منتخب کردہ کالم

قحط سے پہلے: عبدالقادر حسن

جیسا کہ میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ میں وادی سون کا رہنے والا ہوں اور یہ وادی تمام کی تمام بارانی ہے یعنی اس کی زندگی کا انحصار بارش پر ہے اگر بارش ہو تو یہاں آباد انسانوں، جانوروں اور زمینوں کو زندگی مل جاتی ہے ورنہ یہاں ہر طرف قحط اور خشک سالی سب کچھ ادھ موا کر دیتی ہے۔ بارش کے انتظار میں سسکتے کھیتوں کو میں نے کئی بار دیکھا ہے اور ان کھیتوں پر زندگی بسر کرنے والے جاندار نڈھال حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں نیم جاں رہتے ہیں۔

ان دنوں وادی سون بڑی حد تک قحط کی صورت حال سے دوچار ہے جس میں زمین سمیت جاندار بھی موت کو اپنے قریب آتے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے کئی بار سوچا کہ اپنی جنم بھومی کو اس حال میں ایک نظر دیکھ لوں اور اس کی اس زندگی کی کشمکش کو محسوس کرنے کی ہمت کر لوں جس کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے میں نے کبھی وہاں جنم لیا تھا اور بارش سے محروم کھیتوں میں زندگی شروع کی تھی۔ لیکن میں اس حالت کو دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ میرے لیے گرد آلود زندگی کرنے کی سکت نہیں تھی۔ انسانوں سمیت ہر جاندار ایک دہشت میں دن رات کر رہا ہے۔ جانور پانی کی تلاش میں بھاگے پھر رہے ہیں اور اپنی عجیب و غریب آوازیں نکال رہے ہیں۔ ڈرا دینے والی آوازیں جس کو برداشت کی ہمت عام انسانوں میں نہیں ہے۔

ابھی یہ قحط کا آغاز ہے جس نے ہر سمت خوف کی ایک فضا پیدا کر دی ہے۔ معلوم ہوا کہ زیرزمین پانی بھی کم ہو رہا ہے اور کنوئیں اور ٹیوب ویل بس جوں توں کر کے جی رہے ہیں۔ ان کے پانی سے جینے والی زندگی حوصلہ ہار رہی ہے اگرچہ کسی حد تک ضرورت کا پانی دستیاب ہو رہا ہے لیکن اس کی مقدار اس قدر کم ہے کہ رفتہ رفتہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ اگر قدرت نے مہربانی نہ کی تو پھر کیا ہو گا اس کا اندازہ صرف وہ انسان کر رہے ہیں جو اس زمین پر سانس لیتے ہیں اور وہ جانور جو قحط سے بے خبر پانی کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگتے پھر رہے ہیں۔

ابھی تک قحط کا حال تحریروں سے معلوم ہوا اور اب جب قحط کی ایک جھلک دیکھ رہے ہیں تو یہ دل پر ایک دہشت طاری ہے انسان اللہ اللہ کر رہے ہیں اور حیوان اپنی بے تابی نہ جانے کس انداز میں ظاہر کر رہے ہیں۔ یہاں لاہور میں قحط صرف اتنا ہے کہ درخت مٹی سے بھر گئے ہیں اور ان کے پتوں کا رنگ بدل گیا ہے۔ لاہوری اس منظر کو پسند نہیں کر رہے لیکن میرے گاؤں میں جو انسان آباد ہیں وہ اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے سرپیر مار رہے ہیں اور ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جوکچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔

قحط عربوں کی دنیا میں بھی آتا رہا جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے لیکن میں نے حضرت عمرؓ کے زمانے کے قحط کا جو حال پڑھ رکھا ہے اللہ اس سے بچائے کیونکہ ہمارے پاس عمر نہیں ہے جو اپنے معصوم بیٹے کے منہ سے خربوزے کی پھانک نکال لے اور جب کوئی کہے کہ یہ تو بچہ ہے آپ کیا کر رہے ہیں تو اس کو جواب ملے کہ کیا دوسرے بچے مسلمانوں کے بچے نہیں جو قحط میں اس ’’عیاشی‘‘ سے محروم ہیں۔

تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایک بار قحط پڑا تو انھوں نے نماز استسقاء کے لیے جمع لوگوں سے پوچھا کہ کیا کسی کے پاس حضور پاک کی کوئی نشانی ہے تو ایک صحابی نے جواب دیا کہ اس کے پاس حضور پاک کی ایک چادر ہے حضرت عمرؓ نے کہا جاؤ بھاگ کر لے آؤ۔ وہ لے آیا تو انھوں نے دونوں ہاتھوں میں یہ متبرک چادر اٹھا کر دعا مانگی کہ یا اللہ میں اس چادر کا واسطہ دیتا ہوں۔ بارش برس گئی اور بتاتے ہیں کہ وہ چادر بھی بھیگ گئی جسے حضرت عمر نے اپنے گرد لپیٹ لیا اور نماز کے میدان میں بھی بارش برسنی شروع ہو گئی لیکن ہمارے پاس اب ایسی نعمتیں کہاں ہم تو محروم لوگ ہیں۔ بس فریاد کر سکتے ہیں اور بس۔

میں لاہور میں ہوں جہاں نلکا کھولیں تو پانی آنا شروع ہو جاتا ہے اور لوگ نہا دھو بھی لیتے ہیں۔ میں بھی نہا کر بیٹھا ہوں لیکن اپنے گاؤں میں تو پانی کا ایک گھونٹ بھی اگر میسر ہے تو بڑی کنجوسی کے ساتھ اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے کبھی نہیں بھولے گا کہ میری والدہ میرے پاس لاہور آئیں تو پانی کی یہ فراوانی دیکھ کر پریشان ہو گئیں بلکہ گھبرا گئیں۔ میں انھیں اس حالت سے بچانے کے لیے واپس گاؤں چھوڑ آیا جہاں کی زندگی ان کی اپنی زندگی تھی۔ تھوڑا بہت پانی بھی تھا اور اس پانی سے قطرہ قطرہ سیراب ہونے والی زندگی بھی تھی۔

وہ اسی تنگدستی کی زندگی کی عادی تھیں اور گاؤں میں واپس جا کر شہر میں ہر چیز کی فراوانی کے قصے سناتی تھیں اور گاؤں والوں کو حیرت زدہ کرتی تھیں لیکن وہ شہر کی اس زندگی کی عادی نہیں تھیں جس میں ان کو ملنے والے انسان کم ہوں اور پانی بے شک زیادہ رہے لیکن وہ کس کے ساتھ مل کر شہر کے اس پانی سے سیراب ہوں۔ یہ وہ لوگ تھے جو مل جل کر زندگی بسر کرتے تھے اور ہر سہولت بانٹ کر کھاتے تھے۔

یہ تو انسان تھے اس زمانے میں تو جانور بھی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے تھے اور اگر پانی زیادہ ہوتا تو وہ اس میں کود بھی جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھینسیں پانی کے تالاب میں گھس جاتی تھیں تو انھیں باہر نکالنا بے حد مشکل ہوتا تھا اور انھیں کتنے ہی لالچ دے کر اس پانی سے باہر نکالا جاتا تھا۔ باہر تو پینے کا پانی بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتا تھا جب کہ کسی تالاب میں وہ پانی سے جی بھر کر فیض یاب ہوتی تھیں۔ کسی تالاب کا یہ پانی پہاڑ کا پانی ہوتا جو بارش میں جمع ہو جاتا تھا۔ اور کچھ مدت تک تالاب میں باقی رہتا تھا۔ میں یہ باتیں اہل شہر کو سنا کر انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا کہ ان کے بھائی پانی کے لیے کتنی محرومی محسوس کرتے ہیں اور یہ پانی انھیں کس مشکل سے ملتا ہے۔ خدا کرے ہم قحط سے بچ جائیں اور زندہ رہیں۔