قومی سلامتی؟…محمد فاروق چوہان
اسلام آباد میں ٹریفک اشارہ توڑتے ہوئے گاڑی کی ٹکر سے پاکستانی شہری عتیق بیگ کو ہلاک کرنے والے امریکی کرنل و دفاعی اتاشی قاتل کرنل جوزف کو بچانے کے لئے بیرونی عناصر سرگرم ہوگئے ہیں شنید ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح ایک بار پھر عتیق بیگ کے ورثا کو دیت کا پیغام دیا گیا ہے۔ دیت طے ہونے کی صورت میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کی طرح پھر ادائیگی وفاقی حکومت کو ہی کرنی پڑے گی۔ اسلام آباد پولیس کی طرف سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں امریکی کرنل کے شراب کے نشے میں دھت ہوکر ڈرائیونگ کرنے کا معاملہ گول کرنے سے کیس کمزور ہوچکا ہے۔ اب ریمنڈ ڈیوس کی طرح قاتل کرنل جوزف کو بھی ڈرامائی انداز میں دیت ادا کرکے امریکہ واپس بھجوا دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس نے حادثے کے بعد امریکی کرنل کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ کرنل جوزف کا میڈیکل کیوں نہیں کرایا گیا؟ اور موقع پر موجود گواہوں کے بیانات آخر کیوں ریکارڈ نہیں کئے گئے؟ کرنل جوزف کے سنگین معاملے پر اسلام آباد پولیس کی نااہلی واضح طور پر سامنے آگئی ہے۔ مقتول عتیق بیگ کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بالواسطہ پیسوں کی آفر اور امریکی ویزوں کا لالچ دیا جارہا ہے لیکن ہم ڈالروں پر بکنے والے نہیں ہیں۔ ہم جلد انصاف چاہتے ہیں اور کرنل جوزف کو پھانسی پر چڑھتا
دیکھنا چاہتے ہیں۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی کرنل جوزف نے نشے کی حالت میں ٹریفک سگنل توڑتے ہوئے عتیق بیگ کو ہلاک کیا اور اس واقعہ میں عتیق کا دوست شدید زخمی ہوا۔ ماضی میں ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی جاسوس نے 2 پاکستانی شہریوں کو لاہور میں اپنے پستول سے قتل کردیا تھا اور اس کی مدد کو آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے مزید ایک شہری کو کچل کر ہلاک کردیا تھا۔ حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس نے The Contractor کے ٹائٹل کے ساتھ کتاب لکھ کر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ وہ امریکی سفارتکار نہیں بلکہ ایک جاسوس تھا۔ پانچ سال قبل بھی فروری2013 میں اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی نے اسلام آباد میں ٹریفک سگنل توڑ کر ایک پاکستانی سرکاری ملازم کو کچل کر شہید اور اس کے دوست کو شدید زخمی کردیا تھا مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ قاتل امریکی تھا۔ اب ایک اور امریکی کرنل جوزف نے ایک اور پاکستانی کو شہید کردیا ہے۔ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر سیاسی قیادت کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ ان واقعات کو سامنے رکھیں اور پھر قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی15 سالہ طویل پرتشدد قید تنہائی کا جائزہ لیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ امریکیوں نے پاکستان کے قوانین کی اس قدر سنگین خلاف ورزی کی کہ5 پاکستانیوں کی جانیں چلی گئیں مگر امریکی قاتل مکمل پروٹوکول کے ساتھ چھوڑ دیئے گئے کیونکہ ہمارے ملک میں قانون بہت کمزور ہے مگر اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی تناظر میں عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی پاکستانی سفارتکار امریکہ میں ٹریفک سگنل توڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اگر کوئی امریکی کسی پاکستانی سفارتکار کی گاڑی سے اس طرح کچل کر مارا جائے کہ ٹریفک کا اشارہ بھی توڑا گیا ہو تو امریکی معاشرہ کا احتجاج اور امریکی میڈیا کے کردار کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ مگر ہمارے معاشرے پر کیوں سکوت چھایا ہوا ہے؟ جو لوگ سفارتی استثنیٰ کی بات کررہے ہیں وہ جواب دیں کیا قاتل کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے؟ عافیہ کو تو مکمل استثنیٰ حاصل تھا، پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسے افغانستان سے امریکہ منتقل کرکے ایک جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ چلایا گیا تھا۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے عافیہ پر مقدمہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ معاملہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی باعزت وطن واپسی کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ اس معاملے کو اس طرح حل کیا جائے کہ عتیق بیگ کے لواحقین کو انصاف ملے اور عافیہ کی وطن واپسی ہوجائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جسٹس(ر)جاوید اقبال کے انکشاف کے بعد ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف قومی مجرم ہیں انہیں پاکستان واپس لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ احتساب سب کا اور بلاامتیاز ہونا چاہئے۔ جنرل پرویز مشرف کے جرائم کی لسٹ خاصی طویل ہے، انہوں نے امریکی ڈالروں کے عوض ملکی سلامتی و خودمختاری کا سودا کیا۔ سابق ڈکٹیٹر نے اپنی کتاب میں بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو امریکہ اور دوسرے ملکوں کے حوالے کیا۔ اس وقت وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو تھے۔ پارلیمنٹ کو یہ پوچھنا چاہئے کہ آخر قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو کس قانون کے تحت غیرملکیوں کے حوالے کیا گیا؟ جنرل پرویز مشرف نے 2بار آئین کو توڑا اور ان پر غداری کامقدمہ درج ہے۔ انہیں قانون وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستان میں لاکر احتسابی عمل سے گزارنا چاہئے وگرنہ احتساب ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی امریکی جیل سے چھڑا کر جلد پاکستان واپس لائے اور دیگر لاپتہ پاکستانیوں کا معاملہ بھی حل کیا جائے۔ سابق ڈکٹیٹرجنرل (ر) پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کا خمیازہ آج بھی ہمارے سول وعسکری قیادت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور اب آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی کاوشوں سے فوج کا مورال بہت بہتر ہوا ہے۔ پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات کے بعد سابق آرمی سربراہوں اور موجودہ سپہ سالار کے غیرمعمولی وژن اور مسلسل جدوجہد سے پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت میں اضافہ ہوا ہے اور فوج کا ادارہ سیاست سے دور ہوگیا ہے۔ یہ ایک اچھام اقدام ہے کیونکہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں ملکی سیاست میں عسکری ادارے کے الجھنے سے خاصے مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ اب عدلیہ کا ادارہ مضبوط اور متحرک ہونے سے قومی اداروں کے درمیان توازن قائم ہوگیا ہے۔نائن الیون کے بعد جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے منظرنامے میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان عالم اسلام کی سب سے بڑی مضبوط فوج رکھنے والا وہ ملک ہے جو دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوا۔ اُس کی وجہ پاکستان کا ایٹمی قوت اور مضبوط فوج کا حامل ہونا ہے۔ قومی سلامتی و خودمختاری کے لئے پاک فوج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ اسی تناظر میں ملک کی نامور مصنفہ سیدہ نور الصباح ہاشمی نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی نئی کتاب ’’فوج نے پاکستان کو کیا دیا؟‘‘میں لکھا ہے کہ میں ان عظیم المرتبت مائوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں کہ جنہوں نے ایسے بہادر سپوت پیدا کئے۔ وہ لکھتی ہیں کہ فوج میں کیسے انسان ہیں کہ جن کو موت کا خوف نہیں ہوتا جو بقائے اسلام اور بقائے پاکستان کے لئے اپنی جانیں قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر و اعزاز سمجھتے ہیں۔ میں اسلام کے اُن عظیم سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جن کے مقدس لہو کی بدولت یہ وطن وعزیز قائم و دائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔