرورت پڑی تو نئے الیکشن کا اعلان کر دیں گے۔
اگر عمران خان اس پر آمادہ ہوں تو پھر اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے اور انہیں اپنا وعدہ پورا کرنے کی مہلت دے۔ پورا ایوان اگر مل کر ووٹ کے تقدس پر آمادہ ہو جائے تو پھر کسی احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اس میں نواز شریف کی جیت ہے اور عمران خان کی بھی۔ اگر عمران اس جرات کا مظاہرہ کر سکیں اور سال ڈیڑھ سال بعد دوبارہ الیکشن ہو جائیں تو عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ پھر شاید اپاہج کے بجائے، ایک صحیح سلامت اقتدار ان کا منتظر ہو۔
یہ ایک خواب ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کی کوئی تعبیر نہیں۔ جب قوم بالغ نظر رجالِ کار سے محروم ہو جائے تو پھر صرف بحران جنم لیتے ہیں