منتخب کردہ کالم

قلعے میں شگاف ؟؟؟….رؤف طاہر

قلعے میں شگاف ؟؟؟….رؤف طاہر

حمزہ شہباز شریف کا یہ دعویٰ اخلاقاً بجا کہ سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے پنجاب میں حکومت سازی کا پہلا حق مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ جمعہ کی سہ پہر تک منظر عام پر آنے والے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کی 129 نشستیں حاصل کر لی تھیں‘ اور یوں اسے پی ٹی آئی پر آٹھ، دس نشستوں کی سبقت حاصل تھی۔ پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت کے لیے حمزہ نے دیگر (چھوٹی) جماعتوں اور مردانِِ آزاد سے رابطوں کی بات کی۔ انہوں نے مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کی یاد بھی دلائی‘ جب یہاں پی ٹی آئی ”سنگل لارجسٹ‘‘ تو تھی لیکن ”سادہ اکثریت‘‘ نہ رکھنے کے باعث اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ تنہا حکومت بنا سکے۔
مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کا پورا بندوبست کر لیا تھا۔ (ہمارے مولانا، سیاسی جوڑ توڑ میں ”مفاہمت کے بادشاہ‘‘ سے کم نہیں) اور یہاں تو یہ کام اس لیے بھی آسان تھا کہ مسلم لیگ (ن) مرکز میں حکمران بننے جا رہی تھی اور اس کے ”اثر و رسوخ‘‘ سے صوبے میں اپنی پسند کی حکومت کا قیام آسان تر ہو جاتا… لیکن نواز شریف نے یہ کہہ کر مولانا سے معذرت کر لی کہ وہ ملکی سیاست میں خوشگوار آغاز چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی سنگل لارجسٹ پارٹی ہے، تو صوبے میں حکومت سازی کا پہلا حق اس کا ہے۔ وہ اپنی اکثریت بنانے میں ناکام ہو جائے تو اس کے بعد دوسروں کی باری آنی چاہیے۔ بلوچستان میں معاملے کی خصوصی حساسیت اور نزاکت کے باعث انہوں نے بلوچ قوم پرست (نیشنل پارٹی) کو وزارتِ اعلیٰ دینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ اسمبلی میں عددی لحاظ سے وہ تیسرے نمبر پر تھی۔ محمود خان اچکزئی کی دوسرے نمبر والی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو صوبے کی گورنری (اور کچھ صوبائی وزارتوں) پر راضی کر لیا۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو نواز شریف نے اپنی پارٹی کو یہ کہہ کر الگ کر لیا کہ منتخب حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے (حالانکہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے سو فیصد فول پروف انتظامات موجود تھے)۔
اب پنجاب میں حکومت سازی کے لیے حمزہ کا مؤقف اخلاقاً درست‘ لیکن کیا معاملہ اتنا ”سادہ‘‘ ہے۔ 1988-90ء میں وفاق میں بے نظیر صاحبہ کی (پہلی) حکومت کے دوران، پنجاب میں نواز شریف (اور بلوچستان میں اکبر بگٹی) کی صوبائی حکومت تھی اور وفاق اور صوبوں میں کشمکش نے وزیر اعظم بے نظیرکو دو سال بھی پورے نہ کرنے دیے۔ 1993ء کے (وسط مدتی) انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی سولہ سترہ نشستیں زیادہ جیت لی تھیں (اس ”کارِ خیر‘‘ میں قاضی صاحب مرحوم کے پاکستان اسلامک فرنٹ کا حصہ بھی کم نہ تھا) پنجاب میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے مسلم لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی‘ لیکن اس دور کی ہئیت مقتدرہ اس میں حائل ہوئی کہ تب وفاق اور صوبے میں ”ہم آہنگی‘‘ قومی مفاد کا تقاضا تھی۔ اب 2018ء میں پھر یہ بات کیسے ممکن ہے کہ وفاق میں عمران خان کی حکومت ہو اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس کے حریفوں کے سپرد کر دیا جائے‘ جن سے نجات کے لیے حالیہ ماہ و سال میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔
25 جولائی کے انتخابات میں کئی دلچسپ اپ سیٹ ہوئے۔ راولپنڈی کے حلقہ 62 میں آسان جیت خود جیتنے والے کے گمان میں بھی نہ تھی۔ اس نے تمام امیدیں حنیف عباسی والے حلقہ 60 ہی سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ عباسی کی نااہلی اس کے لیے ”بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا‘‘ والی بات تھی‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے اس حلقے میں الیکشن کا التوا اس کے لیے سخت تشویش کا باعث تھا۔ اس کے خلاف وہ سپریم کورٹ تک پہنچا‘ لیکن وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ حلقہ 62 میں چودھری تنویر کے صاحبزادے دانیال کے مقابلے میں شیخ کی جیت، اس پر قدرت کی خاص مہربانی ہی کہلائے گی، اب حلقہ 60 کے الیکشن میں وہ اپنے بھتیجے شیخ شفیق ارشد کو میدان میں اتارے گا (اگر پی ٹی آئی نے یہاں اپنا امیدوار لانے کا فیصلہ نہ کیا)۔
چودھری نثار قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں اپنے دیرینہ حریف (پی ٹی آئی والے) غلام سرور سے خاصے معقول مارجن سے ہار گئے؛ البتہ دو میں سے ایک صوبائی سیٹ جیت لی، لیکن چکری کے چودھری اور پوٹھوہار کے ”مردِ آہن‘‘ کے لیے یہ جیت بھی کوئی جیت ہے۔ الیکشن سے پہلے دور کی خبر لانے والے بعض سیاسی پنڈتوں کی زبانی یہ کہانی بھی سنی گئی کہ وعدے وعید ہو گئے ہیں، وفاق میں عمران خان اور پنجاب میں اس کا ایچی سن کالج کے دِنوں کا دوست چوہدری نثار علی خاں حکمران ہو گا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی ملتان والے سجادہ نشین کا بھی دیرینہ خواب ہے لیکن صوبائی سیٹ پر قسمت نے یاوری نہ کی۔ نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے آغاز میں پنجاب کے گورنر ہائوس کے مکین چودھری سرور کا نیا خواب وزارتِ اعلیٰ تھی‘ جس کے لیے انہوں نے پی ٹی آئی کا رخ کیا، اپنے خواب کی تعبیر کے لیے لابی بھی کرتے رہے، لاہور میں اپنا سیکرٹریٹ بھی بنایا، پیسہ بھی خرچ کیا لیکن آخرکار سینیٹ کی رکنیت پر ہی صبر شکر کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے، اب علیم خان، وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ لاہور میں وہ سابق سپیکر ایاز صادق کے ہاتھوں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے؛ البتہ دو صوبائی سیٹوں میں سے ایک جیت لی۔ جہلم والے چودھری فواد بھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ لیکن اپنی ادلتی بدلتی وفاداریوں کے علاوہ، وہ اس منصب کے لیے خاصے جونیئر بھی لگتے ہیں۔
لاہور کے حلقہ 131 میں سعد رفیق، عمران خان کے لیے خاصے سخت جان حریف ثابت ہوئے۔ خان کی صرف 680 ووٹوں کی سبقت کو سعد رفیق تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اسے 50 کروڑ روپے سے خریدی ہوئی ”فتح ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ الیکشن سے کوئی ہفتہ بھر پہلے جہادِ افغانستان والے جنرل اختر عبدالرحمن کے بڑے صاحبزادے ہمایوں اختر کی پی ٹی آئی میں شمولیت، یہاں خان کے لیے قدرت کی طرف سے فیصلہ کن مدد ثابت ہوئی جس نے پانسہ پلٹ دیا۔ ہمایوں اختر اس حلقے سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ پیسہ خرچنے میں وہ علیم خان سے زیادہ نہیں، تو کم بھی نہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی ہارون اختر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر ہیں (نوازشریف اور خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ میں، اقتصادی امور پر ان کے مشیر بھی رہے) مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ انتخابی منشور کے مصنفین میں ہمایوں کا نام بھی تھا۔ کہا جاتا ہے، وہ اس وعدے پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے کہ عمران خان یہ سیٹ جیت کر خالی کریں گے تو یہاں پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہمایوں کو ملے گا‘ لیکن خان نے یہ وعدہ تو جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے صاحبزادے ولید اقبال سے بھی کر رکھا ہے جو اس حلقے میں خان کی انتخابی مہم چلا رہا تھا۔
پی ٹی آئی کی آئرن لیڈی یاسمین راشد کی شکست بھی بہت سوں کے لیے خلافِ توقع ہے۔ 2013ء کے انتخاب میں وہ نواز شریف کی حریف تھیں‘ اور میاں صاحب کے 91 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں، 52 ہزار ووٹوں کے ساتھ وہ دوسرے نمبر پر رہیں۔ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد، گزشتہ سال کے ضمنی انتخاب میں وہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے مد مقابل تھیں اور مریم کی تندوتیز مہم کے باوجود، صرف 15 ہزار ووٹوں سے ہاری تھیں (اس میں تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ والوں کے بارہ ہزار ووٹوں کا بھی دخل تھا، جو کئی عشروں سے روایتی طور پر مسلم لیگ کے ووٹروں میں شمار ہوتے تھے) اب یہ حلقہ نمبر125 ہے اور یہاں ان کے حریف وحید عالم خان تھے (انہوں نے گزشتہ الیکشن شہر کے دوسرے کونے پر ٹائون شپ سے جیتا تھا) خود مسلم لیگیوں کے خیال میں یہ سیٹ اب زیادہ محفوظ نہ تھی، لیکن نوازشریف کے بیانیے نے کمال دکھایا اور یاسمین راشد کے 1,05,557 ووٹوں کے مقابلے میں وحید عالم خان 1,22,327 ووٹوں سے جیت گئے۔
2013 میں لاہور کی 13نشستوں میں سے صرف ایک پی ٹی آئی کے حصے میں آئی تھی۔ اس بار یہاں 14نشستیں تھیں‘ جن میں سے 4 پی ٹی آئی نے جیت لیں۔ 30 صوبائی نشستوں میں سے صرف 8 اس کے حصے میں آئیں، کئی دیدہ و نادیدہ عوامل، اور سخت مشکلات کے باوجود مسلم لیگ(ن) نے لاہور کے قلعے کو بچا لیا۔ البتہ اس میں پڑنے والی دراڑیں، اس کے لیے لمحۂ فکریہ ضرور ہونی چاہئیں۔