منتخب کردہ کالم

قصہ چہار درویش…وقارخان

قصہ چہار درویش...وقارخان

قصہ چہار درویش…وقارخان

دنیائے دوں، آماجگاہِ بو قلموں اور نیرنگی گوناگوں کے تجارانِ دل و روایانِ شیریں مقال درویشِ چہارم کی داستانِ پردیس بہ زبانِ درویش یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
”مسافر شب کو اٹھتا ہے جو جانا دور ہوتا ہے… آخر ِ شب کا اٹھا یہ آفت رسیدہ جنگل کی جھاڑیوں اور درندوں سے الجھتا، گرتا پڑتا طلوعِ آفتاب کے سمے ویرانے میں ایک خستہ حال عمارت میں جا پہنچا۔ یہ خرقہ پوش دور اُفق تک پھیلی لوہے کی دو قطاروں کو حیرت سے دیکھتا تھا کہ دفعتاً سیٹی بجاتی مانندِ آنتِ شیطان لمبی ایک ریل نمودار ہوئی۔ پس شوقِ سیاحت کا مارا یہ مسافر ایک پُر ہجوم ڈبے میں سوار ہوا اور تمام راستہ خوار ہوا۔ رات کے کسی پہر اس چھکڑے نے کراں تابہ کراں پھیلے ایک شہر میں پہنچ کر اس گناہگار کے بوجھ سے خود کو آزاد کرایا تو درویش نے اپنے آپ کو نیکو کاروں کے ہجوم میں پایا۔ یا للعجب! وہ فطرت سے محاذ آرائی کے شوقین تھے اور بڑے ہی رنگین تھے۔ وہ مفروضے قائم کرتے اور چاہتے کہ دنیا ان پر مہر تصدیق ثبت کر دیوے۔ بخدا وہ التباسات کے برق رفتار گھوڑوں پر سوار حقائق سے کوسوں دور سر پٹ دوڑتے تھے۔ دنیا بھر کے واقعات بوساطت سیٹیلائٹ نامی کسی بلا کے براہِ راست دیکھتے مگر پڑوسی کی تکلیف سے ناآشنا تھے۔ ان کی دلیل کے ہاتھ میں ہر دم ڈنڈا دیکھا۔ شاید اسی لیے دنیا انہیں ڈنڈے کی قوم کے نام سے یاد فرماوے تھی۔
عجب مخولیہ فطرت آدم زاد جو مانندِ شیخ چلی خیالی پلائو پکاتے کہ ساری دنیا ان مردانِ جری سے خوف زدہ ہووے ہے اور بر خلاف ان کے سازشوں کے چکر چلاوے ہے مگر نیکو کاروں کے پائے استقلال میں لغزش نہ آوے ہے۔ ان کے دل میں
موجزن غیرت کا قلزم مگر ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہر دم۔ امدادِ غیر ملکی کو لعنت خیال کرتے تھے مگر ان کے کشکول کا پیندہ نہ تھا، جسے دنیا کے در در پر گھماتے اور اس میں خیرات ڈالنے والوں کو آنکھیں بھی دکھاتے تھے۔ وہ غیرت کے پتلے امداد دینے والے کسی دوست نما دشمن کی طعنہ فرسائی اور دھمکیوں پر چیں بہ جبیں تھے اور بڑے ہی غمگیں تھے۔ دشمن سنپولیوں کو پالنے پر غضب ناک تھا اور اس کا اندازِ سخن شرمناک تھا۔ معلوم پڑا کہ دشمن ان کو ایزی لوڈ کراوے تھا، پھر پچھتاوے تھا اور دھمکیوں پر اُتر آوے تھا۔ صراطِ مستقیم پر گامزن وہ قوم دن رات اپنا عزمِ صمیم و ارادہ ضخیم دہراوے تھی کہ اگر دشمن دَر اندازی پر اُتر آوے گا تو بخدا بچ کے نہ جاوے گا۔ ان کا غیظ و غضب دیکھ کر فقیر کو یقین ہوا کہ وہ دشمن کی تکہ بوٹی کر کے ہی دم لیویں گے۔ معلوم پڑا کہ وہ پیشہ ور جارح بار بار سلطنت کے دروں بہ حیلہ ڈروں در اندازی کا مرتکب ہوکر ان کی ملی غیرت پر چرکے لگاوے تھا مگر کم بخت بچ کے نکل جاوے تھا۔ اس خاک زادے نے تماشا کیا کہ وہ خوددار قوم سود پر قرضہ دینے والی آئی ایم ایف نامی کسی مائی پر بھی غضب ناک تھی اور واسطے اس ظالم کے گفتار میں بے باک تھی۔ تعمیرِ ملت کے جذبے سے سرشار و پر وقار لوگ‘ جو عزت سے جینے اور ٹھگی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔
ایک دن بیمار پڑا تو مقامی طبیب کے در پر حاضری دی۔ اس ستم گر نے بھاری معاوضہ ہتھیا کر عارضۂ معدہ بر بنائے خوراکِ ناقص و مضرِ صحت پانی بتلایا اور دوا اور دعا دی۔ دوا کھائی تو اس نے پردیسی کے زخم جگر کو جا لیا اور جیسے عزرائیل کو بلا لیا۔ یہ غریب الدیار ایک بڑے سرکاری شفا خانہ، جسے مسیحا‘ شفا خانۂ حیوانات سمجھ کر چلاتے تھے، کے گندے فرش پر پڑا بخار میں تپتا تھا اور جنگل کو یاد کر کے تڑپتا تھا مگر کوئی مسیحا اسے نہ تکتا تھا۔ بے توجہی کا مارا یہ جاں بلب طبیبوں اور نرسوں سے التجائیں کرتا مگر اس کی ہر صدائے استمداد، صدا بہ صحرا ہی ثابت ہووے تھی۔ ایک نرس کو آواز دے کر مدد کی درخواست کی تو اس نے طنز سے فرمایا ”نواں آیا ایں سوہنیا؟‘‘ بمشکل ایک طبیب کو روک کر عرض کیا کہ یہ غریب جنگل سے وارد ہوا‘ پردیس میں مرنے کا خواہاں نہیں۔ اس سنگ دل نے چلتے چلتے فرمایا ”دَھت تیرے کی! اس شہر میں غریبوں کی کوئی کمی تھی کہ تو نے بھی جنگل سے آکے اس ہسپتال کی رونق بڑھائی‘‘۔ آخر شفا خانہ کی صفائی پر مامور ایک نوجوان کی خدمت میں یک صد روپے نذرانہ پیش کیا تاکہ وہ اس تیرہ بخت کو مرنے سے بچانے کے واسطے کوئی راہ سجھاوے۔ وہ حوصلہ دیتا تھا اور فرماتا تھا کہ واللہ ! تجھے ٹکرنے والا طبیب جعلی تھا یا پھر دوا۔ خاکروبِ مستانہ اس جاں بلب کوسہارا دے کر باہر لایا اور ایک ذاتی شفا خانہ، مالک جس کی زنانہ اور بہ زبانِ غیر جسے پرائیویٹ ہاسپٹل پکارا جاتا، کی دہلیز پر چھوڑ آیا۔
بخدا اس پرائیویٹ شفا خانہ کا فرش مانندِ شیشہ چمکتا تھا، جس پر اس خرقہ پوش کا عصا پھسل پھسل جاتا تھا۔ یا حیرت! ایک ٹھنڈی مشین کے صدقے باہر تابستاں، اندر زمستاں اور یہ ناقص البیاں حیراں و پریشاں۔ باری آنے پر فقیر زادہ ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہا ں حافظؔ شیرازی کے مصرعوں کی مثل خدوخال کی حامل ایک نفیس طبیبہ، جس سے حورانِ بہشت بھی حسد کریں، کرسی پر جھولتی تھی۔ وہ ایک طلسمی ڈبیا کان سے لگائے غٹر غٹر باتیں کرتی تھی اور باتوں سے پھول جھڑتے تھے۔ اثنائے سخن وہ سرو قد رشکِ چمن ادائے دلربا کے ساتھ کھلکھلاتی تو اس کے رخسار مثلِ سیبِ قندھار میں ایسے زہد شکن گڑھے پڑتے کہ اس فقیر زادے کا دل اچھل کر حلق میں آتا۔ خطا کار اس پری وَش کو ہونقوں کی مانند تکتا تھا اور سبحان سبحان کہتا تھا ۔واللہ، اس کے جمال کی رعنائی کے آگے حکماء کی دانائی ہیچ تھی۔ دکھی انسانیت کی خدمت اس مہ پارہ کا بیوپار تھا اور دلوں پر راج کرنا اس کا شعار۔ زندگی کی حرارت سے بھرپور اس خاتونِ زندہ دل و دلپذیر کی چشمِ کتھئی میں بھی شفا تھی اور جادوئی ہاتھ میں بھی۔ نگاہِ ناز کو اپنا نگراں پایا تو بندہ کھنچا چلا آیا اور بے مہابا سارا فسانۂ بیماری کہہ سنایا۔ وہ جسدِ قلفی سدا بہار آلہ گفت و شنید کان سے ہٹا کر اس عاجز کی ڈانگ اور حلیۂ درویشانہ دیکھ کے مسکرائی تو دل کے ویرانے میں بہار آئی۔ طبیبۂ مہرباں نے صندلیں کلائی میں کنگن کھڑکا کے اپنی مکھن ورگی مخروطی انگلیاں اس مریضِ خطا و خطن کی ڈوبتی نبض پر رکھیں تو جیسے دلِ مضطر کو قرار آیا اور اپنی تھاں پر خوں کا فشار آیا۔ ایسے عالمِ دلفریب میں اس بندۂ بیمار کی طیبعت میں شگفتگی اتر آئی تو بر محل ایک شوخ سا شعر لبوں سے خطا ہو گیا کہ ؎
اگر ترا ہاتھ دل پہ ہوتا تو کیا ہوتا
کہ نبض دیکھی تو رہ گیا بخار آدھا
اس سخنِ گسترانہ نے اس عفیفہ و طبیبہ کے گالوں کو گلنار کیا اور اس گناہگار کو اور بھی گناہگار کیا۔ دفعتاً مثلِ سانڈ ایک مردِ نامعقول کمرے میں داخل ہوا اور سخنِ عامیانہ کے بعد زَر کا مطالبہ کر دیا۔ معلوم پڑا کہ وہ اس کا بلما تھا مگر بڑا ہی نکما تھا۔ فقیر زادے کے دل میں ملال اُتر آیا کہ اس شہرِ پُر آشوب میں بندر عید مناوے تھا اور کتا کھیر کھاوے تھا۔ المختصر! اس دریا دل طبیبہ نے بندۂ قلاش کو مفت دوائیں دے کر شرمسار کیا اور گیٹ سے پار کیا۔
ایک روز بڑے چوک میںلونڈوں کو دیکھ کر لاحول پڑھتا تھا کہ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ لباسِ فاخرہ میں ملبوس قوی الجثہ فقیہہ شہر و درویشِ عصر مصاحبوں اور محافظوں کے جلو میں ہمراہ اعلیٰ نسبی موٹروں کے جلوس، بصد تزک و احتشام جاتا تھا۔ اشارے پر موٹریں رکیں تو لپک کر گیا اور عرض کی کہ اے رشکِ یوسف! یہ ناقص العقل انگشت بدنداں ہے کہ اس ملکِ خداداد میں آپ جیسے لوگ تنکا توڑ کر دو نہیں کرتے، واسطے روزی روٹی کے، پھر اس شاہانہ حیات کے وسائل کہاں سے پاویں ہیں؟ یہ درویشی ہے یا عیاری؟ اس نے بندۂ قلاش کی پوششِ دریدہ پر حقارت سے نگاہ ڈال کر ایک آنکھ دبائی اور اپنی ریشِ دراز پر ہاتھ پھیر کر فرمایا ” اے درویشِ خرقہ پوش! یہ جنگل نہیں‘ ملکِ امیر و کانِ پستہ و کھیر ہے۔ کیوں مانندِ آزاد امیدوار منہ اٹھائے پھرتا ہے اور پریشانیوں میں گھرتا ہے؟ جا اپنے جنگلی ٹھکانے پر کہ یہ دنیا تجھے زیبا ہے، نہ تو اس دنیا کے قابل‘‘۔
پس اس صاحبِ کمال کا مشورۂ اکسیری سن کر طبیعت ہری ہو گئی اور اس فقیر زادے نے جو آمادۂ سفرِ آزادی ہوا تھا، یہ جاننے کے واسطے کہ آدم زاد تعمیر و ترقی کی کتنی منزلیں سَر کر چکا اور معراجِ انسانیت کس آسماں پر ہے، اپنے جذباتِ آوارگی پر مٹی ڈالی اور واپس جنگل کی راہ لی‘‘۔