قبل از الیکشن دھاندلی کی باتیں…کنور دلشاد
نواز شریف اپنی پینتیس سالہ سیاست کے خاتمے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور ان کا یہ مطالبہ حیران کن ہے کہ نگران حکومت کے دوران قومی احتساب بیورو کے قوانین معطل کر دیئے جائیں تاکہ ان قوانین کو سیاستدانوں کے خلاف استعمال نہ کیا جا سکے۔نواز شریف کا یہ بیانیہ الیکشن ایکٹ 2017کے منافی ہے اوروزیر اعظم شاہد خاقان عباسی امیر ترین اور مبینہ کرپٹ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے بہت آ ٓگے بڑھ کر اقدامات اٹھا رہے ہیں ،ایمنسٹی سکیم کے اقدامات سیاسی طور پر ان کی جماعت کے لئے نقصان دہ ہو سکتے ہیںاور الیکشن مہم کے دوران اپوزیشن جماعتیں ان کو مفلوج کر کے رکھ دیں گی ، ملک خوفناک سیاسی بحران کا شکار ہے ،ایسے اقدامات سے امیر امیر ترین اور غریب غریب ترین ہو جائے گا، درمیانی طبقہ تیزی سے معدوم ہوتا چلا جائے گا، ملک کے تجارتی اور مالیاتی خسارے میں مسلسل اضافے کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور عوام اپوزیشن جماعتوں کی طرف دیکھ کر مسلسل مایوس ہو ر ہے ہیں کہ ان جماعتوں نے بھی اپنے سیاسی مستقبل کے لئے اپنی دانست کے مطابق ابھی تک کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی اور منشور میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ٹھوس معاشی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔نواز لیگ 30برسوں میں کمزور ترین حکومت اس لئے ثابت ہوئی کہ 11مئی 2013کے انتخابات میں جعلی بنیادوں پر کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے عوام سے انتقام لیتے ہوئے رشوت،لوٹ مار ،لاء اینڈ آرڈرکے سہارے غریب عوام پر پولیس کے ذریعے ظلم کیا ۔
نواز شریف کو صدمہ تھا کہ جب 12اکتوبر 99ء کی رات ان کو وزارت عظمیٰ سے بر طرف کیا گیا اور ان کو اٹک جیل اور پھر لانڈھی جیل میں بند کر دیا تھا تو عوام نے ان سے بے زاری اور لا تعلقی کا مظاہرہ کیا ۔وہ لندن اور جدہ میں اسی انتقامی آگ میں جلتے رہے ،آصف علی زرداری سے باہمی اشتراک کرتے ہوئے انہوں نے پنجاب میں حکومت کی اور وفاقی سطح پر صدر زرداری کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جس کے نتیجہ میں 11مئی 2013کے انتخابات میں جعلی مینڈٹ کے ذریعے اقتدار میں آ گئے اور ملک میں رشوت کا بازار گرم کرا دیا۔شہباز شریف سرکاری اشتہاروں کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور بالآخر نواز شریف پانامہ پیپرز کیس میں وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت دونوں سے نااہل قرار دے دیئے گئے ،اور قدرت کے نظام کے تحت 1988ء میں محمد خان جونیجوسے مسلم لیگ کی صدارت چھین لینے کے بعد اس وقت کمزور آئینی شکل میں ہیں اور 28جولائی 2017کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بظاہر مسلم لیگ عملی طور پر نواز شریف سے محروم ہو گئی ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ پر ان کی گرفت بھی نہیں رہی ، اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعلیٰ شہباز شریف کچھ وزراء اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نہ صرف دبائو میں ہیں بلکہ تحقیقات اور تفتیش کی زد بھی ۔مجرم ثابت ہونے پر نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر ، اسحاق ڈار ،حسین نواز اور حسن نواز سب کو سزا ہو سکتی ہے اور ممکن ہے ان کی قسمت کا فیصلہ 7مئی سے پہلے ہی ہو جائے گا ۔ اس سے قبل نواز خاندان کو کبھی اتنی مشکلات پیش نہیں آئیں اور ہمیشہ مقدر کے سکندر رہے ۔ان کے والد محترم میاں محمد شریف نے در پردہ اپنے مخالف حکومتی حلقوں میں سرنگ بنائی ہوئی تھی جو ان کے لئے ریلیف حاصل کرتے رہے۔ 1995ء میں انہوں نے محترمہ عابدہ حسین کے ذریعے صدر فاروق لغاری سے درپردہ تعلقات استوار کر رکھے تھے ۔ اور اب مسلم لیگ نواز سے منحرفین سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں ، اور 10مئی کے بعد ان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ،۔نام نہاد بجٹ پیش ہونے کے باو جود ان کی جماعت اور دیگر سیاسی جماعتوںکی طرف سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بجٹ کی نا منظوری کے بعد ہی پیش ہو جائے گی۔
صورت حال یوں ہے کہ حکومت 27اپریل کو قومی بجٹ پیش کر رہی ہے اور 10مئی تک پراسیس سے گزرنے کے بعد منظوری پر آکر سوئی رک جائے گی ۔ حکومت بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہو جائے گی اورمیرے خیال میں اسی رات حکومت تحلیل ہو جائے گی ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چند روز پیشتر مستقبل کے خطرات سے نواز شریف کو آگاہ کر تے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ وہ سخت دبائو میں ہیں ۔ان کی کابینہ کے ارکان ان سے علیحدگی اور لا تعلقی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔نواز شریف کے خیال میں عوام نے ان کے خلاف عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے ۔ ان کی یہ سوچ محض خام خیالی ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر سیاسی نقل و حرکت کے باوجود وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے حکومتی رٹ قائم کرنا مشکل ہے کیونکہ حکومت اور پارٹی میں بحران سنگین ترہو رہا ہے ۔قبل از انتخابات دھاندلی اور عام انتخابات سے پہلے سیاسی جوڑتوڑ جیسے معاملات طاقتور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ تاہم اس طرح کی مداخلت کی روک تھام کے لئے آئینی اداروں کو با ضابطہ ریفرنس اور ٹھو س ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔نواز شریف کو 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی نظر آرہی ہے جبکہ 2013ء کے انتخابات پر بائیس سیاسی جماعتوں بشمول نواز لیگ نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اگر ان کی حکومت عمران خان کے چار حلقوں میں ووٹوں کی از سر نوگنتی کے مطالبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے اس وقت کے الیکشن کمیشن پر زور نہ ڈالتی تو عمران خان کی تحریک کبھی زور نہ پکڑتی ۔اب اگر نواز شریف مبینہ دھاندلی کے بارے میں فکر مند ہیں تو ان کا یہ الزام ابھی تک صرف ایک سیاسی بیان تک ہی محدود رہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ان کی یا ان کی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔
نواز شریف قومی احتساب بیورو کی طرف سے اپنے ساتھیوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے پریشان نظر آ رہے ہیں ۔ اگر نواز شریف نے وزیر اعظم کی مدد سے آر ڈیننس کے ذریعے کوئی قانون لانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان ایسے کسی بھی آرڈی ننس کوکا لعدم قرار دینے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ ایسے آ رڈی نینس بد نیتی کے زمرے میں آتے ہیں ۔آرڈی نینس کی منسوخی کے بعد نواز لیگ عوام کے اعتماد سے محروم ہو جائے گی کیونکہ عوام کو یہی پیغام جائے گا کہ نواز شریف بظاہر کرپشن کے خلاف مہم چلاتے رہے مگر جونہی ان کے وفادار ساتھی نیب کے گھیرے میں آئے تو ان کو آر ڈی نینس کے ذریعے بیل آئوٹ کرایا جا رہا ہے۔ آ ج عوام بیداراور با شعورہیں اور میڈیا جاگ رہا ہے ۔قومی احتساب بیورو سیاست دانوں کو دبائو میں نہیں لا رہا بلکہ ان کے کرپٹ ساتھی نیب کی زد میں آ چکے ہیں ۔ اب ریٹرننگ افسران2013ء کی مشق دہرانے کے اہل نہیں رہے ، ان کی کار کردگی کا جائزہ چیف جسٹس آف پاکستان لیتے رہیں گے اور ریٹرننگ افسران کے کاغذات نامزدگی کو منظور کرنے سے پہلے نیب،ایف آئی اے، ایف بی آر ،سٹیٹ بینک آف پاکستان سے کلیئرنس حاصل کرنے کا مجاز ہوگا۔
آئندہ انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب ،اندرون سندھ اور بلوچستان میں مضبوط ،فعال گروپس سامنے آ رہے ہیں ۔سندھ میں پیر پگاڑا 1977کی طرز پر متحدہ اپوزیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور جنوبی پنجاب میں بھی حکمران جماعت کے منحرفین نے با مقصد گروپ کا علامیہ جاری کر کے وہاں کی سیاست کا رخ موڑ دیا ہے۔ شمالی پنجاب اور پوٹھو ہار میں چوہدری نثار علی خان کا گروپ نواز شریف کے عدلیہ اور فوج مخالف بیانات کو دفن کر دے گا ۔ تحریک انصاف سنگل جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے گی اور دیگر گروپس کی مشاورت سے حکومت تشکیل دے سکے گی جس کے تحت وفاق میں عمران خان اور پنجاب میں چوہدری نثا ر علی خان طاقت ور جماعت کی حیثیت سے سامنے آئیں گے ۔سندھ میں پیر پگاڑا کا ڈیمو کریٹک الائنس کراچی اور حید ر آباد کے ارکان اسمبلی کی معاونت سے حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔پاکستان کی سیاست اب ایک خطرناک موڑ پر آ گئی ہے ۔ پاکستان میں ایک بھی پارٹی ایسی نہیں جو دعویٰ کر سکے کہ وہ جمہوری ہے ، تقریباً سب ہی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں، پارٹی کا صدر اس کا واحد مالک ہے پارٹی الیکشن میں کوئی امید وار اس کے مقابلے میںکھڑا نہیں ہوتا ۔ ایک مالک باقی سب ملازم، ان پارٹیوں میں اندرونی انتخابات کی کوئی حقیقت نہیں۔