یک زمانہ ہوا کہ لاہور میں باقاعدہ مارشل لاء لگایا گیا تھا۔ یہ مارشل لاء باقاعدہ اس لیے تھا کہ یہ ایک غیر معمولی حرکت یعنی ایک فرقہ وارانہ مسئلے پر قابو پانے کے لیے لگایا گیا تھا۔ میں ان دنوں لاہور میں ایک دینی اور سیاسی جماعت کا ورکر تھا اور میری ڈیوٹی اس ایمبولینس گاڑی پر تھی جو باہمی لڑائی جھگڑے یا مارشل لاء کی گولی سے زخمی یا مر جانے والوں کو اسپتال یا ان کے گھروں کو لے جاتی تھی۔
میں اس گاڑی میں شہر میں گھومتا پھرتا تھا۔ خصوصاً جس جگہ مارشل لاء والے فوجی جمع ہوتے تھے کیونکہ یہ کسی شکار کی تلاش میں ہوتے اور جلد ہی ان کا شکار ان کے قابو میں آ جاتا تھا جسے وہ گولی سے اڑا دیتے تھے پولیس کی طرح ان کے پاس کوئی ہتھکڑی یا کسی ملزم کو قابو کرنے کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی صرف ایک بندوق اور اس میں گولی ہوتی تھی جو وہ کسی شر پسند پر داغ دیتے تھے۔
ہم جو فوج کے کسی ایسے شکار کی تلاش میں ہوتے فوراً اسے اٹھا لیتے اور سیدھے اسپتال چلے جاتے جہاں اس ’مریض‘ کا علاج شروع ہو جاتا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی انسان کو گولی کا شکار ہوتے دیکھا۔ عجیب و غریب نظارے آنکھوں کے سامنے سے گزرے ایک نوجوان نعرے لگاتا ہوا گھر سے باہر سڑک پر آیا اور اس کی تاک میں کھڑے کسی فوجی نے اسے گولی مار دی جو ہمیشہ ایسی جگہ لگتی جس سے اس کی جان پر بن جاتی۔ شاید فوجیوں کی نشانہ بازی کی تربیت میں یہ بھی شامل تھا کہ کسی انسان کو اس کے جسم کے کس حصے پر گولی مارنی چاہیے جس سے اس کی جان جائے یا وہ بے بس ہو جائے۔
بہر کیف اس ڈیوٹی پر جان سے گزرنے والوں کو دیکھا اور بے بس ہونے والوں کو بھی دیکھا اور نہ صرف دیکھا بلکہ ان کو بچانے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کی۔ یہ اس پہلے مارشل لاء کا سرسری سا ذکر تھا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پتہ چلا کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے۔ نہ معلوم یہ غیر انسانی فعل کس نے ایجاد کیا یا کسی فوجی ایکشن کو کس نے مارشل لاء کا رنگ دیا۔ حوالے کا کتابوں میں یہ سب درج ہے مگر اس ناگوار فعل کے بارے میں معلومات کیوں حاصل کریں اب وہ وقت گزر گیا جب کسی معاملے کی تہہ تک پہنچا جاتا تھا اب تو نئے زمانے کے قارئین ہی تنگ آ جاتے ہیں اور جلد از جلد مختصر سے الفاظ میں بات سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ تو اس پہلے مارشل لاء کا سرسری سا تذکرہ تھا جس نے لاہور کی دکانوں پر جالیاں لگوا دی تھیں اور کسی دودھ دہی کی دکان میں مکھی دکھائی نہیں دیتی تھی ورنہ اس پر حلوائی پر جرمانہ ہو سکتا تھا اور عدالت میں خجل خواری الگ۔ مارشل لاء والوں کی گاڑیاں بازاروں میں گشت کیا کرتی تھیں۔ ان سے جہاں بازاروں کا معائنہ کیا جاتا تھا وہاں انھیں خواتین بچوں اور بزرگوں کی خدمت کرتے بھی دیکھا لیکن میں جس مارشل لاء نما قسم کی انتظامیہ کو دیکھ رہا ہوں وہ ذرا مختلف اور بہت نرم ہے۔ ہمارے جرنیل راحیل شریف کے حکم پر پنجاب میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور پہلے ہی روز ساڑھے تین سو سے زائد مشتبہ لوگ پکڑے گئے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کے کئی اضلاع میں فوج اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ جنرل راحیل نے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں انھوں نے فوجی آپریشن کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ انھیں بتایا گیا کہ بڑی مقدار میں اسلحہ بارود بھی پکڑا گیا ہے دہشت گردی کے خلاف اس آپریشن کی نگرانی جنرل صاحب بذات خود کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی حال میں بخشا نہیں جائے گا اور ان کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رہے گی۔
معلوم ہوا کہ فوج نے سول حکام سے بار بار کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ کارروائی کریں لیکن وہ ٹال مٹول کرتے رہے۔ جب فوج نے دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کا کام شروع کیا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غیر معمولی حد تک مخالفت کی لیکن فوج کے پاس خود کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہ تھا چنانچہ فوج نے تنگ آ کر اب خود خالصتاً ملٹری آپریشن شروع کر دیا ہے جس کی قیادت خود آرمی چیف کر رہے ہیں۔
اس آپریشن میں پاک فوج، رینجر، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کام کر رہی ہیں۔ جنرل صاحب نے شروع میں ہی دو اہم اجلاسوں کی صدارت کی جو دیر تک جاری رہے اور گرفتاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ ایک اجلاس وزیراعظم نے بھی طلب کیا تھا جس میں وزیراعظم کے ساتھ میاں شہباز بھی شامل تھے۔ اندازہ ہوا کہ سول حکومت صحیح کام نہیں کر رہی ہے خود فوج بھی سول حکام سے بددل تھی چنانچہ اس ساری صورت حال کا ایک ہی علاج تھا کہ امن و امان کے مسئلے کو فوج سنبھال لے چنانچہ فوج نے آپریشن شروع کر دیا جس میں فوج کے تمام شعبے سرگرم کر دیے گئے اور عملاً تمام کارروائی فوج نے خود سنبھال لی۔
لاہور کے خود کش حملے کے بعد فوج کا فوری اجلاس ہوا جس کے بعد چیف نے حکم دیا کہ ملٹری آپریشن فوری شروع کیا جائے اور ساتھ ہی چیف نے یہ حکم بھی دیا کہ یہ آپریشن صوبائی اداروں اور پولیس کے اشتراک سے نہیں کیا جائے گا اور یہ ایک خالصتاً فوجی آپریشن ہو گا اور اس ضمن میں کسی قسم کا سیاسی دباؤ یا حکومتی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا یوں یہ ایک خالصتاً فوجی آپریشن ہو گا۔ فی الحال فوج کی اس کارروائی کو ’ملٹری آپریشن‘ کا نام دیا گیا ہے جو عملاً مارشل لاء تو نہیں لیکن اس سے جدا بھی نہیں۔