قبائلی نظاموں کی ترتیب نو….ڈاکٹر منظوراعجاز
دنیا کے ہر کونے میں پرانا نظام حیات بدل رہاہے اور معاشروں کی ترتیب نو ہو رہی ہے۔ ویسے تو کایا پلٹی ہر جگہ پر ہو رہی ہے لیکن قبائلی معاشروں کو بہت بڑی جست لگا کر اکیسویں صدی میں آنے کے لئے وسیع پیمانے پر شکست و ریخت کا سامنا ہے۔ اس تاریخی تبدیلی کا نشانہ سعودی عرب جیسا امیر ملک بھی ہے اور پاک و ہند کے قبائلی علاقے بھی ۔ تاریخ کا بہتر ادراک رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بنیادی مسئلے کو سمجھ کرایسی پالیسیاں بنائیں کہ تبدیلی کا یہ عمل آسانی سے طے ہو سکے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے انداز میں اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور تیزی سے قبائلی دور کی اقدار کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں جلد از جلد نیا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیں اور وہاں کے عوام کو باقی ملک جیسی سہولتیں اور حقوق مہیا کریں۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے تھوڑے ہی عرصے میں سعودی عرب میں قدامت پرستی کے خاتمے اور روشن خیال ماحول کی تخلیق کے لئے بہت سا سفر طے کر لیاہے۔ اب سعودی عرب کے شہروں میں سینما گھر کھل رہے ہیں، خواتین بائیسکل کی دوڑ میں حصہ لے رہی ہیں اور چند ماہ میں ان کو ڈرائیونگ کرنے کا بھی حق مل جائے گا۔ سعودی عرب میں فرانسیسی طرز کے اوپرا ہال
بن رہے ہیں اور موسیقار اپنے فن کا بڑے بڑے ہالوں میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ قرائن سے لگتا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو اکیسویں صدی میں لاکر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی مدد سے علاقائی طاقت بننا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ اسرائیل کے حق وجود کو بھی تسلیم کر رہے ہیں اور ہندوستان میں بھی چالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیل صاف کرنے کے کارخانے لگانا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخی طور پر ہونا ہی ہونا تھا۔
چالیس سال پہلے اگر سعودی عرب کا کوئی حاکم اس طرح کی کوشش کرتا بھی تو اس کا وہی حشر ہوتا جو افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کا ہوا۔ لیکن آج چند فرمانوں سے کایا کلپ اس لئے ہو جاتی ہے کہ چالیس سالوں میں قبائلی معاشی نظام ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ جدید صنعتی ڈھنگ نے لے لی ہے۔ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 1979تک روایتی اعتدال پسندی تھی جسے مغربی طاقتوں کے ایما پر قدامت پرستی کے راستے پر لگا دیا گیا۔ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ملک نے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے دنیا بھر میں مدرسے اور مسجدیں بنوائیں تاکہ سرد جنگ میں سوشلزم کو روکا جا سکے۔ یعنی کہ اگر سعودی عرب پر بیرونی طاقتوں کا غلبہ نہ ہوتا تو وہ اتنی زیادہ قدامت پرستی کا راستہ اختیار نہ کرتا۔ خیر جو بھی ہوا، اب وہ قبائلی نظام کا سماجی لبادہ اتار کر جدید دور میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تبدیلی کے بارے میں بھی کافی سطحی سوچ پائی جاتی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ عالمی طاقتوں کی آپسی جنگ کا اکھاڑہ بنا رہا ہے اس لئے اس کے اندرونی بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ شاید پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی 1979سے پہلے ایک خاص طرح کی روایتی معتدل مزاجی پائی جاتی تھی جس کو مذہبی تشدد پسندوں نے زمانہ قدیم کی طرف دھکیل دیا۔ لیکن چونکہ رجعت پسندی کا رجحان پنجاب میں بھی ویسے ہی بڑھا جس طرح قبائلی علاقوں میں تو اس لئے اسے محض بیرونی طاقتوں کی سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا قدیم معاشی نظام ٹوٹ رہا تھا جس کے ردعمل میں مذہبی انتہا پسندی جنم لے رہی تھی: بیرونی عوامل نے جلتی پر تیل کا کام کیا لیکن اس کی اصل وجہ قبائلی نظام میں پیدا ہونے والی معاشی تبدیلیاں تھیں۔
ستر اور اسی کی دہائی میں صرف پنجاب سے ہی بیرون ملک اور شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان نہیں بڑھا بلکہ خیبر پختونخوا اور فاٹا سے بھی لوگ روزی کے لئے دور دراز علاقوں کی طرف راغب ہوئے۔ کراچی کی طرف نقل مکانی کو ہی لیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ آج یہ پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ پنجاب کی طرف نقل مکانی کرنے والے پختونوں کے اعداد و شمار ناپید ہیں لیکن سرسری مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ گویا کہ پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں کے لوگ بڑی تعداد میں بڑے شہروں اور قصبوں کی طرف منتقل ہوئے۔ باہر جانے والے لوگوں کی وجہ سے اس علاقے میں جدید اشیاء اور نئے خیالات کا ورود ہوا۔ اس طرح سے چند دہائیوں میں قبائلی علاقوں کا روایتی معاشی نظام تقریباًً ختم ہو گیا لیکن سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑا خلا پیدا ہوا جسے طالبان سمیت دوسرے متشدد مذہبی گروہوں نے پر کیا۔
تاریخ میں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا لیکن ایک بات صاف نظر آتی ہے کہ اگر قبائلی علاقوں میں نام نہادعالمی جہاد کو پروان نہ بھی چڑھایا جاتا تو تب بھی اس علاقے میں شورش کے امکانات تھے۔ یہ علاقہ نئی صورت حال میں ریاست کے جدید اداروں کا طلبگار تھا جب کہ پاکستان کے حکمران اسے پرانے نظام سے ہی چلانا چاہتے تھے: ملکوں اور مرکز کے روایتی نمائندوں کا دور ختم ہو چکا تھا، اسی لئے طالبان نے سب سے پہلے ملکوں کے نظام کو ختم کیا۔ اگر پاکستان کی ریاست اسی یا نوے کی دہائیوں میں اس علاقے کی بدلتی ہوئی معاشی و سیاسی صورت حال کے مد نظر نیا انتظامی ڈھانچہ متعارف کروا دیتی تو شاید اتنی تباہی اور بربادی نہ ہوتی۔ آج بھی اس علاقے کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان کو باقی پاکستان جیسی سہولتیں اور نظام حکومت میسر ہو۔پاکستانی ریاست کو سیاسی درفطنیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس علاقے میں نیا نظام نافذ کردینا چاہئے کیونکہ اس سلسلے میں دیر کرنے سے بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔